جو یادِ نبی میں نکلتے ہیں آنسو

گراں موتیوں میں وہ ڈھلتے ہیں آنسو

اُمڈتا ہے آنکھوں میں گویا سمندر

جو دھیرے سے پلکوں پہ چلتے ہیں آنسو

جونہی یاد آتی ہیں طیبہ کی گلیاں

نہیں پھر سنبھالے سنبھلتے ہیں آنسو

تصور میں لاتا ہوں جب بھی مدینہ

تو بے ساختہ یہ ابلتے ہیں آنسو

گریں گے یہ ارضِ مدینہ پہ جا کر

مری چشمِ تر میں جو پلتے ہیں آنسو

خوشا! ان کا روضہ مرے سامنے ہے

نکلنے کو اب یہ مچلتے ہیں آنسو

اثاثہ یہی ہیں جلیلِ حزیں کا

جو نکلیں تو قسمت بدلتے ہیں آنسو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]