ماہِ میلاد ہے اک دعا مانگ لیں
بس درِمصطفٰی پر قضا مانگ لیں
وہ خدا کی عطا وہ قسیمِ عطا
آؤ قاسم کے در سے عطا مانگ لیں
ان کو ہر شے کی کثرت عطا ہو گئی
آنے والے خدا جانے کیا مانگ لیں
ہر جگہ جن کو صحبت ملی آپ کی
کچھ انہی سے ہی صدق و صفا مانگ لیں
عدل و انصاف ہی جن کی پہچان ہے
عدل کی ان سے کچھ تو ضیا مانگ لیں
جن سے کرتے ہیں رب کے فرشتے حیا
آئیں عثمان سے کچھ حیا مانگ لیں
پیکرِ علم و عجز و ذکا ہیں حسن
ابن حیدر سے فہم و ذکا مانگ لیں
جن کی گھٹی میں فیضِ نبی و علی
غوثِ اعظم کے در سے وفا مانگ لیں
وہ بھکاری کو دیتے ہیں اتنا کہ پھر
سوجھتا ہی نہیں اور کیا مانگ لیں
خوب ہیں وہ جو سجدے ہیں سجاد کے
ہم جلیل ان سے طرزِ ادا مانگ لیں