ذہن ماؤف ہوا ہے تو بدن شل آخر

ائے مرے عمر کے خورشید ، کہیں ڈھل آخر

تھی مرے گرد دہکتے ہوئے تانبے سی فضا

بھاپ ہونا تھا ترے پیار کا بادل آخر

درد کا حد سے گزرنا ہی مداوا ٹھہرا

کر دیے کرب نے اوسان معطل آخر

تو کہ تکمیل کا خواہاں تھا سو یوں ہے اب کے

قصہِ عمر کیا میں نے مکمل آخر

ابتدا میں تو فقط گھاس نے ڈھانپی راہیں

آ لگا ہے مری دہلیز سے جنگل آخر

عمر وہ وقت جو دھنستے چلے جانے میں لگے

ایک دن مجھ کو نگل جائے گی دلدل آخر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]