منبروں اور مسجدوں سے پرے
کوئی مسلک ہو سرحدوں سے پرے
اک حقائق کی نرتکی اب تک
رقص کرت ہے معبدوں سے پرے
ہم ہیں مدفون اک حکایت میں
مقبروں اور مرقدوں سے پرے
گونجتا تھا مہیب سناٹا
ضبط کی آخری حدوں سے پرے
تیرگی اوڑھ کر چلا آیا
دل ، محبت کے شبکدوں سے پرے
مرگ کے معجزوں کی سرحد ہے
عشق کے چند شعبدوں سے پرے