رُخِ سرکار کا جلوہ نظر آئے تو کیا کہنے!

بلاوا مجھ کو بھی طیبہ سے آ جائے تو کیا کہنے!

کروں شام و سحر چرچا دُرودِ پاک کا یارو!

مقدرّ کاش! میرا بھی یوں بن پائے تو کیا کہنے!

میرا جو رزق ہے آقا وہی ہے آپ کا صدقہ

وہی صدقہ میرا گھر بار بھی کھائے تو کیا کہنے!

سُلگتی دھوپ میں روزِ جزا اے رحمتِ عالم!

میسّر ہو گئے گر آپ کے سائے تو کیا کہنے!

ابو ایّوب کی مانند میرے گھر کا آقا جی

ستارہ میری قسمت کا چَمک جائے تو کیا کہنے!

تمہیں آقا نے بلوایا رضاؔ آئو چلیں طیبہ

مدینے پاک سے کوئی خبر لائے تو کیا کہنے!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]