عشق سلطانِ دو سرا کیا ہے

ہے عطا رب کی اور کیا، کیا ہے

جو فقیرانِ کوئے طیبہ ہیں

اُن کی عظمت کا پوچھنا کیا ہے

کیف و مستی ہے لب پہ نعتِ نبی

یہ نجانے مجھے ہوا کیا ہے

خواہشیں ساری جانتے ہیں حضور

کیا بتاؤں کہ مدعا کیا ہے

عاشقِ مصطفیٰ ہی جانتا ہے

عاشقی کیا ہے اور وفا کیا ہے

جابجا مصطفائی جلوے ہیں

کیا نجف اور کربلا کیا ہے

اُن پہ ہر دم درود پڑھتے رہو

یہ عبادت ہے سوچنا کیا ہے

میرے سرکار جانتے ہیں مری

آرزو کیا ہے اور دُعا کیا ہے

کیوں دھڑکتا ہے اتنی شدت سے

’’دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے‘‘

تم کو معلوم ہی نہیں خاکیؔ

دیدِ سرکار کا مزا کیا ہے

(برزمینِ مرزا غالبؔ)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]