زمین و آسماں گُونجے بیک آواز، بسم اللہ

طلوعِ صبحِ مدحت کا ہُوا آغاز، بسم اللہ

حرا سے کعبہ و عرشِ عُلا تک جلوہ فرمائی

زمینِ دل پہ بھی فرمائیے گا ناز، بسم اللہ

میانِ حشر ہوں گی جب ’’الیٰ غیری‘​‘​ کی تدبیریں

کہیں گے ہم گنہگاروں کو چارہ ساز بسم اللہ

اٹھے تعلیق کے نقشے جدارِ کعبۃ اللہ سے

ترے نطقِ بلاغت کا تھا یہ اعجاز بسم اللہ

ابھی سوچا ہی تھا مَیں نے تری مدحت سرائی کا

مضامیں غیب سے آئے بصد انداز، بسم اللہ

ترے در کا کوئی لکنت زدہ بھی گر دہن کھولے

زمانہ کہہ اٹھے گا، طوطئ شیراز بسم اللہ

’’ بلیٰ‘​‘​ کے ساتھ ہی تارِ درودی چھیڑ ڈالے تھے

درونِ روح بجتا ہے یہی اک ساز بسم اللہ

تحیّر میں ہے تیری رفعتوں کے سامنے رفعت

ورائے فہم ہے تیرا خطِ افراز بسم اللہ

سُنا اے آشنائے نعت پھر سے نُور کا نغمہ

مرا شوقِ فراواں ہے ترا ہمراز، بسم اللہ

بحارِ شورشِ امواجِ حیرت کی روانی ہے

ترا پیشِ خرد ہے چشمۂ اعجاز بسم اللہ

چلو مقصودؔ ! آیا ہے بُلاوا پھر مدینے سے

کہ خود ہی تو ردیفِ نعت ہے غمّاز، بسم اللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]