سایہ افگن تِرا دامان ہے سبحان اللہ

دھوپ محشر کی بھی حیران ہے سبحان اللہ

نُقَبائے مَہِ طیبہ تھے جو سابِق ان میں

اِک مَہِ مَطلَعِ کنعان ہے سبحان اللہ

جس سے عالَم کے حسینوں نے ملاحت پائی

حسنِ شہ کا وہ نمکدان ہے سبحان اللہ

مالکُ المُلک کے محبوب ! تِرے صحرا کا

ذرّہ اِک مُلکِ سُلیمان ہے سبحان اللہ

عقلِ سقراط و ارسطو ہے ترے در کی کنیز

اور بندہ تِرا لقمان ہے سبحان اللہ

ناخنِ شاہ کو کر یاد گرفتارِ بلا !

ساری مشکل ابھی آسان ہے سبحان اللہ

دَم ہے اَموات کا مُحیِی تو لُعابِِ اَقدس

دفعِ بیمارئ اَبدان ہے سبحان اللہ

کیوں نہ حیواں کی زباں سمجھے وہ تلمیذِ خدا

وہ تو بے جاں کا زباں دان ہے سبحان اللہ

قبر کیونکر نہ ہو روشن کہ معظمؔ دل میں

عشقِ سرکار کا لمعان ہے سبحان اللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]