سرمایۂ جمال ہے طیبہ کے شہر میں

محبوب ذوالجلال ہے طیبہ کے شہر میں

خوشبو ہو روشنی ہو ہوا ہو کہ زندگی

ہر شے میں اعتدال ہے طیبہ کے شہر میں

یارب یہاں کی خاک میں مل جائے میری خاک

بس ایک ہی سوال ہے طیبہ کے شہر میں

دل کتنے غم لیے ہوئے آیا تھا لیکن اب

بیگانۂ ملال ہے طیبہ کے شہر میں

ابھرے افق سے اور تمازت بکھیر دے

سورج کی کیا مجال ہے طیبہ کے شہر میں

تمثیل میں جو لاؤں تو کس خلد کو میں لاؤں

وہ حسنِ بے مثال ہے طیبہ کے شہر میں

روئے زمیں پہ کس کی ضرورت ہو اے رضی

جب آمنہ کا لال ہے طیبہ کے شہر میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]