سطوتِ شاہی سے بڑھ کر بے نوائی کا شرَف

مل گیا جس کو ترے در کی گدائی کا شرَف

ذی نِعَم تھے، ذی کرم تھے یوں تو سارے انبیا

آپ نے پایا ہے لیکن مصطفائی کا شرَف

آپ ہی کا ذِکر ہے بے مثل رفعت کا امیں

آپ ہی پر ناز کرتا ہے بڑائی کا شرَف

بے شرَف اظہار میں ڈھلتے نہیں حرف و قلم

نعت کی خدمت میں ہے اب خامہ سائی کا شرَف

لوگ جب کہتے ہیں مجھ کو آپ کا دریوزہ گر

یوں تو پھر بھاتا ہے دل کو خود نمائی کا شرَف

دل ذرا بھی بے طلب کرنا نہیں اس ہجر میں

حضرتِ جامی سے پُوچھو نارسائی کا شرَف

اُن کے بندے کو میسر ہے زمانوں کا خراج

اُن کے دستِ ناز میں دیکھو تو رائی کا شرَف

آپ کی عظمت نشاں دہلیز کے اکرام پر

ایڑیاں رگڑے گا ہر اک نا خُدائی کا شرَف

سب شرَف اس نسبتِ بے مثل سے ہیں منعکس

کافی ہے مقصودؔ مجھ کو خاک پائی کا شرَف

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]