شہر میں اسلحہ بلوائی لیے بیٹھے ہیں

اور ہم شکوۂ تنہائی لیے بیٹھے ہیں

مرگ تو گھات میں ہے اور ادب کے معمار

فن کی تکمیل یہ سوادائی لیے بیٹھے ہیں

اتھلے پانی سے برآمد ہوئی لاشیں اور ہم

فکرِ اقبال کی گہرائی لیے بیٹھے ہیں

غالبؔ و میرؔ نے کس کس سے محبت کی تھی

غم یہ تحقیق کے شیدائی لیے بیٹھے ہیں

ذوقؔ کو ملتی تھی تنخواہ ظفرؔ سے کتنی

کتنی تھی آمدِ بالائی لیے بیٹھے ہیں

جنگ کی فکر ہمیں اور نہ پروائے فساد

ناتوانی میں توانائی لیے بیٹھے ہیں

جن کے اطوار سے مانگے ملک الموت پناہ

اُن سے امیدِ مسیحائی لیے بیٹھے ہیں

دور اب وہ ہے کہ پیرانِ جہاندیدہ کہیں

طفلِ معصوم کی دانائی لیے بیٹھے ہیں

ملک میں شہرت و عزت کے تو دن بیت گئے

اب تو سب خطرۂ رُسوائی لیے بیٹھے ہیں

نام کیا شکل بھی اب یاد نہیں ہے ان کو

اور ہم فخرِ شناسائی لیے بیٹھے ہیں

اپنی وحشت کا بھی افسانہ اب اتنا ہے سحرؔ

گھر میں اک آہوئے صحرائی لیے بیٹھے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]