قربان مقدر پہ ترے وادیٔ ایمن

گزرا ہے ترے سامنے سرکار کا بچپن

کیا شان کہ تُو مولد انور کی امیں ہے

معراج کی نسبت سے بھی ہے تُو ہی مُعَنوَن

وہ غارِ حرا، صحنِ حرم، جنّتِ مَعْلیٰ

جس سمت بھی جائیں وہی انوار کا مخزَن

فاران کی چوٹی سے ہُوا مہر ہویدا

تقدیر ہوئی حضرتِ انسان کی روشن

اِک صوت نے جیسے نئے امکان تراشے

تُو نُور کا مہبط ہُوئی اور خیر کا مسکن

پھر ہجر کے وہ تیرہ برس، تجھ پہ جو بیتے

بے صوت تاثر کے تھے وہ نالہ و شیون

اِک روز وہ پھر ناقہ سوار اپنے جلو میں

لے آیا ترے پاس نصیبوں کے نشیمن

رکھا ہے تری چھاتی پہ عظمت کا تفاخر

تو مرجعِ مخلوق ہے، تخلیق کا کنگن

تکتا ہُوں تجھے صدیوں کے ماقبل زمن میں

سیراب مجھے کرتا ہے اُس یاد کا دھووَن

حیراں ہُوں کہ کس طَور کھُلے عقدئہ حیرت

منقوش طلسمات سے پُر ہے ترا دامن

اے شہرِ عبادت! مری غُربت کی خبر لے

پتھر ترے گوہر ہیں تو مٹی تری کُندن

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]