میں تھک گیا ہوں اجالوں میں ڈھونڈ کر اُس کو

اُسے کہو کہ مقدر میں کوئی شام لکھے

تمہارے بعد محبت نے حوصلہ تو دیا

یہ آسرا ہے مگر آسرا ہے تھوڑا سا

اُسے خبر ہی نہیں ہے عقیدتوں کے چراغ

کہاں جلائے کہاں پر بجھائے جاتے ہیں

کبھی جلائے مری شاعری بھرے اوراق

کبھی وہ وصل کے پیغام میرے نام لکھے

کسی کسی سے مری بات کی ہواؤں نے

کسی کسی نے مرا اعتبار بھی نہ کیا

یہ تیری آنکھ میں کس واسطے نمی پھیلی

مجھے خبر تھی جدائی بھی راس آئے گی

فلک کی سرخیاں مجھ کو بتا رہی ہیں کہ وہ

کچھ ایسے رو کے نگاہوں کو لال کرتا ہے

اُسے یہ کس نے سکھائے فنون حیرت کے

وہ اپنے بارے میں مجھ سے سوال کرتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تیری دید چھین کے لے گئی ہے بصیرتیں

تجھے ڈھونڈنا تھا ، چراغ ہاتھ سے گر گیا ترے بعد میرا نصیب ساتھ نہ دے سکا ترے ساتھ ڈالی کمند میں نے نجوم پر تو نے اتنی دور بسا لیا ہے نگر کہ اب تجھے دیکھنے کا غرور خاک میں مل گیا مرے حوصلے کا قصور ہے کہ جو بچ گیا مری سانس سانس […]

اُس نے اتنا تو کرلیا ہوتا

بات بڑھنے سے روک لی ہوتی تیری زلفیں نصیب تھیں ورنہ میں کہیں اور الجھ گیا ہوتا تجھ سے بچھڑے تو ہوگئی فرصت وقت نے کتنی جلد بازی کی میں، مرے زخم، میری تنہائی تجھ سے کس نے کہا ادھورا ہوں آئینے سے تمہارے بارے میں بات کرنا عجیب لگتا ہے بات بے بات چپ […]