نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف

الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف

معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف

بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے

خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف

نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر

تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف

تھا یوں تو جلوہ عام، پہ صدیقؓ کے لیے

حسن و جمالِ شہ کا تھا دیدار مختلف

حق کے لیے ہوئے تھے بہت معرکے مگر

تھی بدر کی ہی گرمیٔ بازار مختلف

رہزن بھی آئے دامنِ خیرالبشر میں جب

فیضِ نظر سے ہو گیا کردار مختلف

شیطاں کی ذُرِّیَت ہے ازل سے عدوئے دیں

لیکن ہے میرے عہد کا آزار مختلف

ایماں کی روشنی سے سخن جگمگا اُٹھے

ہو مدح، رنگِ دیں سے نہ زنہار مختلف

جب جب لکھی ہے مدحتِ آقا تو قلب نے

کیف و سرور پایا ہے ہر بار مختلف

پہنچا ہے فیض ’’شہرِسخن‘‘٭ کا عجب طرح

پاتے ہیں رنگ، نعت کے اشعار مختلف

ہے شعرِ مدح، رنگِ تغزل سے بچ عزیزؔ

لازم ہے یاں سلیقۂ اظہار مختلف

٭اپنے استاد محترم جناب انور خلیل کا مجموعہء کلام ’’شہرِ سخن‘‘ دیکھ رہا تھا کہ ایک مصرعے

پر نظر ٹک گئی اور بعد ازاں اسی مصرعے کو اپنے لیے طرحی مصرعہ بنالیا۔ شعر تھا (ص۶۰):

رکھتا ہے اک سلیقۂ اظہار، مختلف

سب معترف خلیلؔ کی طرزِ ادا کے ہیں

اتوار: ۱۹؍ذیقعد ۱۴۳۳ھ…مطابق: ۷؍اکتوبر ۲۰۱۲ء

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

شعرِ مدحت کی مجھے کاش یہ قیمت دی جائے

یعنی خوشنودیٔ آقا کی بشارت دی جائے اک نگاہِ کرمِ خاص کی پاؤں میں خبر محفلِ شاہ کو دیکھوں وہ بصارت دی جائے شعر لفظوں میں ڈھلیں اور اجالے ہوں رقم بے عمل فکر کو تعبیر میں حَرَکت دی جائے دور رہ کر جو کرے مدح و ثنائے سرور عرضِ طیبہ کی اُسے مُزْد میں، […]