مقتبس جلوۂ رخ سے جو ہے صبحِ روشن

ظلمتِ شب ہوئی روپوش ترے بالوں میں

آپ کو انس ہے جس سے وہ خدا کو پیارا

آپ سے جس کو محبت ہے وہ دل والوں میں

مکرِ ابلیس سے ہشیار کیا تھا تو نے

ہم مگر آ گئے مکار کی پھر چالوں میں

اب نہ معروف کی تلقیں ہے نہ منکر کی نہی

پھنس کے ہم رہ گئے دنیا ہی کے جنجالوں میں

تری امت کا تو منصب تھا جہاں بانی کا

خیرِ امت وہی اب ہو گئی نقالوں میں

اپنی امت کے تھے رکھوالے پیمبر سارے

شان اونچی ہے مگر آپ کی رکھوالوں میں

کر دیا کام جو تیئیس برس میں تو نے

ہو سکے وہ نہ کسی سے کئی سو سالوں میں

امتی امتی یکساں ہیں نظرؔ میں تیری

فرق رکھا نہ روا گوروں میں اور کالوں میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]