نئی صبح چاہتے ہیں نئی شام چاہتے ہیں

جو یہ روز و شب بدل دے وہ نظام چاہتے ہیں

وہی شاہ چاہتے ہیں جو غلام چاہتے ہیں

کوئی چاہتا ہی کب ہے جو عوام چاہتے ہیں

اسی بات پر ہیں برہم یہ ستم گران عالم

کہ جو چھن گیا ہے ہم سے وہ مقام چاہتے ہیں

کسے حرف حق سناؤں کہ یہاں تو اس کو سننا

نہ خواص چاہتے ہیں نہ عوام چاہتے ہیں

یہ نہیں کہ تو نے بھیجا ہی نہیں پیام کوئی

مگر اک وہی نہ آیا جو پیام چاہتے ہیں

تری راہ دیکھتی ہیں مری تشنہ کام آنکھیں

ترے جلوے میرے گھر کے در و بام چاہتے ہیں

وہ کتاب زندگی ہی نہ ہوئی مرتب اب تک

کہ ہم انتساب جس کا ترے نام چاہتے ہیں

نہ مراد ہو گی پوری کبھی ان شکاریوں کی

مجھے دیکھنا جو زاہدؔ تہ دام چاہتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]