کسی رہگزر کا غبار تھا جو اُڑا دیا

یا سجا دیا کسی بے حسی کی دکان پر

ترا درد مجھ سے خفا نہ ہو کے گزر پڑے

ترا نام لینے کا حوصلہ نہیں ہو رہا

جو شکار کرنے کو آگئے وہ اُجڑ گئے

کہ کسی نے تیر چلا دیا ہے کمان پر

وہ جو کر رہا ہے مری حیات کے فیصلے

وہی شخص، شخص رہا، خدا نہیں ہو رہا

کوئی حرف ٹھیک سے پھر ادا نہیں ہو سکا

ترا نام ایسے اٹک گیا ہے زبان پر

ابھی گم ہوں اپنی اداسیوں کے حصار میں

ترا سلسلہ ابھی جا بجا نہیں ہو رہا

مرے خواب بھی کسی اور راہ پہ چل پڑے

مجھے اک خیال پہ سوچنے بھی نہیں دیا

ترا درد بھی مری ذات سے نہ نکل سکا

مرا ضبط مجھ سے ابھی خفا نہیں ہو رہا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تیری دید چھین کے لے گئی ہے بصیرتیں

تجھے ڈھونڈنا تھا ، چراغ ہاتھ سے گر گیا ترے بعد میرا نصیب ساتھ نہ دے سکا ترے ساتھ ڈالی کمند میں نے نجوم پر تو نے اتنی دور بسا لیا ہے نگر کہ اب تجھے دیکھنے کا غرور خاک میں مل گیا مرے حوصلے کا قصور ہے کہ جو بچ گیا مری سانس سانس […]

اُس نے اتنا تو کرلیا ہوتا

بات بڑھنے سے روک لی ہوتی تیری زلفیں نصیب تھیں ورنہ میں کہیں اور الجھ گیا ہوتا تجھ سے بچھڑے تو ہوگئی فرصت وقت نے کتنی جلد بازی کی میں، مرے زخم، میری تنہائی تجھ سے کس نے کہا ادھورا ہوں آئینے سے تمہارے بارے میں بات کرنا عجیب لگتا ہے بات بے بات چپ […]