آج پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر اور سول سرونٹ اے ڈی اظہر کا یوم وفات ہے۔
——
اے ڈی اظہر پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر اور سول سرونٹ تھے۔
اے ڈی اظہر 18 اپریل 1900ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل اور پورا نام احمد الدین اظہر تھا۔ وہ متعدد اعلیٰ حکومتی مناصب پر فائز رہے، اس کے ساتھ سنجیدہ اور فکاہیہ شاعری کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ جاری رکھا۔ ان کے کلام کے تین مجموعے لذتِ آوارگی، گریہ پنہاں اور احوالِ واقعی کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔
اے ڈی اظہر 24 فروری 1974ء کو کراچی میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی کے گورا قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
——
تصانیف
——
لذتِ آوارگی
گریہ پنہاں
احوالِ واقعی
——
اے ڈی اظہر تا اسلم اظہر از ڈاکٹر قمر عباس
——
پاکستان کے قیام کو لگ بھگ سترہ برس ہو ئےتھے۔ قوم محض ڈیڑھ ہی عشرے میں قائدِاعظم محمّد علی جناح،لیاقت علی خاں، خواجہ ناظم الدّین جیسے نام وَر اور مخلص رہنماؤں سے محروم ہو چکی تھی اور پاکستان میں27 اکتوبر 1958 ء کا اوّلین مارشل لا اپنی طاقت اور ہیبت کے ساتھ نافذ تھا۔جب کہ مطلق العنان حکومت کو للکارنے والی سب سے توانا آواز، مغربی پاکستان کے چیف جسٹس ،ایم آر کیانی بھی 1963 ء میں اچانک انتقال کر گئے تھے۔ مُلک کے اوّلین فوجی حکمران، صدر ایّوب خاں کی حکومت کا چھٹا سال تھا۔
لوگوں کو سیاسی ،سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں سے آگاہ رکھنے کے محض دو ہی ذرایع تھے،ایک سرکاری انتظام کے تحت چلنے والا’’ ریڈیو پاکستان‘‘ اور دوسرا قومی اور علاقائی اخبارات، جن میں سے زیادہ تر حکومت کی نگرانی میں کام کیا کرتے۔ ایسے میں نومبر 1964ء میں حکومت کی طرف سے اس قسم کے اعلانات سامنے آنے لگے کہ مُلک میں پہلی بار ٹیلی ویژن متعارف کروایا جا رہا ہے ،جس کی بہ دولت لوگ تفریح اور معلومات کی نئی اور تیز رفتار دنیا میں داخل ہو جائیں گے۔
یہ تمام خبریں لوگوں کے لیے انتہائی خوش گوار ہونے کے ساتھ موجبِ سنسنی بھی تھیں کہ ایک ایسا ذریعہ سامنے آ رہا ہے کہ جس کی مدد سے وہ انسانوں کو اسکرین پر چلتا پھرتا اور گفتگو کرتا دیکھ سکیں گے۔برطانیہ اس معاملے میں پوری دنیا پر سبقت رکھتا تھا کہ وہاں 1936 ء میں ٹی وی متعارف کروایا جا چکا تھا۔اگلا مُلک جس نے اس ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا ،وہ جاپان تھا،جہاں 1938ء -1939ء میں بیسویں صدی کی اس حیرت انگیز ایجاد نے قدم جمائے۔
پاکستان میں اس حوالے سے گفتگو حیران کُن ہی تھی کہ پڑوسی ممالک میں اس ٹیکنالوجی کی کوئی بازگشت تک سُننے میں نہیں آئی تھی اور پاکستان اس عنوان سے اپنے پڑوسی ممالک پر سبقت لے جانے والا تھا۔ در اصل صدر ایّوب خاں نے جب جاپان کا دَورہ کیا ،تو وہ لوگوں پر ٹیلی ویژن کے مرتّب ہونے والے اثرات سے بہت متاثر ہوئے اور یہ منصوبہ بنانے لگے کہ اگر کسی طرح اس ایجاد کو پاکستان میں متعارف کروادیا جائے،تووہ پاکستانی عوام میں بے حد مقبول ہوجائیں گے۔یہ تو اس بات کا ایک پہلو تھا۔
اسی کے ساتھ اس سارے معاملے کے پیچھے پاکستان کے ایک صنعت کار،سیّد واجد علی کا بھی کچھ نہ کچھ حصّہ بتایا جاتاہے۔وہ ایک مشہور خاندان کے فرد تھے،اُن کے والد مراتب علی بھی صاحبِ حیثیت اور اچھی شہرت کے حامل انسان تھے۔ چچا امجد علی برطانوی عہد میں سوِل سرونٹ رہے ۔قیامِ پاکستان کے بعد پچاس کے عشرے میں امریکا میں پاکستان کے سفیر مقرّرہوئے اور 1956ء میں پاکستان کے وزیرِ خزانہ بھی رہے۔ خود واجد علی گورنمنٹ کالج لاہور کے گریجویٹ تھے۔ غیر منقسم ہندوستان میں انڈین آرمی میں کمیشنڈ آفیسر رہے اور اسی حیثیت میں دوسری عالمی جنگ میں شرکت کی۔
چالیس کے عشرے میں فوجی ملازمت ترک کر کے تجارت کی طرف آئے اور رحیم یار خان میں ٹیکسٹائل کی صنعت قائم کی، تحریکِ پاکستان میں بھی پورا حصّہ لیااور پاکستان کے قیام کے بعد تجارت کی طرف بھی بھر پور توجّہ دی۔وہ کھیلوں سے بھی خصوصی دل چسپی رکھتے تھے ۔ ستّر کے عشرے میں پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر رہے۔ اُن کے ادارے نے جاپان کی ایک الیکٹرک کمپنی سے ایک معاہدہ کیا،جس کا مقصد پاکستان میں ٹیلی ویژن کے قیام کی داغ بیل ڈالنا تھا۔یہ بات چیت خاصے عرصے تک جاری رہی اور اس اثنا آزمائشی نشریات کو بھی جانچ پڑتال کے مراحل سے گزارا گیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر قتیل شفائی کا یوم وفات
——
جب صدر ایّوب خاں کو اس پیش رفت کی اطلاع ہوئی، تو اُنہیں خیال آیا کہ اُن کی حکومت نے بھی اس معاملے میں کچھ کام کیا ہے،لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اب اس حوالے سےحکومتی سطح پر پیش قدمی کی جائے۔چناں چہ اس پورے معاملے میں حکومت نے اپنا وزن ڈال دیا۔یوں 26 نومبر 1964 ء کولاہور سے پاکستان ٹیلی وژن کی باقاعدہ نشریات کا آغاز ہوا۔اُس کے اگلے ہی برس یعنی 1965 ء میں ڈھاکا ، پھر راول پنڈی اور 1966 ء میں کراچی سے نشریات کا آغاز ہوا۔تاہم، اُن پورے سلسلے میں جس شخص نے غیر معمولی کام کیا ،اُن کا نام اسلم اظہر ہے ، جنہیں ’’فادر آف پی ٹی وی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اسلم اظہر کے والد، اے ڈی اظہر ایک نام وَر ادیب، شاعر اور دانش وَر تھےاور اُن کی پیدائش سیال کوٹ میں ہوئی۔گرچہ اعلیٰ سرکاری مناصب پر فائز رہے، مگر ادب سے اُلفت آخر دَم تک قائم رہی۔ اُردو، انگریزی، فارسی، عربی، صَرف و نحو، غرض جامع کمالات۔نام تو احمد دین اظہر تھا،تاہم ادبی دنیا میں اے ڈی اظہر کے نام سے کچھ اس طرح مشہور ہوئے کہ لوگ اصل نام شاید فراموش ہی کر گئے۔مگر دل چسپ بات یہ ہے کہ اے ڈی اظہر کے نام سے شناخت بھی کچھ وقت بعد قائم ہوئی، کیوں کہ ابتدائی وقت میں جب ادبی مضامین تحریر کرتے تو بہ جائے اپنے اصلی نام کے، قلمی نام کا سہارا لیتے اور یہ نام ’’ملّا نصر الدین ‘‘اور ’’الف م شمس‘‘ ہوتا۔ برطانوی راج کے دِنوں ہی سے سرکاری ملازمت کیا کرتے۔
اے ڈی اظہر کے والد گرچہ نصابی تعلیم سے بے بہرہ تھے، لیکن وہ تعلیم کی اہمیت سے اچھی طرح واقف تھے۔ اُن کی توجّہ کا مرکز دینی میدان رہا،انہیں علماء کی صحبت بہت بھاتی تھی۔تاہم، اُن کے لیے دو باتیں پریشان کُن تھیں، اوّل یہ کہ اُن کے گاؤں میں کوئی تعلیمی ادارہ یا مدرسہ نہیں تھا،دوم یہ کہ اُن کا بچّہ جسمانی طور پر خاصا کم زور تھا۔وہ بہت کوشش کرتے کہ بچّہ کھیل کود میں دل چسپی لے،لیکن وہ اپنی دنیا ہی میں مگن رہتا۔ گاؤںمیںتربیت کی واحد جگہ مسجد تھی کہ جہاں مولوی صاحب محلّے کے تمام بچّوں کو درس دیا کرتے۔
نماز، روزہ، درسِ کلامِ پاک اور روزمرّہ زندگی کےمسائل ہی سے دنیا شروع ہوتی اور اُن ہی پر ختم ہو جاتی۔ احمد دین نے یہ سارے اسباق جلدی جلدی ختم کر لیے اور اب طبیعت کو مزید علم کی جستجو لاحق ہوئی،مگر وہاں اُس کا امکان ہی نہ تھا۔تب والد کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ اگر میرا بچّہ فقط ان ہی اُمور تک محدود رہا تو آگے بڑھنے کے امکانات زیادہ روشن نہ ہو سکیں گے، سو تعلیم کی روشنی کو بیٹے کی زندگی میں بکھیرنے کی لگن میں مگن باپ نے بیٹے کو گاؤں سے باہر واقع ایک مکتب میں داخل کروا دیا۔
اپنے گاؤں میںاحمد دین اظہر کی شہرت کی بنیاد کچھ یوں قائم ہوئی تھی کہ مسجد میں مہیّا کتابوں کے اسباق کے بعد اُس نے نور نامہ،مثنوی گلزار ِیوسف،ہیر وارث شاہ ،سیف الملوک کے اسباق نہ صرف یاد کر لیے تھے،بلکہ بآوازِ بلندوبہ سوزِ لحن سنایابھی کرتا۔شروع شروع میں تو احمد دین کو وہاں پڑھنے میں لُطف آیا۔تاہم، پڑھائی سے بے زارچند دوستوں کی صحبت نے اُس کا دل بھی پڑھائی سے اُچاٹ کر دیا اور وہ کھیل کود میں پوری طرح مشغول ہو گیا۔ یہ تبدیلی خود اُس کے لیے یوں خوش بختی کا باعث بنی کہ دوڑ بھاگ اور جسمانی محنت بہت سے عوارض سے چھٹکارے اور نجات کا سبب بن گئی۔ بے نصاب باپ، بیٹے کو بے کتاب دیکھنے کی تاب نہ لا سکا۔ وہ ایک عزم سے سیال کوٹ گیا اور گلستانِ سعدی اور عربی صَرف و نحو کی کتاب لے آیا ۔
بیٹے کو کتاب تھماتے باپ نے تمتماتے چہرے سے ربّ سے دُعا کی کہ’’ بیٹے کا کتاب میں جی لگ جائے‘‘ اور ساتھ ہی بیٹے کو تاکید کی کہ ’’اسے دھیان سے پڑھو گے ، تو آگے ضرور بڑھو گے‘‘شاید یہ قبولیتِ دُعا کی گھڑی تھی کہ اُس کے بعد احمد دین نے کتاب سے ایسا رشتہ استوار کیا کہ ہر جماعت میں ہم جماعتوں سے آگے بھی رہا اور اسکولوں اور کالجوں سے وظیفہ بھی ملتا رہا۔ مضامین تو دیگر بھی پسند آتے تاہم، ریاضی اے ڈی اظہر کا پسندیدہ مضمون ثابت ہوا۔وقت گزرا ، لڑکپن نے رخصت لی اور اے ڈی اظہر نے نوجوانی میں قدم رکھا۔
نوجوان احمد دین کی طبیعت میں بلا کا تنوّع دَر آیا۔ ایک طرف ریاضی سے پسندیدگی انتہا کو پہنچی ہوئی ، تو دوسری جانب انگریزی ادبیات کو پوری طرح ذہن میں منتقل کر لینے کی دُھن۔یوں بی اے آنرز میں انگریزی ادبیات پڑھتے ہوئے اُس میں امتیازی حیثیت سے کام یابی بھی حاصل کر لی۔ یہی نہیں، عربی زبان سےذوق و شوق کا بھی وہ عالم تھاکہ جو دیکھنے والوں کو حیرت میں مبتلا کردیتا کہ آخر یہ نوجوان کن بلندیوں پر پہنچنا چاہتا ہے۔ اُدھر فارسی کا معاملہ یہ رہا کہ منشی فاضل کا امتحان دیا، تو اُس میں بھی کام یابی کے جھنڈے گاڑ دئیے۔
یہی وہ زمانہ بھی تھا کہ اے ڈی اظہر کو شمس العلماء ،مولوی میر حسن کی شاگردی میں رہنے کا موقع ملا۔ یہ وہی مولوی میر حسن تھے کہ جو سیال کوٹ کی زرخیز مٹّی سے جنم لینے والے اقبالؔ اور فیضؔجیسے دیدہ وَر کے بھی استاد رہ چکے تھے،سو اُن کی مضبوط اور گہری شخصیت اے ڈی اظہر کو کیوں کر نہ متاثر کرتی،چناں چہ لائق استاد کے فائق شاگرد ، اے ڈی اظہر نے برملا اس بات کااظہار کیا کہ مولوی میر حسن جیسے استاد اب شاید دیکھنے ہی میں نہیں آتے۔ ہمہ وقت علم کی جستجو میں مگن اے ڈی اظہر کام یابیوںا ور کامرانیوں کی راہ میں مسلسل آگے بڑھتا رہا۔
ریاضی کے مضمون سے شغف نے اپنا رنگ دکھلایا اور ان سرکاری محکموں میں ملازمت ملنے لگی کہ جن کا تعلق مالیات سے تھا۔جلد ہی فکرِ عالی نے اقتصادی خوش حالی کی راہ ہم وار کر دی۔تیس کے عشرے کی ابتدا تھی ،برّصغیر کی سیاست ہنگامہ خیزرُخ اختیار کرتی جا رہی تھی۔ اے ڈی اظہر کی زندگی میں بھی بہت سے ہنگامے جاری تھے کہ اُسی دَوران اُن کی زندگی نے ایک نیا رُخ لیا اور وہ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔
جہاں وہ بہت سے محاذوں پر مصروف تھے،وہاں اب خانگی مصروفیات بھی اُن سے طالبِ وقت کا پیہم تقاضا کرنے لگیں۔اُن کی اہلیہ پڑھی لکھی خاتون تھیں ۔ وہ ایک اسکول میں ریاضی کی تعلیم دیتی تھیں۔ یوں ریاضی سے شغف رکھنے والے اے ڈی اظہر کی شریکِ سفر ، اُن کی شریکِ مضمون بھی ثابت ہوئیں۔
مطالعہ تو زندگی کا ایک حصّہ تھا اور وہ بھی اس شکل میں کہ کتاب پڑھتے پڑھتے اُس کے حاشیے پر قلم چلتا رہتااور کبھی اُن کے اور مصنّف کے خیالات میں اتفاق اور کبھی اختلاف تحریر ی شکل اختیار کر جاتا۔ کتاب خریدنا بھی زندگی کےدیگر کاموں کی طرح ایک لازمی کام کی حیثیت رکھتا۔ کتابوں کی دُکان ہر آن متاثر کرتی۔
——
یہ بھی پڑھیں : ممتاز اردو صوفی شاعر بابا ذہینؔ شاہ تاجی کی برسی
——
جب کبھی کتابوں کی دکان پر جاتے تو دُکان میں داخل ہونے والے پہلے اور باہر آنے والے شاید آخری آدمی ہوتے۔ اُن کامعاملہ اب کچھ اس طرح کا تھا کہ مطالعہ تو گہرا اور رچا بسا تھا ہی اور جاننے پہچاننے والے اُنہیں ایک فرد یا شخص کی بہ جائے محفل یا انجمن قرار دیتے کہ جہاں جاتے، محفل آباد ہو جاتی۔ کبھی کسی مشاعرے کی صدارت، تو کہیں کسی تعلیمی ادارے میں مباحثے کے نگراں۔
کبھی مقالہ پڑھا جا رہا ہے، تو کہیں بحیثیت شاعر غزل یا نظم ۔ کبھی کسی رسالے کے لیے کوئی تحقیقی مضمون لکھا جا رہا ہے، تو کہیں کسی اخبار کے لیے کوئی فرمائشی تحریر رقم ہو رہی ہے۔کہیں عروضی مسائل پر سیرِ حاصل گفتگو ، تو کبھی الفاظ کے مخرج، مخزن، تلفّظ اور اِملا کے سلسلے میں علمی موشگافیاں۔
اسلام کا دیگر ادیان سے موازنہ، برّصغیر کے مختلف علاقوں میں اُردو کی ترویج اور ترقی کی رفتار، پنجاب کی قدیم اور جدید روایات کی تاریخ، غرض موضوعات اَدَق، تاہم لب و لہجہ سادہ اور آسان۔ملازمتی مصروفیات کے باعث اندرونِ مُلک اور بیرونِ ملک بھی سفر درپیش، گویا کارِ معمول میں سے ایک۔آسٹریلیا میں پاکستان کے اوّلین تجارتی کمشنر کے طور پر تعینات کیے گئے۔ پنجاب کے سیکریٹری خزانہ کا اہم منصب بھی سنبھالا۔ یہ اُس وقت کی بات ہے، جب پنجاب کے گورنر سر فرانسس موڈی ہوا کرتے تھے۔
اے ڈی اظہر کی اُردو سے محبت کا اظہار کچھ یوں رنگ لایا کہ وہ اپنے محکمے کے بہت سے اُمور میں اُردو زبان کو فوقیت دیتے۔ اور تو اورایک بڑے سرکاری افسر ہونے کی بِنا پر حکومت کی طرف سے دفتر میں جو الگ اور بڑا کمرا دیا گیا تھا،وہاں اپنے نام کی تختی اور منصب یعنی ’’Finance Secretary:A.D.Azhar ‘‘ کو اُردو میں ’’دبیرِ مالیات: احمد دین اظہر‘‘ میں تبدیل کر دیا اور یوں اپنی زبان سے اُلفت کا عملی مظاہرہ کر کے لوگوں میں اپنی شناخت قائم کی۔ایک طرف دفتری اُمور کی انجام دہی تو دوسری جانب لکھنے پڑھنے سے شغف انتہاکو پہنچا ہوا۔
’’لذّتِ آوارگی‘‘ کے عنوان سے اُن کا مجموعۂ کلام موجود ہے،جس میں اُن کی منتخب غزلیں ، نظمیں شامل ہیں۔ کتاب کا مقدّمہ ممتاز شاعراور ادیب،سیّد ضمیر جعفری کا تحریر کردہ ہے،جسے پڑھ کر اے ڈی اظہر کی زندگی کے بہت سے مخفی گوشے نظروں کے سامنے آ جاتے ہیں۔؏
——
منتخب کلام
——
تھا جس پہ ناز کبھی،اب وہ آرزو نہ رہی
نیازِ عشق کی پہلی سی آبرو نہ رہی
——
تو خواب ہی میں سہی،آ کے خود جواب تو دے
بُجھی بُجھی سی مری آرزو کو آب تو دے
——
وہ کہتے ہیں کچھ دیر ہے فیصلے میں
کہ عُشاق کی عرضیاں اور بھی ہیں
——
تجھ سے جدا ہوئے تو تری یاد بڑھ گئی
آزاد ہو کے قید کی میعاد بڑھ گئی
——
وہ بلاتے تو ہیں مجھ کو مگر اے جذبۂ دل
شوق اتنا بھی نہ بڑھ جائے کہ جائے نہ بنے
——
اک تری بے رخی سے دوست ، کتنے چراغ بجھ گئے
پھول میں رنگ و بو کہاں ، چاند میں چاندنی کہاں
——
مری عاشقی سہی بے اثر ، تری دلبری نے بھی کیا کیا
وہی میں رہا ، وہی بے دلی ، وہی رنگِ لیل و نہار ہے
——
وہ لطف پہ مائل تو ہے کچھ روز سے ، لیکن
بے رُت کی گھٹا آٹھی ہے ، برسے کہ نہ برسے
——
اک عمر جب گزار چکے دل کو ہار کے
شکوے اب اُن سے کون کرے انتظار کے
کس آس سے ہم آئے تھے کس یاس سے چلے
تیرے نگر میں درد کے دو دن گزار کے
——
یہ بات اُن کی طبیعت پہ بار گزری ہے
کہ زندگی مری کیوں خوشگوار گزری ہے
خوشی سے زندگیِ غم گزارنے والو
خزاں تمہارے ہی دم سے بہار گزری ہے
نہیں اٹھائے ہیں اپنوں کے بھی کبھی احساں
ہزار شکر کہ بیگانہ وار گزری ہے
دلِ غریب کو گھر کا ہوا نہ چین نصیب
اُسے تو عمر سرِ راہگزار گزری ہے
نشیمن اپنا ہے پھر برق و باد سے سرشار
نئی بہار بھی کیا سازگار گزری ہے
کوئی مسرتِ لذت مجھے نہ درد کا غم
مری تو زیست ہی مستانہ وار گزری ہے
یہ سادگی تو ذرا دیکھیے ، وہ پوچھتے ہیں
کہ زندگی تری کیوں بے قرار گزری ہے
میں اپنے دعویٔ الفت سے آج باز آیا
گزر گئی ہے ، مگر شرمسار گزری ہے
——
ہمیں دعویٰ تھا دیکھیں گے ، وہ کیونکر یاد آتے ہیں
رگِ جاں بن گئے ہیں ، اب فزوں تر یاد آتے ہیں
خفا تو مجھ سے رہتے ہیں مگر رہتے ہیں دل میں بھی
میں اکثر بھولتا ہوں اور وہ اکثر یاد آتے ہیں
بتوں کی بندگی ہے شکریہ صانع کی صنعت کا
وہ کافر کیوں ہوا جس کو یہ دلبر یاد آتے ہیں
مرا ماضی نظر آیا مجھے حالِ حسیں ہو کر
جو اُن کے ساتھ دیکھے تھے وہ منظر یاد آتے ہیں
میں گُلچیں تھا بہارِ زندگی کے گلستانوں کا
جو دن پھولوں میں بیتے تھے وہ اکثر یاد آتے ہیں
نشہ اترا مگر اب بھی تمہاری مست آنکھوں سے
پیے تھے جو مئے اُلفت کے ساغر یاد آتے ہیں
دیارِ دُور میں مَیں تو نہیں آتا ہوں یاد اُن کو
نہ جانے وہ مجھے پھر کیوں برابر یاد آتے ہیں
بس اب رہنے بھی دے ، سب بے نیازی دیکھ لی تیری
تجھے اب تو وہ ہر مظہر میں اظہرؔ یاد آتے ہیں
——
کچھ بھی اُن پر اثر نہیں دیکھا
عشق سا بے ہنر نہیں دیکھا
اُن کے جوبن کو دیکھ لے جس نے
سرو کو بارور نہیں دیکھا
ایک بجلی نظر میں کوند گئی
اُن کو دیکھا ، مگر نہیں دیکھا
جو کسی دوسرے کے ساتھ چلے
ہم نے وہ ہم سفر نہیں دیکھا
خاک چھانی جہان کی کیا کیا
کوئی اہلِ نظر نہیں دیکھا
ہم نے اظہرؔ کو لاکھ سمجھایا
پھر بھی اُس پر اثر نہیں دیکھا
——
نظم : وزیر کی دوسری شادی
——
کراچی میں کمر باندھے ہوئے سب یار بیٹھے ہیں
بیاہے جا چکے اک بار پھر تیار بیٹھے ہیں
جسے دیکھو وہی ہے دوسری بیوی کے چکر میں
غنیمت ہے موحد جو یہاں دو چار بیٹھے ہیں
نہ چھیڑ اے شیخ ہم یوں ہی بھلے چل راہ لگ اپنی
تجھے تو بیویاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
نہ کر لیں چار جب تک شیخ جی کیوں دم لگیں لینے
وہ دو کر کے بھی کہتے ہیں کہ ہم بے کار بیٹھے ہیں
کہاں اب چین گھر کا جب سے بیوی دوسری آئی
نظر آیا جہاں پر سایۂ دیوار بیٹھے ہیں
بلائے ناگہانی ہے ہوائے زوجہ ثانی
جو بیوی جیت کر اٹھے وزارت ہار بیٹھے ہیں