اب ایسے شخص کو کوئی کہہ کر بھی کیا کہے

جس نے وفا کیے نہیں، پر وعدے خوب تھے

اے رب ذوالجلال! سماعت بھی چھین لے

سن سن کے جھوٹ لوگوں کے، الفاظ چل بسے

غم کے، اذیتوں کے تھے، یا تھے وہ ہجر کے

صد شکر ہم نے کاٹے ہیں،مشکل تھے مرحلے

زندہ دلان شہر تھے کل جن سے منسلک

افسوس ہائے وہ بھی یہاں لوگ مر گئے

پلکیں بچھا کے آپ کا دیکھیں گے راستہ

اے دوست میرے شہر میں جس وقت آئیے

طاہر نہ بھول پائے گا تاعمر میرے دوست

دل سے اتر نہ پائیں گے احسان آپ کے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]