آج ادب اسلامی کے ممتاز شاعر ابو المجاہد زاہد کا یومِ پیدائش ہے۔
——
ابو المجاہد زاہد: بچوں کے اسلامی شاعر از ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
——
میری بچپن کی تعلیم اس عمر میں شروع ہوگئی تھی جو عموماً بچوں کے کھیلنے کودنے کی عمر ہوتی ہے۔ والد محترم نے گھر پر ہی مکتب کھول رکھا تھا جس میں میرے ساتھ گاؤں اور اطراف کے بہت سے بچے پڑھتے تھے۔ ابتدائی تعلیم کے لیے جماعت اسلامی ہند کا تیار کردہ پورا نصاب (ہماری کتاب، سچادین، اخلاقی کہانیاں، عام معلومات، آسان ریاضی وغیرہ) داخل تھا۔ بچپن کی بہت سی یادیں پتھر کی لکیر ہوتی ہیں کہ زندگی بھر ان کا نقش نہیں مٹتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس زمانے میں ’’ہماری کتاب‘‘ کی متعدد نظمیں مجھے بے انتہا پسند آئی تھیں اور میں نے انھیں اتنی بار دہرایا تھا کہ وہ ازبر ہوگئی تھیں۔ اب بھی ذہن پر معمولی زور دینے سے کئی کئی بند تازہ ہوجاتے ہیں۔ مثلاً نظم ’’ننھا نمازی‘‘ کے چند بند ملاحظہ کیجیے:
——
وہ ہو چلا سویرا وہ رات جارہی ہے
وہ صبح کی اذاں کی آواز آرہی ہے
امی! اٹھو سفیدی ہر سمت چھا رہی ہے
اے میری اچھی امی! اے میری پیاری امی!
ابو کے ساتھ مسجد جاؤں گا آج میں بھی
الحمد، قل ہو اللہ فر فر کہو سنا دوں
سبحانک اللہم لکھ کر کہو دکھادوں
کَے فرض ہیں وضو میں یہ بھی کہو بتادوں
کرلوں گا یاد اسے بھی جو کچھ رہا ہے باقی
ابو کے ساتھ مسجد جاؤں گا آج میں بھی
جب فرض با جماعت میں پڑھ چکوں گا امی
پھر دونوں ہاتھ اٹھا کر مانگوں گا میں دعا بھی
ساری برائیوں سے مجھ کو بچا الٰہی
بن جاؤں میں نمازی، بن جائیں سب نمازی
ابو کے ساتھ مسجد جاؤں گا آج میں بھی
——
اس عمر میں اس سے کچھ غرض نہیں تھی کہ یہ نظمیں کس شاعر کی ہیں ؟ بعد میں جب سات آٹھ سال کی عمر میں میرا داخلہ مرکزی درسگاہ جماعت اسلامی ہند رام پور کے درجہ چہارم میں ہوا تو وہاں مجھے اس شاعر سے ملاقات اور استفادے کا شرف حاصل ہوگیا۔ یہ میرے نہایت مخلص اور شفیق چچامیاں جناب ابوالمجاہد زاہد صاحب تھے۔ درسگاہ کے طلبہ اپنے اساتذہ کو چچا میاں کہا کرتے تھے۔ چچا میاں زاہد صاحب کو درسگاہ آئے ہوئے ابھی دو سال ہوئے تھے۔ وہاں مجھے چار پانچ سال ان کی شاگردی کا شرف حاصل رہا۔
——
یہ بھی پڑھیں : ہری چند اختر کا یوم وفات
——
چچا میاں ابو المجاہد زاہد صاحب کے بارے میں درسگاہ میں میرے تعلیمی زمانے کی ایک بات اب تک میرے حافظے میں محفوظ ہے۔ اس سے ان کی شخصیت کے ایک اہم پہلو پر روشنی پڑتی ہے، اس لیے اس کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ غالباً درجہ ہشتم میں جناب افضل حسین صاحب کی مرتب کردہ کتاب ’’تعمیری ادب‘‘ (حصہ نظم) داخل تھی۔ اس کتاب میں اردو کے مشہور قدیم و جدید شعراء کے کلام کا انتخاب پیش کیا گیا ہے۔ اس میں چچامیاں زاہد صاحب کی بھی متعدد نظمیں شامل ہیں۔ ہم طلبہ یہ تصور کرکرکے بہت خوش ہورہے تھے کہ چچا میاں کے کلام کی تشریح خود انہی کی زبانی سن کر کتنا اچھا لگے گا۔ ہم اپنی خوش بختی پر نازاں تھے۔ جوں جوں کتاب کے اسباق آگے بڑھ رہے تھے ہماری خوشی میں اضافہ ہورہا تھا اور ہم انتظار میں ایک ایک دن کاٹ رہے تھے۔ مگر جب اس کا موقع آیا تو چچا میاں نے اچانک کئی اوراق الٹ کر آگے پڑھانا شروع کردیا اور اپنے کلام کے بارے میں یہ کہہ کر ہم لوگوں کو حیرت زدہ اور مایوس کردیا کہ ’’اپنے منہ میاں مٹھو بننا اچھا نہیں۔ میرا کلام بعد میں کسی سے پڑھ لینا۔‘‘ یہ تواضع اور خاکساری چچا میاں کی شخصیت کا طرۂ امتیاز ہے جسے ان سے ملاقات کرنے اور ان کے ساتھ رہنے والا ہر شخص محسوس کرتا ہے۔ آج بھی جب چچا میاں سے ملاقات ہوتی ہے تو میں اپنے آپ کو آٹھ دس سال کا بچہ سمجھنے لگتا ہوں اور وہ بھی اتنی ہی شفقت، محبت اور اپنائیت سے ملتے ہیں جس طرح ربع صدی پہلے ملا کرتے تھے۔
ابو المجاہد زاہد صاحب کی پیدائش ۲۸؍جون ۱۹۲۸ء میں اترپردیش کے ضلع لکھیم پور کھیری میں ہوئی۔ مدرسہ عالیہ رام پور میں فارسی و عربی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۴۲ء سے شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ ۱۹۴۳ء میں علامہ سیماب اکبر آبادی مرحوم کی شاگردی اختیار کی اور ۱۹۴۵ء میں فارغ الاصلاح قرار دئے گئے۔ ۱۹۴۴ء ہی سے اردو کے ایک قدیم ترین ہفت روزہ ’’دبدبۂ سکندری‘‘ میں نائب مدیر کی حیثیت سے کام کیا۔ ۱۹۵۴ء سے ۱۹۵۹ء تک لکھنؤ کے معروف ادبی ماہنامہ ’’نئی نسلیں ‘‘ کی ترتیب کا کام انجام دیا۔ ۱۹۶۹ء سے ۱۹۸۸ء تک مرکزی درسگاہ اسلامی رام پور میں، پھر ۱۹۹۴ء تک جامعۃ الصالحات رام پور میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔ اب عمر کے آخری مرحلے میں مرکز جماعت اسلامی ہند، نئی دہلی کے شعبۂ تعلیمات سے وابستہ ہیں اور مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی کی جانب سے شائع ہونے والی نصابی کتب کی ترتیب و تدوین ِ جدید میں معاونت کررہے ہیں۔
ابو المجاہد زاہد صاحب ادارہ ٔ ادب اسلامی کے سالارانِ کارواں میں سے ہیں۔ ادب میں مقصدیت کے نقطۂ نظر کے حامل ہیں۔ ان کا کلام اسلامی اقدار و روایات کی ترجمانی کرتا ہے۔ اب تک تقریباً دو سو نظمیں، دو سو غزلیں اور ڈیڑھ سو نعتیں کہہ چکے ہیں۔ کلام کا بیش تر حصہ ادبی رسائل و جرائد میں شائع ہوچکا ہے۔ ایک شعری مجموعہ ’’تگ و تاز‘‘ بہت پہلے ۱۹۵۷ء میں منظرِ عام پر آیا تھا۔ دوسرا مجموعہ ’’یدِ بیضا‘‘ کے نام سے ابھی چند سال قبل ۱۹۹۸ء میں شائع ہوا ہے۔ مشہور نقّادانِ فن مثلاً ماہر القادری، انور صدیقی، مولانا عبدالماجد دریابادی، رشید کوثر فاروقی اور شبنم سبحانی وغیرہ نے ان کی شاعری پر گراں قدر تبصرے کیے ہیں اور ان کے فکر و فن کو سراہا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : سائل دہلوی کا یوم پیدائش
——
ابو المجاہد زاہد صاحب کی شاعری کا ایک اہم حصہ وہ ہے جو بچوں کے لیے ہے۔ بچوں کے لیے ان کی نظموں کا مجموعہ ’’کھلتی کلیاں ‘‘ کے نام سے اکتوبر ۱۹۵۷ء میں ہونہار کتاب گھر دہلی سے شائع ہوا۔ ڈھائی سال کے بعد اس کا دوسرا ایڈیشن جون ۱۹۶۰ء میں نکلا۔ دو اور مجموعے ’’مہکتی کلیاں ‘‘ اور ’’مسکراتی کلیاں ‘‘ کے نام سے تیار ہیں اور اشاعت کے منتظر ہیں۔ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی، کریسنٹ پبلشنگ کمپنی دہلی، شیلا پرکاشن دہلی، النصر اکادمی بجنور، دانش بکڈپو ٹانڈہ، جنت نشاں اکیڈمی مرادآباد اور بعض دوسرے اداروں نے اردو کی جو نصابی اور درسی کتب تیار کی ہیں ان میں ان کی نظمیں شامل ہیں۔ مشہور نقاد ڈاکٹر ابن فرید نے گواہی دی ہے کہ ان کی نظمیں بچوں کے مزاج اور نفسیات سے قریب تر ہیں۔ لکھتے ہیں :
’’مرکزی درسگاہ جماعت اسلامی رام پور کے ناظم افضل حسین خاں صاحب نے ’ہماری کتاب‘ کا پورا سیٹ نظر ثانی کے لیے میرے سپرد کردیا۔۔۔ انھوں نے کچھ رہنما خطوط بھی بتائے تھے جن کی روشنی میں میں نے اللہ کا نام لے کر (پانچویں حصے کے علاوہ) پورا سیٹ مرتب کرڈالا۔ اس مہم جوئی میں مجھے بہت سے شاعروں سے مطلوبہ موضوعات پر نظمیں بھی لکھوانی پڑیں۔ زیادہ تر جن استاد شاعروں نے فکرِ سخن فرمائی وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ بچوں کا ادب کیا ہوتا ہے۔ چنانچہ زیادہ تر نظمیں موضوع کے لحاظ سے بچوں کے لیے ضرور لکھی گئیں لیکن زبان، تکنیک اور لفظیات کے اعتبار سے نہ صرف غیر فنی تھیں، بلکہ فطری روانی اور شعری آہنگ سے بھی محروم تھیں۔ میری نظر میں صرف ایک شاعر نصابی مطالبات کو سمجھ سکا تھا اور بے حد مترنم نظمیں کہہ سکا تھا۔ ان نظموں کو پڑھنے کے بعد دل چاہنے لگا کہ اس شاعر سے پورے سیٹ کی تمام ہی نظمیں لکھوالی جائیں تاکہ واقعتاً بچوں کا ادب وجود میں آجائے۔ (یہ شاعر ابوالمجاہد زاہد تھے۔‘‘ ) (پیش لفظ،ید بیضاء ڈاکٹر ابن فرید، ص:۹، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، ۱۹۹۸)
بچوں کے شاعر کی حیثیت سے یوں تو متعدد شعراء مشہور ہیں جنھوں نے بچوں کی نفسیات کو ملحوظ رکھ کر ہلکے پھلکے الفاظ اور آسان زبان میں نظمیں کہی ہیں۔ لیکن اگر ایسے شعراء کی فہرست تیار کی جائے جنھوں نے بچوں کے لیے اپنی شاعری میں بہت خوبصورت اور دل نشین انداز میں اسلامی تعلیمات اور اقدار سمو دی ہیں تو یہ فہرست بہت محدود ہوگی اور ان میں بھی ابوالمجاہد زاہد صاحب کا نام سرِ فہرست ہوگا۔ زاہد صاحب کی یہ وہ خصوصیت ہے جسے بہت سے نقادانِ فن نے تسلیم کیا ہے۔ ’’کھلتی کلیاں ‘‘ کے پیش لفظ میں جناب اصغر علی عابدی سابق مدیر سہ روزہ دعوت نے لکھا تھا:
’’کھلتی کلیاں پڑھ کر بچے خوش بھی ہوں گے، مزے بھی لیں گے اور ہنسیں ہنسائیں گے بھی۔ پھر ہنسی ہنسی میں کتنی ہی کام کی باتیں، نیکی کی باتیں اور اپنے مذہب اسلام کی باتیں ان کو معلوم ہوجائیں گی۔۔۔۔ ’’کھلتی کلیاں ‘‘ میں اخلاق، ایمان اور نیکی کی ایسی خوشبو ہے جو کبھی اڑ نہیں سکتی۔‘‘(پیش لفظ کھلتی کلیاں، اصغر علی عابدی،ص:۳-۴، ہونہار کتاب گھر، دہلی، ۱۹۵۷ء)
——
یہ بھی پڑھیں : سلونی سلونی کا یہ تاجور
——
’’کھلتی کلیاں ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے جناب شبنم سبحانی صاحب نے بھی ان کی اس خصوصیت کو نمایاں کیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے:
’’یہ ابوالمجاہد زاہد صاحب کی ان نظموں کا مجموعہ ہے جو انھوں نے بچوں کے لیے لکھی ہیں۔ موصوف بڑوں کے بھی شاعر ہیں اور بچوں کے بھی، حالانکہ ان دونوں میدانوں میں ساتھ ساتھ قدم اٹھانا بڑا دشوار گزار اور نازک کام ہے۔ آپ نے بڑے پیارے اور نفسیاتی انداز سے ننھے منوں کی زبان میں انھیں اچھی اور نصیحت آموز باتیں بتائی ہیں۔ ہنسا ہنسا کر سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کیا ہے۔ بڑے لطیف انداز سے اسلامی شعائر کی پابندی کا ذوق اور حوصلہ بیدار کیا ہے۔ ساتھ ہی قدرت کے ان مناظر کی بڑے حسین اور بھولے بھالے انداز سے عکاسی کی ہے جو بچوں کے لیے خاصے متاثر کن ہیں اور انھیں اکثر محو کرلیا کرتے ہیں۔ ‘‘ (ماہنامہ زندگی، رامپور، مئی جون ۱۹۵۸ء ص:۱۳۵)
ابو المجاہد زاہد صاحب کی شاعری میں کیا ادبی و فنی خصوصیات پائی جاتی ہیں ؟ ان کی نظمیں بچوں کی نفسیات سے کس قدر ہم آہنگ ہیں ؟ اور انھیں کیوں کر صحیح معنوں میں ’’بچوں کا معیاری اور مثالی ادب‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے؟ ان سوالات کے جوابات فراہم کرنا، ان دعووں کو مدلّل کرنا اور ان نظموں کو ادب کی کسوٹی پر پرکھنا ادباء اور ناقدین کا کام ہے۔ میں تو صرف یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ زاہد صاحب کی نظموں سے غیر شعوری طور پر بچوں کی اسلامی تربیت ہوتی ہے، وہ اسلامی اقدار و شعائر سے مانوس ہوتے ہیں، ان میں اچھی باتوں اور نیک کاموں سے رغبت اور بری باتوں اور برے کاموں سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور ان کی اٹھان اس طور پر ہوتی ہے کہ وہ بڑے ہوکر اچھے، سچے اور نیک مسلمان بن سکیں۔
اس مضمون کی ابتدا میں ابو المجاہد زاہد صاحب کی نظم ’’ننھا نمازی‘‘ کے چند بند پیش کیے گئے ہیں۔ اس نظم سے ایک ننھے بچے کے لطیف جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔ شدید ٹھنڈک کے باوجود وہ نمازِ فجر کے لیے اپنے ابو کے ساتھ مسجد جانا چاہتا ہے۔ نماز کا شوق اسے صبح سویرے اپنی ماں سے پہلے بیدار کردیتا ہے۔ وہ ماں کو اٹھاتا ہے۔ اس سے پہننے کے لیے گرم کپڑے، سوئٹر، موزے اور وضو کے لیے گرم پانی مانگتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ اسے نماز پڑھنے کاطریقہ معلوم ہے اور اس میں پڑھی جانے والی سورتیں یاد ہیں۔
ایک نظم ’’چوری‘‘ کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔ اس میں کس طرح چھوٹے چھوٹے مصرعوں اور ہلکے پھلکے انداز میں چوری کی برائی واضح کی گئی ہے:
——
لڈّو چرا کے لائے
تم آج گھر سے، توبہ
دل میں تمہارے کچھ بھی
خوفِ خدا نہیں کیا
امی سے مانگ لیتے
چوری میں کیا مزا تھا
——
ایک نظم کا عنوان ہے ’’تتلیاں ‘‘ اس کی ابتدا میں تتلیوں کی رنگت، شوخی اور حسن وغیرہ کا تذکرہ ہے۔ یہ بتایا گیا ہے کہ وہ گلستاں کی رونق اور پھولوں کی بیٹیاں ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : کہوں کیا حال زاہد، گلشن طیبہ کی نزہت کا
——
وہ پھولوں کا چکر لگاتی، ان کارس چوستی اور خوشیاں مناتی ہیں۔ اس نظم کا خاتمہ ان اشعار پر ہوتا ہے:
——
تعریف اس خدا کی جس نے انھیں بنایا
ان کے پروں کو جس نے ہر رنگ سے سجایا
یہ تتلیاں خدا کی رنگین نشانیاں ہیں
کیا خوب تتلیاں ہیں، کیا خوب تتلیاں ہیں
——
ابو المجاہد زاہد صاحب کس طرح ننھے منے بچوں کو برے کاموں اور گندی عادتوں سے روکتے ہیں، اس بند میں ملاحظہ کریں :
——
گُدگدی کرکے تم نے ہنسایا بیچ نماز عصر مجھے
ایسی شرارت؟ توبہ توبہ! ابو کو گھر آنے دو
ہم کیوں فلمی گانے گائیں ؟ ہم تو اچھے بچے ہیں
ایرے غیرے نتھّو خیرے گاتے ہیں تو گانے دو
——
جیسا کے اوپر ذکر کیا گیا، کھلتی کلیاں کے علاوہ بچوں کے لیے ابو المجاہد زاہد صاحب کی نظموں کے دو اور مجموعے’’مہکتی کلیاں ‘‘ اور ’’مسکراتی کلیاں ‘‘ منتظر اشاعت ہیں۔ ایک سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ زاہد صاحب بچوں کے اسلامی شاعر کی حیثیت سے اپنی پہچان رکھتے ہیں اور انھوں نے بہت اچھی شاعری کی ہے تو ان کے یہ مجموعے اب تک کیوں زیورِ طبع سے آراستہ نہیں ہوئے؟ اس میں زاہد صاحب کی تواضع، خاکساری اور بے نفسی کا دخل ضرور ہے لیکن ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو اسلامی اقدار کے علمبردار ہیں، اسلامی ادب کا دم بھرتے ہیں اور بچوں کو ان کے مزاج اور نفسیات سے قریب تر پاکیزہ کتابیں دینے کی خواہش رکھتے ہیں ؟ انھیں ان مجموعوں کو منظر عام پر لانے کی تحریک کیوں نہیں ہوتی؟
——
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی (سکریٹری اسلامی معاشرہ، جماعت اسلامی ہند)
——
منتخب کلام
——
ہم غلامانِ محمد ہیں اجالوں کے سفیر
ہم نے ہر دور میں ظلمت سے بغاوت کی ہے
——
روشن ہے محمد سے ہر اک جادۂ ہستی
جلتے ہیں چراغ اس کے ہر اک راہگزر میں
——
حمد اور نعت میں جو فرقِ جلی ہے زاہدؔ
ہاں وہی فرق مٹانا نہیں آتا مجھ کو
نعت کو نعت ہی رکھنے کو سمجھتا ہوں کمال
نعت کو حمد بنانا نہیں آتا مجھ کو
——
نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
——
جب حِرا سے ہویدا ہوئی روشنی
تِیرگی چیخ اٹھی ، روشنی روشنی
رحمتِ ہر دو عالم کا اعجاز ہے
خار، گُل بن گئے ، تِیرگی روشنی
آفتابِ جہاں تابِ پیغمبری
آپ کی روشنی ، دائمی روشنی
جنگِ بدر و اُحد کا خلاصہ ہے یہ
روشنی کو بچانے چلی روشنی
دینِ حق ہے تو بس ، آپ کا دین ہے
روشنی ہے تو بس آپ کی روشنی
تیرا منکر کہاں ، تیرا مومن کہاں
تِیرگی تِیرگی ، روشنی روشنی
تیری گفتار میں ، تیرے کردار میں
دل کشی ، حسنِ پاکیزگی ، روشنی
تیرے صدیق ، فاروق ، عثماں ، علی
روشنی ، روشنی ، روشنی ، روشنی
ظلمتوں کا کوئی داؤ چلتا نہیں
روز افزوں ہے اسلام کی روشنی
پَیروانِ محمد کی کیا بات ہے
زیست بھی روشنی ، موت بھی روشنی
نورِ قرآں بھی ہے ، نورِ سُنت بھی ہے
میرے گھر میں ہے زاہدؔ بڑی روشنی
( یدِ بیضا ، صفحہ نمبر 41 ، 42 )
——
یہ کیا کہ ملتے ہو اغیار کج ادا کی طرح
جو آشنا ہو تو پیش آؤ آشنا کی طرح
——
تمام دن تو رہا ساتھ ایک سورج کا
مگر یہ رات کے لمحے کہاں قیام کروں
——
انصاف مجھ پہ اور بھی بیداد کر گیا
الزام میرے قتل کا میرے ہی سر گیا
——
اسی ویرانے میں شاید کوئی چہرہ اُبھرے
دشتِ دل ہی میں اسے آؤ صدا دی جائے
——
ساحر کی رسیوں سے وہی لوگ ڈر گئے
مجمع میں جو کھڑے تھے کلیمی عصا لیے
——
خدا کی شان کہ ہم نے جنہیں تراشا ہے
وہ بت بھی شان دکھانے لگے خدا کی طرح
——
کیا خبر تھی کہ نہ اٹھیں گے ، اگر بیٹھیں گے
ہم یونہی بیٹھ گئے تھے تری دیوار کے پاس
——
اپنی خوں گشتہ تمناؤں پہ میری یہ ہنسی
اک نئے اسلوبِ ماتم کے سوا کچھ بھی نہیں
——
بات تھی صرف عزم و ہمت کی
میں نے منزل کو زیر پا دیکھا
——
آندھی بنی تو جوشِ جنوں اور بڑھ گیا
خود اپنے سر پہ خاک اُڑانے لگی ہوا
——
اب دشمنوں کو دوست بناتا نہیں کوئی
یہ تو میرا ہنر تھا ، مرے ساتھ مر گیا
——
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشیدِ مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے
——
یوں کر رہے ہیں لوگ نمائش خلوص کی
جیسے یہاں کسی کو کوئی جانتا نہ ہو
——
ہم فریب اک دوسرے کو عمر بھر دیتے رہے
میں بھی اُن کا دوست تھا وہ بھی مرے احباب تھے
——
ادھر آ ! اے مرے کردار پہ ہنسنے والے
تیرے ماتھے کی سیاہی تو مٹا دی جائے
——
ہر اہتمام ہے دو دن کی زندگی کے لیے
سکون قلب نہیں پھر بھی آدمی کے لیے
تمام عمر خوشی کی تلاش میں گزری
تمام عمر ترستے رہے خوشی کے لیے
نہ کھا فریب وفا کا یہ بے وفا دنیا
کبھی کسی کے لیے ہے کبھی کسی کے لیے
یہ دور شمس و قمر یہ فروغ علم و ہنر
زمین پھر بھی ترستی ہے روشنی کے لیے
کبھی اٹھے جو خورشید زندگی بن کر
ترس رہے ہیں وہ تاروں کی روشنی کے لیے
ستم طرازی دور خرد خدا کی پناہ
کہ آدمی ہی مصیبت ہے آدمی کے لیے
رہ حیات کی تاریکیوں میں اے زاہدؔ
چراغ دل ہے مرے پاس روشنی کے لیے
——
نئی صبح چاہتے ہیں نئی شام چاہتے ہیں
جو یہ روز و شب بدل دے وہ نظام چاہتے ہیں
وہی شاہ چاہتے ہیں جو غلام چاہتے ہیں
کوئی چاہتا ہی کب ہے جو عوام چاہتے ہیں
اسی بات پر ہیں برہم یہ ستم گران عالم
کہ جو چھن گیا ہے ہم سے وہ مقام چاہتے ہیں
کسے حرف حق سناؤں کہ یہاں تو اس کو سننا
نہ خواص چاہتے ہیں نہ عوام چاہتے ہیں
یہ نہیں کہ تو نے بھیجا ہی نہیں پیام کوئی
مگر اک وہی نہ آیا جو پیام چاہتے ہیں
تری راہ دیکھتی ہیں مری تشنہ کام آنکھیں
ترے جلوے میرے گھر کے در و بام چاہتے ہیں
وہ کتاب زندگی ہی نہ ہوئی مرتب اب تک
کہ ہم انتساب جس کا ترے نام چاہتے ہیں
نہ مراد ہو گی پوری کبھی ان شکاریوں کی
مجھے دیکھنا جو زاہدؔ تہ دام چاہتے ہیں
——
امی جان
——
بڑے ہی شوق سے مجھ کو پڑھاتی ہیں لکھاتی ہیں
بڑے ہی پیار سے جو پوچھتا ہوں وہ بتاتی ہیں
نہ جھنجھلاتی ہیں وہ مجھ پر نہ غصہ ہی دکھاتی ہیں
جو مجھ کو ڈانٹتی بھی ہیں تو فوراً مسکراتی ہیں
خدا رکھے کہ مجھ پر مہرباں ہیں کس قدر امی
بری دیکھی جو کوئی بات مجھ میں پیار سے ٹوکا
کبھی کھیلا جو کوئی کھیل گندہ مجھ کو سمجھایا
کبھی چغلی کسی کی میں نے کھائی تو برا مانا
درست اس کو کرایا لفظ اگر کوئی غلط بولا
غرض کرتی ہیں میری تربیت آٹھوں پہر امی
صحابہ کے بزرگوں کے مجھے قصے سناتی ہیں
حدیثیں بھی سناتی ان کا مطلب بھی بتاتی ہیں
سلیقے سے صفائی سے مجھے رہنا سکھاتی ہیں
مرے آرام کی خاطر وہ تکلیفیں اٹھاتی ہیں
نہیں کوئی بھی اتنا مہرباں ہیں جس قدر امی
بڑا ہے ان کا رتبہ اور اونچا ہے مقام ان کا
ہمیشہ دل سے کرتا ہوں ادب اور احترام ان کا
نہ میں ان سے جھگڑتا ہوں نہ میں لیتا ہوں نام ان کا
خوشی کے ساتھ کر دیتا ہوں میں ہر ایک کام ان کا
جبھی تو مجھ کو کہتی ہیں مرا نور نظر امی