آج پنجابی زبان کے معروف شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار اور مترجم افضل احسن رندھاوا کا یومِ وفات ہے ۔

——
افضل احسن رندھاوا یکم ستمبر، 1937ء میں امرتسر، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام محمد افضل تھا لیکن ادبی حلقوں میں افضل احسن رندھاوا کے قلمی نام سے مشہور ہوئے۔ انہوں نے قانون کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی اور وکالت کا شعبہ بطور پیشہ اختیار کیا۔ 1972ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ضمنی انتخاب میں فیصل آباد کی نشست سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ عرصہ دراز سے سیاست سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد پنجابی زبان میں نظمیں، کہانیاں اور ڈرامے لکھتے رہے۔
انہوں نے پنجابی شاعری کی ابتدا 1958ء سے کی۔ ان کی تصانیف میں دیواتے دریا، دوآبہ، سورج گرہن، پندھ، شیشہ اک لشکارے دو، رُت دے چار سفر، پنجاب دی وار، مٹی دی مہک، پیالی وچ آسمان، چھیواں دریا اور اک سورج میرا بھی شامل ہیں۔ وہ ایک اچھے مترجم بھی تھے اور انہوں نے گیبریئل گارسیا مارکیز کے ناول سمیت کئی کتابوں کو پنجابی زبان میں منتقل کیا۔
ان کے پنجابی تراجم میں چینوا اچیبے کا ناول ٹٹ بھج، اوریانافلاشی کی انٹرویوز پر مشتمل کتاب تاریخ نال انٹرویو، افریقی نظموں کے تراجم پر مشتمل مجموعہ کالا پینڈا، مارکیز کا ناول پہلوں دس دتی گئی موت دا روزنامچہ اور لوئسے پلویدا کا ناول بڈھا جو عشقیہ کہانیاں پڑھدا شامل ہیں۔
ان کی کتابوں کو بطور نصاب بھارتی صوبہ پنجاب کی امبالہ اور امرتسر کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : شیر افضل جعفری کا یوم وفات
——
تصانیف
——
دیواتے دریا
دوآبہ
سورج گرہن
پندھ
شیشہ اک لشکارے دو
رُت دے چار سفر
پنجاب دی وار
مٹی دی مہک
پیالی وچ آسمان
چھیواں دریا
اک سورج میرا
پنجابی تراجم
انہوں نے گیبریئل گارسیا مارکیز کے ناول سمیت کئی کتابوں کو پنجابی زبان میں منتقل کیا
چینوا اچیبے کا ناول ٹٹ بھج
اوریانا فلاشی کی انٹرویوز پر مشتمل کتاب تاریخ نال انٹرویو
افریقی نظموں کے تراجم پر مشتمل مجموعہ کالا پینڈا
مارکیز کا ناول پہلوں دس دتی گئی موت دا روزنامچہ
لوئسے پلویدا کا ناول بڈھا جو عشقیہ کہانیاں پڑھدا
——
اعزازات
——
حکومت پاکستان نے افضل احسن رندھاوا کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں 14 اگست 1995ء کو صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا اور اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے پاکستان کے سب سے بڑے ادبی انعام کمال فن ادب انعام برائے سال 2013ء دیا گیا۔
——
وفات
——
افضل احسن رندھاوا 19 ستمبر، 2017ء کو فیصل آباد میں وفات پاگئے۔ انہیں غلام محمد آباد کے بڑے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔
——
افضل احسن رندھاوا کی باتیں یادیں از تنویر ظہور
——
19 ستمبر کو افضل احسن رندھاوا بھی عارضی سفر کی تکمیل کر گئے۔ ان سے اتنی یادیں وابستہ ہیں، سوچتا ہوں کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم کروں۔ ویسے بھی اس مختصر کالم میں سب یادوں کو کیسے سمیٹا جا سکتا ہے؟
ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں 1972ءمیں افضل احسن رندھاوا قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ راجا رسالو اور راقم الحروف انہیں مبارک باد دینے فیصل آباد گئے۔ میں نے رسالہ ”سانجھاں“ کا اجرا کیا تو رندھاوا صاحب سے درخواست کی کہ وہ رسالے کے لیے پیغام لکھ کر بھیجیں۔ ان دنوں وہ اسلام آباد میں مقیم تھے۔ انہو ں نے قومی اسمبلی کے لیٹر پیڈ پر پنجابی میں پیغام لکھ کر بھیجا۔ یہ پیغام جولائی 1976ءکے پرچے میںشائع ہوا۔
افضل احسن رندھاوا نے لکھا۔ :
”دنیا وچ تے دو شیواں سدا زندہ رہن گئیاں۔ اللہ پاک تے سورمے دا ناں۔ اوس توں وڈا سورما کیہڑا اے جیہڑا ماں بولی دا ناں لوے تے اوہدی خدمت کرے، بھاویں اوکھ ہووے۔ ماں بولی نال تیرا پیار چار ورھے پنجابی ادبی سنگت دی خدمت اج وی ظاہر سی تے ”سانجھاں“ لئی محنت مشقت کرن توں وی۔ اللہ پاک تینوں خوش رکھے تے ایس خدمت کرن دی ہور توفیق دیوے۔ جتھوں تیک میرا تعلق اے، مینوں ہر پنجابی بولن تے لکھن والے نال عقیدت تے عشق اے۔ فیر ”سانجھاں“ تے چنگا بھلا رسالہ اے۔ ایہنوں کڈھدا رہو۔ اللہ پاک تیرے نال ہووے“
——
یہ بھی پڑھیں : افضل توصیف کا یوم وفات
——
رندھاوا صاحب نے اپنے لیٹر میں عقیدت اور عشق کی بات کی۔ پنجابی زبان و ادب کے علاوہ انہوں نے اپنی فیملی سے عشق کیا۔ انہوں نے اپنے گاو¿ں کے ایک بدمعاش نائی، وادی© بولان کی بلوچی گھوڑی، گوجرانوالا کے شاہی مرغ چنے اور مشرقی پنجاب کے سکھوں سے عشق کیا۔ سلیم خان گمی کہا کرتے تھے۔ پاکستان میں سکھوں سے پیار کرنے والے پانچ افراد ہیں۔ گیانی عباد اللہ، عبدالغفور قریشی، احمد سلیم، سلیم خاں گمی اور افضل احسن رندھاوا۔
سکھ رائٹرز کہا کرتے۔ ”اسیں صرف اکو بندے نوں جاننے آں تے اوہدے نال پیار کرنے آں تے اوہ اے افضل احسن رندھاوا“ پنجابی کے بعض ادیبوں اور شاعروں پر الزام لگایا جاتا کہ وہ گریٹر پنجاب کے حامی ہیں۔ رندھاوا صاحب کا اس سلسلے میں موقف تھا کہ گریٹر موومنٹ کہاں سے آ گئی؟ میں تقسیم کے حق میں ہوں۔ اگر ہم بھارت کے ساتھ اکٹھے رہتے تو ہمارے ساتھ بھی وہی سلوک ہونا تھا جو اس وقت سکھوں یا دوسری اقلیتوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ البتہ پاکستان کے حصے میں پورا پنجاب نہ آنا ایک المیہ ہے۔ میرا موقف وہی ہے جو قائداعظم کا تھا کہ ہندوستانی سامراج سے آزادی ہی میں ہماری سلامتی تھی۔ ورنہ انہوں نے ہم سے اقلیتوں والا سلوک کرنا تھا۔
قائداعظم کا جو خیال تھا کہ پنجاب تقسیم نہ ہو، وہ درست تھا مگر سامراجی طاقتوں کو یہ بات پسند نہیں تھی۔ تقسیم کا سارا نقصان پنجاب اور بنگال کو ہوا۔ میں مشرقی پنجاب کو بھی اپنے پنجاب کے ساتھ شامل کرنا چاہتا ہوں۔ یہ میری ذاتی سوچ ہے۔ اجیت کور نے مجھے ایک خط میں لکھا کہ خوابوں کی دنیا سے نکل آنا چاہیے۔ میرا جواب تھا۔ میں اپنے موقف سے دست بردار نہیں ہو سکتا۔ ہم تین ہزار برس تک براہمن سامراج کے غلام رہے۔ اس نے ہمیں شودر بنائے رکھا۔ جاٹ اور کسانوں کو وہ شودر کہتے تھے۔
افضل احسن رندھاوا کی دس نمبر کی مونچھیں بہت مشہور تھیں۔ طویل قامت، جب وہ پنجابی لباس اور کھُسہ پہن کر نکلتا تو لوگ اسے دیکھتے رہ جاتے۔ ایک امریکی لڑکی نے رندھاوا صاحب کو دیکھ کر کہا۔ برطانیہ کے نارمن حملہ آوروں کا جرنیل پنجابی لباس میں کدھر گھوم رہا ہے۔ افضل احسن رندھاوا پیپلز پارٹی سے وابستہ تھے۔ میں نے ان سے دریافت کیا پیپلز پارٹی کی تین مرتبہ حکومتیں رہیں۔
1972ءسے 1977ءکے دوران میں آپ قومی اسمبلی کے رکن تھے۔ آپ نے پنجابی کیوں لاگو نہیں کی؟ ان کا جواب تھا 1972-77ءکے دور میں حکومت نے پنجابی کے لیے کچھ نہ کچھ کام ضرور کیا تھا۔ کم از کم اس دور میں ایم اے (پنجابی) کی کلاسیں شروع ہو گئی تھیں۔ ہمارا مطالبہ تو یہ تھا کہ پنجابی پرائمری سے ذریعہ تعلیم کی جائے مگر حکومت نے اوپر سے شروع کر دی۔ اس دور میں دوسرا کام یہ ہوا کہ 1973ءکے آئین میں پنجابی زبان کی ترقی و ترویج کی ضمانت دی گئی۔ اس آئین کے تیار کرنے والوں میں، میں بھی شامل تھا۔ پاکستان کے اس پہلے جمہوری، وفاقی، پارلیمانی اور متفقہ آئین پر میرے بھی دستخط ہیں۔ مجھے بے نظیر بھٹو کا وہ جملہ یاد ہے جو انہوں نے 1989ءمیں منعقدہ بابا فرید انٹرنیشنل کانفرنس میں کہا تھا کہ ”میں حیران ہوں، پنجابی کیوں پنجابی نہیں پڑھتے“ اس کانفرنس میں جو مطالبات وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو پیش کیے گئے، ان میں پنجابی کو پرائمری کی سطح پر لاگو کرنے کا مطالبہ شامل نہیں تھا۔
——
یہ بھی پڑھیں : معین احسن جذبی کا یومِ وفات
——
افضل احسن رندھاوا ادیب، شاعر، مترجم، قانون دان اور سیاست دان تھے۔ سیاست سے وہ تقریباََ کنارہ کشی اختیار کر چکے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب میں آزادی کی زندگی گزار رہا ہوں۔ سیاسی شخص کے لیے کسی سیاسی جماعت کا کارکن ہونا باعث عزت ہے مگر سیاسی جماعت کے ساتھ چلنا (جس کے منشور یا بعض باتوں سے اختلاف ہو) دل گردے کا کام ہے۔ ہماری سیاست کا اللہ ہی حافظ ہے۔
اپنی سیاسی زندگی میں پنجابی ادب کو وقت نہیں دےٓ سکا۔ اب زیادہ وقت پنجابی ادب کو دیتا ہوں اور اپنی مرضی کی زندگی بسر کرتا ہوں۔ زبان اور کلچر کے لیے کام کرنا میرے فرائض میں شامل ہے۔ بطور پنجابی میری ڈیوٹی ہے۔ جس طرح میں نے ماں کا حق ادا کرنا ہو۔ کسی پنجابی کو پنجاب کی بہتری اور اس کے لیے کام کرنے کے لیے سیاسی پلیٹ فارم کی ضرورت نہیں۔یہ کام بھی سیاسی ہے۔ مگر میں اسے یہ نام نہیں دوں گا۔ 73ءکے آئین میں یہ بات موجود ہے کہ سب زبانوں کو ترقی کے مواقع دئیے جائیں گے۔ مگر اردو کی آڑ میں پنجابی کو دبا دیا جاتا ہے۔ آلہ کار بھی پنجابی بنتے ہیں۔ رندھاوا صاحب نے مجھ سے یہ باتیں 1994ءمیں کی تھیں۔ افضل احسن رندھاوا کے اس شعر پر بات ختم کرتا ہوں۔
——
جان وی دتی اے اجے وی آکھو
چھڈ کے ٹر جا شہر
——
منتخب کلام
——
روشنی ! روشنی ! اے چشمۂ نور و نکہت
زندگی رات کے صحراؤں میں آ ٹھہری ہے
——
نجات بخش شبِ غم سے اے خدا ! اے خدا !
نگارِ صبح کو اب اذنِ رونمائی دے
——
اُس کے پیچھے پیچھے خوں کی سب لکیریں جائیں گی
جرم کا ہر اک نشاں قاتل کے گھر تک جائے گا
——
تیز رنگوں کی بڑی چاہ تھی ورنہ پیارے
کون گاؤں سے ترے شہر میں آ کر خوش ہے
——
بھائی ! دنیا میں کبھی کچھ بے سبب ہوتا نہیں
کوئی غم تو ہے اُسے جو رات بھر سوتا نہیں
——
افضل احسنؔ کھیل ہے عُشاق کا دار و رسن
اور کس کے بس میں یوں جاں سے گزرنا ، کھیلنا
——
غزل لکھی تو جلا دی کہ تو نہ جان سکے
کہ تجھ کو کھو کے میں کتنے بڑے عذاب میں ہوں
——
خون کے چھینٹے دیواروں پر
زنداں میں بھی نقش و نگار
——
ہم نے غم کو حیات بخشی ہے
غم کے پروردگار ہیں ہم لوگ
——
ایک وہ ہی تو شہر میں ایسا سورج ہے
جس سے لوگ اجالا مانگنے جاتے ہیں
——
کبھی تیری پازیب کی تھی اور کبھی مری زنجیروں کی
جیون بھر کوئی نہ کوئی ساتھ مرے جھنکار رہی
——
غمِ فراق کے قصے سنا سنا کے مجھے
وہ صبحِ چھوڑ گیا رات بھر رلا کے مجھے
مجھے بھی اس کے بچھڑنے کا رنج تھا لیکن
وہ ہاتھ ملتا رہا عمر بھر گنوا کے مجھے
چلے تو آگ لگائے رکے تو سانس رکے
ہیں ظلم یاد تیرے شہر کی ہوا کے مجھے
اگر میں پھول نہ تھا سنگ راہ بھی تو نہ تھا
اسے ملا بھی تو کیا راہ سے ہٹا کے مجھے
مجھے تلاش ہے اس راہنما کی مدت سے
جو راہ بھول گیا راستہ دکھا کے مجھے
ملا تو یوں کہ زباں تک نہ کھل سکی اپنی
وہ رات دیکھا کیا سامنے بٹھا کے مجھے
——
جیسے مہک اڑے کبھی گل سے صبا کے ساتھ
مجھ سے بچھڑ گیا وہ مگر کس ادا کے ساتھ
شعلہ تو ایک پل نہ تہہ آب رہ سکے
میں ہوں کہ عمر کاٹ دی اس بے وفا کے ساتھ
یوں ہاتھ سے گیا وہ کبھی پھر نہیں ملا
اک عمر بھاگتا رہا گو میں ہوا کے ساتھ
جو آنکھ دی تو دیکھنا بھی فرض کر دیا
انسان زندہ ہے مگر پوری سزا کے ساتھ
جو کچھ کہوں میں سننا بھی پڑتا ہے وہ مجھے
گنبد میں جیسے بند ہوں اپنی صدا کے ساتھ
احسن وہ آنکھ ہے تو میں ہوں اس کی روشنی
رشتہ تو دور کا نہیں میرا خدا کے ساتھ
——
سفید جسم مہکتی ہواؤں جیسا ہے
وہ چہرہ زرد ہے پھر بھی شعاعوں جیسا ہے
نہ جانے کون سا جھونکا کدھر کو لے جائے
مرا سفر تو بھٹکتی صداؤں جیسا ہے
تھا ایک میرا بھی سورج ، سو وہ تو ڈوب گیا
یہ جسم اب تو اندھیری گپھاؤں جیسا ہے
میں اپنے آپ سے سہما ہوا ہوں ڈرتا ہوں
ہے کون جو میرے اندر بلاؤں جیسا ہے
نہ دوستی ، نہ دلیری ، نہ حسنِ دل آرام
تمہارے شہر میں کیا میرے گاؤں جیسا ہے
ہے یوں تو ہر طرح انمول اپنا یار ، مگر
بس عادتاََ ہی ذرا بے وفاؤں جیسا ہے
میں ہوں صدف کی طرح ایک بوند کا طالب
ترا کرم تو برستی گھٹاؤں جیسا ہے
لڑی ہے آنکھ تو اُس سے کہ افضل احسنؔ جو
ہر ایک بات میں بالکل خداؤں جیسا ہے
——
گو اپنی قید میں پیارے ہم اتنے سال رہے
تیرے خیال سے لیکن نہ بے خیال رہے
وہ آںکھ ہی نہ ملی جو کہ دیکھ بھی سکتی
ہر اک جواب کے پیچھے کئی سوال رہے
میں تجھ کو دیکھوں تو پھر لمبی تان کے سو جاؤں
کہ حشر تک میرا ساتھی ترا جمال رہے
جو سہہ نہ سکتا ہو اپنے زوال کا صدمہ
یہ لازمی ہے کہ وہ شخص بے کمال رہے
غمِ فراق کے نرغے میں ہے امیدِ وصال
ہر اک لڑائی کی حد ہے احتمال رہے
ہوں میرے بیٹے میں اوصاف اُس کے دادا کے
کہ میرے ماضی سے پیوست میرا حال رہے
کہ جاٹ لوگ کبھی خوں بہا نہیں لیتے
تو قتل کر مجھے اے جاں! مگر خیال رہے
وہ ایک دن بھی طلوع ہو خوشی کا ، جنگل میں
وہ ایک دن کہ شکاری رہے ، نہ جال رہے
عجیب ہے کہ جو افضلؔ بھی ہیں اور احسنؔ بھی
وہ لوگ گردشِ دوراں سے پائمال رہے
——
شعری انتخاب از ایک سورج میرا بھی ، مصنف : افضل احسن رندھاوا
شائع شدہ : 1985 ، متفرق صفحات