اردوئے معلیٰ

Search

آج منفرد لب و لہجے کی نامور شاعرہ آئلہ طاہر کا یوم پیدائش ہے

آئلہ طاہرجدید روایت کی امین شاعرہ ، اپنے ہنر کے آئینے میں
——
شعر تخلیق کار کے لاشعور کا عکس ہوتا ہے اسی بنا پر شعر و نغمہ شخصیت کا غماز ٹھہرا
فن پارے سے تخلیق کار کا سماجی مرتبہ اس کے رویے اس کی ترجیحات اور افکار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ہمارے شعور کی تشکیل ہمارا سماج اور موجودہ روایت کرتی ہیں۔لیکن کچھ تو ہمارے روح کے دکھ ہوتے ہیں ان کا سراغ نقاد یا قاری فن پارے کی عمومی تانک جھانک سے نہیں پا سکتے ان میں تانک جھانک کے لیے بڑا زمانہ ٹھہرنا پڑتا ہے
یہی لاشعور کا عکس ہے جس کے لیے کسی فن پارے کو سمجھنے کے لیے انتظار اور ایک درجہ کے تخلیقی فہم کی ضروت ہے
فن پارے کی گیرائی ، گہرائی اور تہ بہ تہ ہونے کی وجہ سے اس تک رسائی کے لیے یہ تخلیقی اذیت سہنا واجب ٹھہرتی ہے
آئلہ طاہر ایسی ہی ایک شاعرہ ہیں
جو لاشعور اور روح کے ازلی دکھوں کو شعری کینوس پر آویزاں کرتی ہیں
ایک مصورہ،
حرف کاڑھتے ہوئے اس روح و جسم کی سسکیاں آہیں مسرتیں سب اس کے آگے ہاتھ باندھے آن ٹھہرتی ہیں
وہ دکھ لکھتے ہوئے حرف سے دیوارِ گریہ اٹھاتی تاج محل تعمیر کرتی اور مونا لیزا تصویرتی ہیں۔
زندگی سے بھرپور مکالمہ کرنے والی ایسی شاعری بہت کم کسی عصر کا مقدر ہوتی ہے
آئلہ طاہر کا شمار اسی اقلیت میں ہوتا ہے۔
آئلہ طاہر کے شعری تجربے کی عمر کم لیکن اس کے شعر و شعور نے ایک قابل ذکر شعری حلقے کو اپنی سمت متوجہ کیا ہے
یہی وہ امکان ہے جو اس شاعرہ کے شعری سفر کے تسلسل و ریاضت کی صورت
اسے منفرد و قابل ذکر بنادے گا
——
پہلے کیا گیا مجھے یکتائے رنگ و بو
پھر رنج کی تہوں میں اتارا گیا مجھے
تو، اضطراب میں ہی لیا ہوگا مرا نام
ورنہ کبھی سکوں میں پکارا گیا مجھے؟
ماتھے پہ لکھ دیا گیا اُس خوش ادا کا ہجر
اور ہجر کے دروں میں سنوارا گیا مجھے
وہ شہرِ سرنگوں کہ جہاں دل کہے، جسے
اس، شہرِ سرنگوں میں، سنوارا گیا مجھے
——
یہ بھی پڑھیں : شبنم شکیل کا یومِ وفات
——
وحشت کے تلون میں گزری کہ گزار آئے
اک عہد بجھا آئے اک عمر کو ہار آئے
تم لوگ بھی کیا سمجھو تم لوگ بھی کیا جانو
کس خواب اثاثے کو مٹی میں اتار آئے
وہ رنگ جو بھیجے تھے اس چشم فسوں گر کو
وہ رنگ وہیں اپنی تابانی کو وار آئے
آواز کا کیا ہوگا یہ علم تھا پہلے سے
بس ضد میں خموشی کی ھم ان کو پکار آئے
——
یہ ہرے پیڑ جو پانی پہ جھکے ہوتے ہیں
شام ہوتے ہی گنوا دیتے ہیں بینائی بھی
گو کہ خاموش ہی رہتی ہے عموما لیکن
چیخ اٹھتی ہے کبھی ہجر میں تنہائی بھی
ایک دکھ جس میں کئی زرد مناظر کی تھکن
ماند پڑ جائیں جہاں رنگ بھی رعنائی بھی
——
پہلے کچھ دن وفا ہوا تھا کوئی
پھر مسلسل سزا ہوا تھا کوئی
اب جدائی کی راہ پڑتی ہے
بس یہیں تک دعا ہوا تھا کوئی
یہ مژہ پر رکا ہوا آنسو
خواب اس سے جڑا ہوا تھا کوئی
——
کھدر کی طر ح دبیز ہیں دن اور راتیں چناب سی نہری ہیں
ہے ایک اداسی آٹھوں پہر ، اور خواب گل دوپہری ہیں
اک شام ،اداسی ،تنہائ اور جادو گر سی دو آنکھیں
سب خوشبو جیسی یادیں ہیں اور دل کے طاق میں ٹھہری ہیں
——
میں ساحلوں کا گیت ہوں، نہ ہر جگہ پہ گا مجھے
میں گرم ریت دشت کی، لبوں پہ مت سجا مجھے
مجھے سجا کے رکھ، کہیں، غزل کے درمیان میں
میں قیمتی خیال ہوں، کسی طرح بچا مجھے
مری تکان کا نہیں ، اڑان کا سبب بنا
وہ ایک زخم، جو تری نگاہ نے دیا مجھے
——
میان چشم سے چرخِ کہن تک بےکلی ہے
ھمارے نام کے تارے میں کتنی تشنگی ہے
——
دل اب اس شہر میں جانے کو مچلتا بھی نہیں
کیا ضروری ہے ضرورت سے الگ ہو جانا
عین ممکن ہے سمجھ تم کو نہ آؤں اس سال
تم یہی کرنا کہ عجلت سے الگ ہو جانا
یہ کہیں چھین نہ لے صبر کی دولت تم سے
دل دھواں کرتی قیامت سے الگ ہو جانا
وہ تمیں بھول کے پاگل بھی تو ہو سکتا ہے
دیکھ کر وقت، سہولت سے الگ ہو جانا
ھم تو جاں ہار چلے ہیں ، پہ تم ، اے نکہت گل!
چشم قاتل کی مشیت سے الگ ہو جانا
——
آئلہ طاہر کی تشبیہہ استعارہ اور تلمیح رومانوی جمالیات کے زیر اثر ہے لیکن سماجی رد عمل جس میں ایک حد تک تانیثیت بھی ہے کا رنگ بھی کہیں کہیں
وہ بہت سلیقہ مندی سے کاڑھ دیتی ہے
——
ھمارے درد کی عمریں دراز کر دی گئیں
ھمارے پاس مسائل کا حل نہیں تھا ناں
——
میں اپنے باپ کی سب سے حسین شہزادی
کہ جس کے حصے میں دستار کی حفاظت تھی
——
گذریں ہیں یوں بھی بار رگِ جاں پہ ساعتیں
دل کے سوا ھمارا کوئ دوسرا نہ تھا
——
دیتی رہی خبر کوئی بادِ صبا مجھے
رستے رہے چراغ بھی شب بھر منڈیر پر
——
میانِ دشت و جبل درد کے حصار میں ہیں
ہمارے ساتھ کئی رنگ بھی غبار میں ہیں
کسی خلش کے چھناکے سے مر نہ جائیں کہیں
ھمارے خواب کسی چپ کے اختیار میں ہیں
سمے کو مٹھی میں لینے کی بات تھی جس میں
ہم اس مڑے ہوئے صفحے کے ریگ زار میں ہیں
——
میانِ چشم سے چرخِ کہن تک بےکلی ہے
ھمارے نام کے تارے میں کتنی تشنگی ہے
فراواں غم، نمِ اندوہ، وقتِ سم چشیدہ
یہ دولت ایک روشن آنکھ کی بخشی ہوئی ہے
تمہاری بزم سے لائے تھے جو اک زندگی ہم
ھمارے ساتھ وہ اب غم کے پھیرے لے رہی ہے
——
تا بہ کَے امید، خواہش، خوش گمانی اور بس
اب قفس میں رہ گئی تتلی دِوانی اور بس
اب تو مثلِ خار گلشن میں کھٹکتے ہیں وہی
جن کے دم سے چل رہی ہے باغبانی اور بس
چشم نم کی سرخ شدت آپ کو بتلائیں کیا ؟
شاعری ہے، جاں گزاری کی کہانی اور بس
——
یہ کس کے نقش آئنے میں ابھرے یہ کون دل میں اتر گیا ہے
کہ اس کا جادو جنوں میں گھلتے ہوؤں کو بے حال کر گیا ہے
ھمارے حصے میں لاؤ، دے دو، تمام وحشت وہ سب اذیت
تمہارے ہاتھوں میں جو تھما کر کوئ نہ جانے کدھر گیا ہے
وہ ایک حسرت جو دل کے اندر خدا بنی تھی، نہیں رہی ہے
وہ صبر، تھا جو غرور ہستی، قسم خدا کی، وہ مرگیا ہے
——
یہ ہیں اس عہد نا مہرباں کی نمائندہ شاعرہ
جس نےعصری شعور کو زبان دی
اور اپنی ذات میں بنی دیوار گریہ پہ حرف و معنی کے آنسوؤں کا خراج پیش کیا
یہ کفایہ و کفایت ہے
میں شاعر کو فرد اور سماج کی ادھڑی دھڑکتی ڈوبتی اور بے ترتیب سانسوں کے کچھ اور بڑھ جانے کا باعث سمجھتا ہوں
لیکن اس مصنوعی تنفس کے لیے شاعر اپنی دھڑکنوں کو گروی رکھتا ہے
آ ئلہ طاہر اسی اقلیتی چارہ گر قبیلہ کی نمائندہ ہیں
اداس شاموں پہ جب بھی کوئی مقالہ لکھے ، اسے بتانا
اداس شامیں ھمارے گریے سے رنگ لے کر حسیں ہوئ ہیں
ان کی شعری کائنات
خیال ہنر اور سلیقہ کا امتزاج ہے مضمون آفرینی تخیئل ندرت خیال و حرف ان کے شعر کا خاصا ہے
اس نوعیت کے وارفتہ تخیئل کے فن پارے کا
ممکنہ جھول بھی اس کی فکری گہرائی اور گیرائی کے آگے اہم نہیں رہتا
کسی فن پارے
کی سماجی اہمیت قاری پہ اثرات اور زمانے کے تھپیڑے سہنے کی سکت اس کی ادبی ساکھ اور زندگی شمار ہوتی ہے
آ ئلہ کا شعری سلیقہ غماز ہے کہ معاصر شعری افق پر جن چند شاعرات نے اپنی توانا سانسوں کے ساتھ زندہ رہنا ہے
ان میں آئلہ طاہر مجھے پہلی صف میں اپنا مقام بناتی دکھائی دیتی ہیں
آئلہ طاہر کی شاعری میں ذات و کائنات کے ہجرت و ہجر کے گہرے گھاؤ مجسم ہیں
،،یہ ہجر جو ہم کو لاحق ہے،،
ازل کا فراق
اس ہمیشگی کے موسم میں شاعری وہ شجر فراق ہے جہاں کائنات کے محبسوں سے نکلے تھکے ماندے مسافر پل بھر کو ٹھہرتے
نئی زندگی کا سراغ پاتے
سفر اور منزلوں کا ادراک کرتے آگے بڑھ جاتے ہیں،
اس شعری تجربے میں تانیثیت بہت کم دکھتی ہے ، انسان کےدکھ مشترک ہیں اس میں غیر ضروری نسائیت فن پارے کی اہمیت کو محدود کر دیتی ہے
آئلہ طاہر کے ہاں وہ مشترک احساس ہے جو صنفی تفریق سے بہت حد تک پرے ہیں
یوں ان کی شاعری کا دائرہ وسیع اور ان کی جمالیات وسعت پذیر ہیں۔
آ ئلہ طاہر کی شاعری اپنے اسلوب میں
منفرد، اپنے آہنگ میں خاص اور اپنی تشکیلات و انسلاک میں قاری کو حیرت حسرت اور رشک سے دوچار کرتی ہے
وہ لفظ ہر سخن ور کی طرح روزمرہ اور محاورے کے حاضر ذخیرہ سے منتخب کرتی ہیں
لیکن ان کا استعمال کمال ہنر مندی سے سب سے الگ اور نفیس انداز سے کرتی ہیں
یوں ان کی شعری کائنات میں ان کا ہر شعر اپنی پہچان اور شناخت کے ساتھ سامنے آتی ہے۔
خوبصورت تشکیلات کو جمالیاتی حسن عطا کرنے والی شاعرہ کی ایک روح تک رسائی پالینے والی نظم کے ساتھ اجازت
——
سنگ وحشت
یوں نہ تھا ھم نے کوئی سنگ سمیٹے ہی نہ تھے
یوں نہیں ہم کبھی وحشت سے گریزاں نہ ہوئے
کاش کے دھاگے میں کتنی ہی تمناؤں کے
بال وپر پہلے پہل رکھتے تھے ھم بھی لیکن
لاولد آنکھ میں اک نم کے سوا کچھ بھی نہیں!
ماتمی تال کی نمناک فضا میں یہ دل
کسی بے سود تماشے کا تمنائ ھے؟
کیا ملامت مری وحشت میں اتر آئ ھے
——
ہجر کی قافیہ پیمائی ان کی غزلوں کی طرح آئلہ طاہر کی نظموں میں بھی منفرد و خاص ہے۔۔۔ مضمون کی طوالت پیش نظر ہے ورنہ
آئلہ طاہر کی ایک خوبصورت نظم ،، دھندلکے غنیمت ہیں ، اس کا حق رکھتی ہے کہ اسے پڑھا سنا اور جھیلا جائے۔ بہرحال
——
دھندلکے غنیمت ہیں”
مشہد دل میں ،،ضبط کے سینے پر دھری
صبر کی دبیز سل ٹوٹ چکی ہے
ہجر کی قافیہ پیمائی
مجھ سے عاجز ہوتی جا رہی ہے
کہ میں ،
حجلہ ء جاں سے اٹھتی ہوک کو ،
ذیت کی آنچ پر ابالنے کے لیے
یادوں کے آتش کدے میں
دوزخ کی سی آگ جلا لینے کی سزاوار ہوں
——
خوابیدہ حسیات کی رگوں سے جڑا اظہاریہ قاری کو اپنے سحر میں جکڑ کر اپنے دل کے بند کیے ہوئے دروازے بھی کھولنے پر مجبور کر دیتا ہے۔۔آئلہ طاہر کے ہاں جو لفظ برتنے کا سلیقہ اور تخیل کی طلسماتی اپروچ ہے وہ اساطیری اور ماورائی جہانوں کی پروردہ ہے انکی ذات میں گندھے آفاقی پارے کے خمیر سے اٹھتی ہے۔۔۔اور خال خال ہی کہیں اور دکھائی دیتی ہے۔
——
منتخب کلام
——
میں اپنے باپ کی سب سے حسین شہزادی
کہ جس کے حصے میں دستار کی حفاظت تھی
——
اک قدیمی تمنا کے ساحل پہ کچے گھروندے تھے ھم
تیز آندھی چلی، ھم ٹھکانے لگے ،شام ٹھہری رہی
——
اپنی ہستی سے گریزاں ہے وہ شخص اور تو نے
صرف خدشات اٹھائے ؛ اسے ، سمجھا نہیں ہے
——
وہ ایک پل کہ جسے ہم نے زندگی لکھا
اب اور اس کی اذیت میں ھم جئیں گے نہیں؟
سو، پھر یہ دل ہی ھمارا،٫٫ ھمارے کام آیا۔۔۔۔!
کچھ ایسے پھول کھلے جو کبھی کھلیں گے نہیں
——
سمے کو مٹھی میں لینے کی بات تھی جس میں
ہم اس مڑے ہوئے صفحے کے ریگ زار میں ہیں
——
یہ طے ہے سو اب کی بار ترا بھی چین و سکوں لے گی
یہ تیرے بیمار کی بے چینی ، بے کل اعصاب کی دھن
کل یخ بستہ شام تھی ،تیرے غم کے سر ھم ہونے لگے
سر بہ گریباں حسرتِ دل اور دیدہء خونناب کی دھن
——
جو ھماری کشت سخن میں ان دنوں ایک غم کا اناج ہے
ھمیں اس زیاں سے نہیں حذر یہی زخم دل کا علاج ہے
وہ قفس میں رہ کے نبھا گئے کوئ بھولی بسری سی رسم و راہ
سر جان ودل کسی عشق کا یہ خراج تھا یہ خراجِ ہے
——
ڈسے ہوئے ہیں یہ آگہی کے، نہ جی رہے ہیں, نہ مررہے ہیں
نہ پوچھو, ان سے سبب کوئ بھی, یہ لوگ, پہلے ڈرے ہوئے ہیں
جو جا چکے ہیں وہ لوگ کیا تھے کہ ان کی الفت کی مہکی دنیا
جہاں تھمی تھی، گھڑی رکی تھی، وہیں پہ, ھم بھی کھڑے ہوئے ہیں
——
آنکھوں کے پپوٹوں پہ سجائے ہوئے کچھ خواب
بے کار اذیت میں اتارے ہوئے ھم لوگ
پہچانے کہاں جائیں گے اک ہجر میں تم سے
خوش فکر نصابوں کے سنوارے ہوئے ھم لوگ
——
شام کی دھند سے اک حسن نے جھانکا تو کوئی نظم ہوئ
بسکہ پھر غم وہی اک غم جو خوش آیا تو کوئی نظم ہوئ
دلِ بے تاب، محبت کی ملامت کا امیں، ڈر سا گیا
رِہ بدلنا کبھی اس شخص نے چاہا تو کوئی نظم ہوئ
کس کا سایہ تھا کڑی دھوپ میں اک اور الاؤ کا بیاں
کون تھا، زخم مرا مجھ کو دکھایا تو کوئی نظم ہوئ
وقت کے دیدہء بے رحم کو معلوم تھا ، کیا چھینا ہے
خالی ہاتھوں کو بھری آنکھ سے دیکھا تو کوئی نظم ہوئ
خواب کی تتلی کے ٹوٹے ہوئے پر اور بکھرتے ہوئے رنگ
اس کمائی کا کبھی صدقہ اتارا تو کوئی نظم ہوئ
——
کچھ سوالات کو ترتیب دیا جائے گا
پھر جوابات میں وہ نام لکھا جائے گا
اک تمنا کے چراغوں کے کچل جانے تک
چیختی ریل کے پہیوں کو تکا جائے گا
آج پھر کھول کے بیٹھا ہے کوئ دفترِ جاں
آج پھر سارے خساروں کو گنا جائے گا
تُو نے جب چھین لیے وصل کے امکان سبھی
اب تجھے دوست سخی کیسے کہا جائے گا ؟
وہ سخن فہم اگر مجھ کو میسر آئے
اُس سے غالب کا کوئی شعر سنا جائے گا
لوگ بے وجہ تجسس میں پڑے رہتے ہیں
اب نہ ہر اک سے ترا ذکر کیا جائے گا
جس کے کاندھے کی تمنا میں کمائے گئے غم
شام ہوتے ہی اُسے یاد کیا جائے گا
آج پھر دیر، بہت دیر سے نیند آئے گی
اک سکوت ایک مناجات کو کھا جائے گا
——
ایسی دل آویز ہے وصل کی تان پہ بجتی خواب کی دھن
کہساروں کی اوس پہ گرتی ہو جیسے مہتاب کی دھن
چشمِ رعنا جو تھی بخت کے ماتھے پر جھومر کی طرح
ڈھونڈ رہی ہے نجدِ دل میں بجتی ایک رباب کی دھن
تجھ دل سے نکلے ایام کی گردش میں بھٹکے لیکن
دل کی خاطر ڈھال بنی بن برسے ایک سحاب کی دھن
مجبورئ دل کہ بھلانے بیٹھے بھی تو یاد آتے گئے
وہ لب وہ رخسار وہ آنکھیں اور وہ ایک عتاب کی دھن
یہ طے ہے سو اب کی بار ترا بھی چین و سکوں لے گی
یہ تیرے بیمار کی بے چینی ، بے کل اعصاب کی دھن
کل یخ بستہ شام تھی ،تیرے غم کے سر ھم ہونے لگے
سر بہ گریباں حسرتِ دل اور دیدہء خونناب کی دھن
——
نہ, اب وہ پہلی سی طرز گریہ, نہ گرد غم میں اٹے ہوئے ہیں
بے اشک آنکھوں کے, رتجگوں میں, خیال سارے بجھے ہوئے ہیں
سنہری گھڑیوں کا لمس تھا وہ, مرے تکلم کے بانکپن میں
مگر یہ عالم ہے, اب, کہ, الفاظ ابر غم میں گھرے ہوئے ہیں
تمہارے در کو ہی تکتے رہنا, مچلتے جذبوں کی شوخیوں میں
مگر, اب, اس چشم ناتواں میں, ہزار نیزے گڑے ہوئے ہیں
دھنک سا چہرہ, اداس ہونا, پھر اس پہ بھی وہ, شفق سا کھلنا
یقین مانو, کہ, ھم سے ناداں, انہی دنوں کے جیے ہوئے ہیں
وہ اس کے جھگڑے ھماری خاطر, وہ سارے لوگوں سے بیر رکھنا
کہاں ھے؟ اب, آکے دیکھے, ھم کن عداوتوں میں گھرے ہوئے ہیں
ڈسے ہوئے ہیں یہ آگہی کے، نہ جی رہے ہیں, نہ مررہے ہیں
نہ پوچھو, ان سے سبب کوئ بھی, یہ لوگ, پہلے ڈرے ہوئے ہیں
جو جا چکے ہیں وہ لوگ کیا تھے کہ ان کی الفت کی مہکی دنیا
جہاں تھمی تھی، گھڑی رکی تھی، وہیں پہ, ھم بھی کھڑے ہوئے ہیں
——
اک تسلسل سے ایک اذیت کو جانبِ دل اچھالتا ہے کوئی
ایک مشکل سے نیم جاں ہو کر خود کو کیسے سنبھالتا ہے کوئ
بجھتی پلکوں سے تاکتی وحشت،شکر کر ہم تجھے میسر ہیں
ھمیں جو روگ ہو گئے لاحق ،دیکھ وہ بھی اجالتا ہے کوئ ؟
امتحاں میں پڑے ہوئے, یہ لوگ , تاسف سے دیکھتا ہے جہاں
ہائے, ایسے خراب حالوں کے کہاں شجرے کھنگالتا ہے کوئ !
گرد راہ سفر ہی ہیں ہم لوگ, سو ممکن ہے, بھول جاؤ ھمیں
جس طرح گھر کا فالتو ساماں, بے دلی سے نکالتا ہے کوئی !
بعد میرے بھی, کتنے لوگ آئے, تم کو اچھے لگے, تمہارے ہوئے !
کیا ؟ چپ کی ساعتوں میں تمیں، مری طرح سے سنبھالتا ہے کوئ ؟
——
نظم : نوا گر
——
وفا کا درفش تھامے
محبت کا بوجھ اٹھانے والی بوجھل سانسیں ،
دودھیا تکیے کے ساتھ
امر بیل سی لپٹی ہوئ ہیں_
طاق نسیاں میں اوندھے پڑے چاہ ذقن
"ھم تمہارا دل رہے ہیں” کی دہائ کے ریشم سے سرگوشیوں کے دھاگے بن رہے ہیں۔۔۔۔
تصویرتے حزن کی تاب لانا دوبھر ہو رہا ہے_
پوہ کی سنہری دھوپ میں مخملی گھاس پہ کہنیوں پہ مونھ ٹکائے الہڑ دوشیزائیں
اوندھی لیٹی ہوئی ہیں۔۔
اردگرد نصابی کتابوں کے ڈھیر ہیں_
بیچ میں تین چار کتابیں شاعری کی ہیں_
طلسمی آنکھیں وفور شوق سے بند ہیں
شعر سنے اور سنائے جارہے ہیں
کچھ خوب صورت شعر نئے سرے سے
حافظے کی زینت بن رہے ہیں
سمے کی کٹھالی جال پھینک رہی ہے
طائرانِ خوش الحان،چرخِ نیلوفری کی چادر تلے ،
صد آفریں کی سانولی لکھت سے مست خرام
آنکھ میں خواب کے گھرکے لیے جگہ بنا رہے ہیں!
کیا،اس سمے سوچا جا سکتا ہے کہ خواب کے سینے میں سوراخ ہو سکتا ہے۔۔؟؟
برسوں بعد۔۔۔
رات کی دھنیں اسی خواب سے کسک انڈیل رہی ہیں
خوشا وہ بے نیند آنکھیں آشنائے شدتِ گریہ ہیں
مگرخود کو سمیٹ نہیں پا رہی ہیں
ایک اور رات پر گریے کا سامری سحر چلنے والا ہے
کہ لطف وکرم کے کاسے میں خواب کی دولت لٹاتے
سب پرانے وقتوں کی
ریزگاری کے جمع شدہ سکے ہیں!
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ