اردوئے معلیٰ

آج پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور شاعر، افسانہ نگار، نقاد اور ادبی جریدے نئی قدریں کے مدیر اختر انصاری اکبر آبادی کا یومِ پیدائش ہے ۔

اختر انصاری اکبر آبادی(پیدائش: 15 اگست 1920ء – وفات: 18 اگست 1985ء)
——
اختر انصاری اکبر آبادی 15 اگست، 1920ء کو آگرہ (اکبر آباد)، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔ ان کا اصل نام محمد اختر ایوب تھا۔ تقسیم ہند کے بعد انہوں نے پہلے کراچی اور پھر حیدرآباد، سندھ میں سکونت اخٹیار کی۔ 1956ء میں حیدرآباد، سندھ سے نئی قدریں کے نام سے ادبی جریدہ جاری کیا۔ ان کے شعری مجموعوں میں کیف و رنگ، جام و رنگ، جام نور، دل رسوا، غم فردا، منظر جاں، لب گفتار، نالہ پابندِ نے، نئی راہ گذر، نئی رہگذر نئی کہکشاں، لسان العصر اور فردوس نغمہ کے نام شامل ہیں، جبکہ افسانوی مجموعوں میں ہوس کار اور زندگی کے رُخ،نثری کتب میں مفکر مہران، ادبی رابطے لسانی رشتے (مضامین)، ذکر ان کا باتیں ان کی (تذکرہ)، سبدِ چیں (شعرا کا تعارف و انتخاب)، نظریات (تنقید)، جمالِ آگہی (تنقید)، مضامین (تنقید)، نگارشات (مضامین) اور شاہ عبد اللطیف: حیات اور شاعری شامل ہیں۔
اختر انصاری اکبر آبادی 18 اگست، 1985ء کو بہاولپور، پاکستان میں وفات پاگئے۔ وہ حیدرآباد، سندھ میں کنٹونمنٹ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
——
اردو ادب کے اُستاد اختر انصاری اکبر آبادی از شبیر غوری
——
اندرونِ سندھ میں اردو ادب اور شاعری کے لیے جتنی خدمات اختر انصاری اکبر آبادی مرحوم کی ہیں۔۔۔ شاید اُس کی کوئی دیگر مثال نہیں مل سکتی۔ اُنہوں نے ادبی جریدے ’’نئی قدریں‘‘ کا اہتمام کیا اور اپنی عمرکے آخری حصے تک وہ نئی قدریں شایع کرتے رہے۔ اُن کے کئی مجموعہ کلام بھی چھپ چکے ہیں۔ اُن کے تنقیدی مضامین بھی شایع ہوچکے ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : کیف عظیم آبادی کا یومِ پیدائش
——
برصغیر پاک و ہند کی کوئی بھی ایسی ادبی، علمی شخصیت اور شاعر ایسا نہیں ہے جس کے اُستاد اختر انصاری اکبر آبادی سے تعلقات اور خط و کتابت نہیں تھی۔ اختر انصاری اکبر آبادی مخصوص مزاج اور رویے کے ادیب وشاعر تھے۔ اُن کے چاہنے والے بھی بے شمار تھے اور حریفوں کی بھی قطار لگی رہتی تھی۔ لیکن سب ہی تسلیم کرتے ہیںکہ اخترانصاری اکبر آبادی ایک ایسے ستون تھے جسے اُن کا کوئی حریف گرا نہیں سکا تھا، بدترین معاشی مشکلات، ہوٹلوں میں سکونت کی ہجرت اور مسائل کے باوجود اختر انصاری اکبر آبادی نے اردو ادب اور شاعری کے چراغ کو حیدر آباد میں بجھنے نہیں دیا اور وہ یکسوئی کے ساتھ ادبی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق بھی اُستاد اختر انصاری اکبر آبادی کی ادبی خدمات کا اعتراف کرچکے ہیں۔ بعض ادبی حلقے تو بجا طور پر اختر انصاری اکبر آبادی کو’’ اندرونِ سندھ کا بابائے اردو‘‘ قرار دے چکے ہیں۔ سابق سینیٹر اشتیاق اظہر سے بھی اُستاد اختر انصاری اکبر آبادی کے گہرے مراسم تھے۔ اشتیاق اظہر شاعر اور ادیب تھے اور حسرت موہانی مرحوم پر اُن کی کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں، اشتیاق اظہر مرحوم کی کتاب ’’قائد اعظم اور صحافت‘‘ ایک اہم تحقیق ہے۔
اُستاد اختر انصاری اکبر آبادی کے پاس نایاب کتابوں کا بھی ذخیرہ تھا، اُن کے ذاتی کاغذات ادب کے حوالے سے اہمیت رکھتے تھے وہ گاڑی کھاتے میں عموماً سوٹ پہن کر شام کو پان کی دکان پر مخصوص انداز میں سگریٹ پیا کرتے تھے، فقط علم و ادب سے تعلق رکھنے والے حلقہ احباب سے اُن کے رابطے تھے۔ وہ اپنی شخصیت کے بارے میں بہت حساس تھے، اسی لیے تعلقات رکھنے میں بہت محتاط تھے اور اُن کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ غیر ضروری گفتگو سے اجتناب کیا جائے۔
وہ مردم شناس تھے اور حیدر آباد کی تمام اہم شخصیات سے اُن کے قریبی تعلقات تھے۔ ممتاز شاعر نوح ناروی مرحوم نے اُن کے بارے میں لکھا ہے کہ اختر انصاری اکبر آبادی کی مجھ سے ملاقات تو نہیں ہوئی لیکن میں نے اُن کی نظموں کا مجموعہ اور اُن کے لکھے ہوئے افسانے دیکھنے کی طرح دیکھے ہیں۔ اگرچہ افسانوں سے مجھے کوئی خاص دلچسپی نہیں، تاہم نظموں کو دیکھتے ہوئے میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ ایک ہونہار شاعر ہیں اور بالخصوص خمسہ لکھنے میں اُنہیں کمال حاصل ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : اکبر الہ آبادی کا یوم وفات
——
ممتاز ادیب و شاعر شان الحق حقی کی رائے تھی کہ اختر انصاری اکبر آبادی مرحوم عموماً چُست، برجستہ اور بیساختہ مصرعے لگاتے ہیں اور واقعی اصل شعر کو اپنی مرصع سازی سے چمکا دیتے ہیں۔ ممتاز شاعر جوش ملیسانی نے اعتراف کیا تھا کہ اختر انصاری اکبر آبادی مرحوم ملک کے خوش گو شعراء میں شمار کیے جانے کے قابل ہیں۔ اردو ادب کی اہم شخصیت حکیم یوسف حسن مرحوم مدیر ’’نیرنگ خیال‘‘ مرحوم نے صنف خمسہ کے حوالے سے اُنہیں قادر الکلام شاعر قرار دیا تھا۔
روزنامہ ’’ڈان‘‘ میں اہم عہدے پر فائز فضل احمد صدیقی نے استاد اختر انصاری اکبر آبادی کی علمی اور ادبی خود اعتمادی کا اعتراف کیا تھا۔ اپنے مجموعہ کلام جام نو میں علامہ اقبال کی غزل کی تظمین میں اُن کے درجہ ذیل اشعار حوالے کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں۔
——
اختر جو آئے واعظ دیں بزم ناز میں
واعظ جو ہو غلامی عشوۂ طراز میں
واعظ پیے جو انجمن دل نواز میں
واعظ ثبوت لائے جومئے کے جواز میں
اقبالؔ کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے
——
اختر انصاری اکبر آبادی مرحوم کی نظمیں اختر شیروانی مرحوم کی طرح شباب و شعر، کیف و رنگ کی آئینہ دار ہیں۔ اُن کی نظموں میں رومان کے ساتھ ساتھ پیام بھی ہے، اُن کی نظموں کا مجموعہ ’’کیف و رنگ‘‘ اُن کے بے نظیر اشعار کا مظہر ہے۔ اُستاد اختر انصاری اکبر آبادی 17 اگست 1984ء کو اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔
استاد اختر انصاری اکبر آبادی کا آخری وقت تک ساتھ صابر وسیم ، اقبال سہوانی اور رشید جمال نے نبھایا۔اُن کی ادبی تحریک نئی قدریں کو اقبال سہوانی آج تک زندہ رکھے ہوئے ہیں اور سندھی اُردو ادبی روابط اور لسانی رابطوں میں اہم کردار ادا کررہے ہیں، جو کہ استاد اکبر آبادی کا مشن تھا۔ اختر انصاری کا اُدھورا ادبی کام بھی طباعت سے آراستہ نہیں ہوسکا۔
چاہیے تو یہ تھا کہ اختر انصاری اکبر آبادی مرحوم پر پاکستان کی کسی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی سطح پر تحقیق ہوتی اور اُن کی علمی، ادبی خدمات کو تسلیم کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا، اب بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی ادارہ کوئی تنظیم ذمے داری سنبھالے اور اختر انصاری اکبر آبادی کے حوالے سے کتاب شایع کرے تاکہ اردو ادب اور شاعری کے لیے استاد اختر انصاری اکبر آبادی کی خدمات اور حیدر آباد سے اُن کے تعلق کو محفوظ کیا جاسکے۔اختر انصاری اکبر آبادی مرحوم کے انتقال کے بعد اُنہیں یکسر بھلادیا گیا۔ اُن کی برسی بھی چپ چاپ گزر جاتی ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : آزاد انصاری کا یوم پیدائش
——
منتخب کلام
——
ترے تغافلِ پیہم کی تھپکیاں توبہ
اجل کی گود میں سوئے ہوئے ہیں دیوانے
——
جو فسانے لبِ گفتار تک آئے بھی نہیں
رنگ بن کر ترے رخسار تک آ پہنچے ہیں
——
تری نگاہ کے عنواں بدل گئے لیکن
مرے جنوں کے فسانے ابھی نہیں بدلے
——
نگاہِ مغرورِ شعلہ ساماں کراہیں سُن کر ہوئی ہے ایسی
کہ جیسے مظلوم کو زمانے میں سانس لینے کا حق نہیں ہے
——
توڑ دے ساغر و مینا کو خدارا ساقی
ہاتھ ہر رند کے تلوار تک آ پہنچے ہیں
——
بات تھی محبت کی ، ذکر تھا جوانی کا
لے کے آج انگڑائی ، اُس نے جھوم کر دیکھا
——
یوں برقِ تبسم لہرائی پلکوں سے ستارے ٹوٹ پڑے
دامن کا سہارا پاتے ہی آلام کے مارے ٹوٹ پڑے
——
ابھی بہار نے سیکھی کہاں ہے دل جوئی
ہزار داغ ابھی قلب لالہ زار میں ہیں
——
یہ محبت کی جوانی کا سماں ہے کہ نہیں
اب مرے زیر قدم کاہکشاں ہے کہ نہیں
دامن رند بلا نوش کو دیکھ اے ساقی
پرچم خواجگئ کون و مکاں ہے کہ نہیں
مسکراتے ہوئے گزرے تھے ادھر سے کچھ لوگ
آج پر نور گذر گاہ‌ زماں ہے کہ نہیں
حسن ہی حسن ہے گلزار جنوں میں رقصاں
عشق کا عالم صد رنگ جواں ہے کہ نہیں
راہ پر آ ہی گئے آج بھٹکنے والے
راہبر دیکھ وہ منزل کا نشاں ہے کہ نہیں
لاکھ گرداب و تلاطم سے گزر کر اے دوست
اب سفینہ مرا ساحل پہ رواں ہے کہ نہیں
تذکرے اپنے ہر اک بزم میں ہیں اے اخترؔ
آج مہمل سی حدیث دگراں ہے کہ نہیں
——
یہ رنگ و کیف کہاں تھا شباب سے پہلے
نظر کچھ اور تھی موج شراب سے پہلے
نہ جانے حال ہو کیا دور اضطراب کے بعد
سکوں ملا نہ کبھی اضطراب سے پہلے
وہی غریب ہیں خانہ خراب سے اب بھی
رواں دواں تھے جو خانہ خراب سے پہلے
وہی ہے حشر کا عالم اب انقلاب کے بعد
جو حشر اٹھا تھا یہاں انقلاب سے پہلے
ملی ہے تجھ سے تو محسوس ہو رہی ہے نظر
نظر کہاں تھی ترے انتخاب سے پہلے
تباہ حال زمانے کو دیکھیے اخترؔ
نظر اٹھائیے جام شراب سے پہلے
——
یوں بدلتی ہے کہیں برق و شرر کی صورت
قابل دید ہوئی ہے گل تر کی صورت
زلف کی آڑ میں تھی جان نظر کی صورت
رات گزری تو نظر آئی سحر کی صورت
ان کے لب پر ہے تبسم مری آنکھوں میں سرور
کیا دکھائی ہے دعاؤں نے اثر کی صورت
قافلے والو نئے قافلہ سالار آئے
اب بدل جائے گی انداز سفر کی صورت
کیا کرشمہ ہے مرے جذبۂ آزادی کا
تھی جو دیوار کبھی اب ہے وہ در کی صورت
اب کوئی حوصلہ افزائے ہنر ہے اخترؔ
اب نظر آئے گی ارباب ہنر کی صورت
——
شعری انتخاب از دلِ رسوا ، نالہ پابندِ لے
مصنف : اختر انصاری اکبر آبادی ، متفرق صفحات
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ