اردوئے معلیٰ

آج معروف نعت گو شاعر اختر ہوشیار پوری کا یومِ وفات ہے ۔

اختر ہوشیار پوری(پیدائش: 20 اپریل 1918ء – وفات: 18 مارچ 2007ء)
——
اختر ہوشیار پوری کا اصل نام عبدالسلام اور اختر تخلص ہے۔۲۰؍ اپریل۱۹۱۸ء کو ہوشیار پور، مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ بی اے، ایل ایل بی پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔۱۹۴۷ء میں پاکستان آ گئے اور راولپنڈی میں سکونت اختیارکی۔شعری مجموعے درج ذیل ہیں: ’علامت‘، ’آئینہ اور چراغ‘، ’برگ سبز‘ ، ’سمت نما‘، ’شہر حرف‘، ’جہت‘، مجتبیٰ‘، ’شب گزراں‘، ’لہو رنگ شام‘، ’حرف ہنر‘، ’برگ گل‘، ’رسالت مآب صلعم‘ ،’سرسوں کے پھول‘، ’خیر البشر‘، ’خاتم المرسلین‘۔ ان کی تالیف کردہ کتابیں ’’مجتبیٰ‘‘ اور ’’خیر البشر‘‘ برائے سال۱۹۹۸ء اور ۲۰۰۰ء بالترتیب دوم اور سوم انعام کی مستحق قرار پائیں۔حکومت پاکستان نے انھیں ادب(شاعری) کے شعبے میں ’’تمغۂ امتیاز‘ سے بھی نوازا۔ وہ ۱۸؍مارچ ۲۰۰۷ء کو راولپنڈی میں انتقال کرگئے۔
——
اختر ہوشیار پوری کی نعت ۔ ایک مطالعہ از امین راحت چغتائی
——
میں اختر ہوشیار پوری مرحوم کی شاعری کے ساتھ نصف صدی سے زیادہ عرصہ بسرکرچکا ہوں اوراُنھیں زندگی کے آخری لمحوں تک ویسا ہی تازہ فکر پایاجیسا اُنھیں۱۹۴۸ء میں اپنی پہلی ملاقات کے وقت دیکھا تھا۔اُن کی شاعری میں کہیں تھکن کااحساس ہے نہ اُنھوں نے اپنے آپ کو دہرایا ہے۔مجموعی طورپراُن کے سولہ مجموعہ ہائے کلام شائع ہوچکے ہیں اور’’خیرالبشر‘‘اُن کا چودھواں (۱۹۹۹ء)مجموعۂ کلام ہے اورنعت نگاری کے لحاظ سے چوتھا ۔اُن کے نعت کے دومجموعے’’برگِ سبز‘‘ اور’’مجتبی‘‘ بالترتیب ۱۹۸۷ء اور۱۹۹۷ء میں نظر نواز ہوئے۔۱۹۹۸ء میں منعقد ہونے والی قومی سیرت کانفرنس میں وزیراعظم جناب محمد نوازشریف نے بذاتِ خود اُنھیں’’ موخرالذکر‘‘ مجموعے پرانعام دیا تھاجوجناب اخترہوشیار پوری نے کانفرنس ہال میں ہی وزیراعظم کے خودانحصاری فنڈ میں دے دیا تھا۔اپنے آقاصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدحت نگاری پرملنے والے انعام کااس سے زیادہ مبارک مصرف اورکیاہوسکتا تھا۔
جناب اختر ہوشیار پوری جس طرح جدید اردوغزل کونیا اُسلوب اورلہجہ دینے والے اکابر شعرا میں شمار ہوتے ہیں اُسی طرح جدید نعت میں بھی اُن کالہجہ نئے پن کااحساس دلاتاہے۔اُن کی نعت کے پانچوں مجموعوں میں تین خصوصیات بہت نمایاں ہیں۔اوّل: عجز وانکسار،دوم:حدِادب اور سوم:غیرروایتی موضوعات اورتینوں اوصاف کااسلوب بیان نیا۔اس سلسلے میں سب سے پہلے ’’برگ سبز‘‘۱۹۸۸ء کی مختلف نعتوں کے یہ تین اشعار پڑھیے:
——
قرطاس کاسینہ ہے، مری نوکِ قلم ہے
یہ معجزۂ نعتِ خداوندِحرم ہے
——
قلم کارو!حراسے حرف کی آواز آتی ہے
کہ اب آواز کے سورج کووادی میں نکلنا ہے
——
اُن کی گلیوں کی اگر خاک میسر آجائے
آئینہ ہو کہ نہ ہو ، آئینہ گربن جاؤں
——
اب مجتبیٰ کے یہ اشعاردیکھیے۔مواجہہ شریف سامنے ہے جہاں بڑے بڑوں کا دامنِ صبر ہاتھوں سے چھوٹ چھوٹ جاتاہے مگر مجتبیٰ کے شاعر کے عجز اورحسنِ طلب کااسلوب نرالاہے۔
——
میں نے ہاتھوں پہ سجایا ہے لبوں کواختر
اور پھیلا دیا ہاتھوں کو کہ چھلکے چھاگل
——
یہ بھی پڑھیں : حفیظ ہوشیار پوری کا یوم پیدائش
——
اس شعر کوباربارپڑھ کر یہ احساس شدت سے غالب رہتاہے کہ معاصرشعرا کے ہاں ایسا نادرودلآویزاسلوب کم کم نظر آتاہے جس میں دربار رسول کے تمام آداب بھی ملحوظ خاطرہوں اور عاجزانہ طلب بھی ہو۔پاس ادب کے ساتھ مدحت سرائی کاایک اورانداز دیکھیے:
——
وہ درگہِ مکرم ، وہ درس گاہِ عالی
مٹی کا ہر ہیولیٰ انسان ہوگیا ہے
——
مجتبیٰ کے غیر روایتی موضوع اوراسلوب کابھی ایک شعر ملاحظہ کیجیے:
——
ہنگامِ اذاں،حرف کانم چوم کے خوش ہوں
جب نام ترا آئے،قلم چوم کے خوش ہوں
——
اب آئیے تیسرے مجموعۂ نعت’’ رسالتمآب‘‘۱۹۹۹ء کی طرف نعتیہ ادب کے قارئین وناقدین یہ کلام پڑھنے کے بعد محسوس کریں گے کہ جناب اختر ہوشیار پوری بڑی خاموشی سے نعت کے جدید شعرا کی ذہنی تربیت کررہے ہیں۔اس کتاب کی نعتیہ فضا یکسر مختلف ہے۔اس میں نہ صرف مذکورۃ الصدر کتابوں کے اوصاف برقرار ہیں بلکہ اکثر مقامات پرخیال کی ندرت،الفاظ کی جدت اورمعانی کی لطافت نے کچھ ایسا سماں باندھ رکھاہے کہ آنکھیں فرطِ عقیدت سے چھلکتی ہیں توروح انوکھے کیف و سرور سے سرشار ہوتی ہے۔یہی نہیں نعت کی صورت میں عصرِ حاضر پرمرتب ہونے والی سیرت رسول کے اثرات کاظہور بھی دکھائی دیتاہے۔مثلاً:
——
آپ کاطرزِ کلام وگفتگو سنتی رہیں
تب کہیں چٹکی ہیں کلیاں بادصبح وشام سے
——
یوں فرشتے ہیں عرش پر جیسے
کوئے خیرالانام ہوتا ہے
——
میں لوٹ لوٹ کے آتاہوں دیکھنے تجھ کو
کہ جیسے میراپلٹنا ہی رقصِ آہو ہے
——
کوئی فرشتہ سپردِ قلم کرے آکر
بیان کرنے لگاہوں میں داستانِ رسول
——
درودوں کی صداؤں کے تصدق
میں اپنے قد سے اونچا ہوگیا ہوں
——
تونے انساں کوبلند اتنا کیا سوچتاہوں
اب گداؤں کومیں شاہوں کے مقابل سمجھوں
——
اختر یہ عرصہ،عرصۂ ختم الرسول ہے
روزِ ازل کی صبح بھی ،یوم نشور بھی
——
میں نے یہ چند اشعار یونہی منتخب نہیں کرلیے بلکہ انتخاب سوچ سمجھ کرکیاہے اوربتانا یہ مقصود ہے کہ جناب اختر کی نعت میں ایک نیاپن توہے ہی مگر یہ اُسے عصر حاضر کے دوسرے نعت گوشعرا سے متمّیز بھی کرتا ہے۔اُن کے انداز فکر اوراسلوب بیان میں جدید عہد کے تقاضوں کی جھلک بھی ہے اورذات وصفات دونوں حوالوں سے لکھی جانے والی نعت کا دلآویز امتزاج بھی۔اُن کی نعت کیف افزا شاعری کے ذیل میں بھی آتی ہے اورعقل وخرد کوشکار ہونے سے بھی بچاتی ہے۔ہمارے عہد میں توحید ورسالت کی حدفاصل کوجن نعت گو شعرا نے بڑی احتیاط سے سمجھا ہے اُن میں سرِفہرست توحفیظ تائب ہیں مگر اُن کے ہمرکاب اختر ہوشیار پوری بھی ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : طفیل ہوشیارپوری کا یوم وفات
——
جناب اختر کاچوتھا مجموعۂ نعت’’خیرالبشر‘‘۲۰۰۰ء ہے۔جسے وزارت مذہبی امور انعام سے بھی نوازچکی ہے۔ٹی ۔ایس۔ایلیٹ نے ایک بار کہا تھا کہ شاعری کاپہلا منصب مسرت بہم پہنچانا ہے۔وہ خود مذہبی آدمی تھا۔مذہب اورادب میں کسی خط امتیاز کاقائل نہیں تھا۔اُس نے مسرت کی کوئی وضاحت نہیں کی۔یہ روحانی بھی ہوسکتی ہے اور مادی بھی۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ مسرت روح کے ذریعے ہی حاصل ہوتی ہے۔اگرکوئی شاعر رسول اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سراپا اورفکروعمل سے سرشار ہوکر نعت تخلیق کرتاہے تویہ اُس کی محض ذاتی روحانی مسرت نہیں ہے بلکہ حضور وحتمی مرتبت کاہرامتی اس سے سرشار ہوتاہے اور’’خیرالبشر‘‘میں بھی کچھ ایسی ہی سرشاری ہے۔کتاب میں کہیں مایویسی،اندھیروں یاناکامیوں کاذکر نہیں ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمسے وابستگی کے باعث بہاروں کی آمد،خوشبوؤں کی اڑان،سنبل وریحاں کی مہکار کاذکر ہے۔یہ سب رجائیت کی علامتیں ہیں اوراختر خود:
——
خداکرے کہ زمانہ بھی نیند سے جاگے
سحر کے وقت میں جب اُن کانام لے کے اٹھوں
——
کہتاہوا لوگوں کوپیامِ حیات دے رہے ہیں۔
اس مجموعے میں فضائل وشمائل کابیان زیادہ ہے اوررنگ تغزل بھی اپنی جلوہ سامانیوں کے ساتھ بھرپور ہے اورادھر اختر ہوشیار پوری کی بعض غزلوں پربھی نعت کارنگ چھایا ہواہے اب دونوں رنگوں کی گھلاوٹ سے یہ شعر تخلیق ہوا:
——
مری داستانِ حیات میں ترے نام ہی کی بہارہے
تری صبح ہی کے گلاب ہیں،تری شام ہی کی بہارہے
——
اورفضائل کی عظمت نے اس شعر کوجنم دیا۔
——
زمانہ تویہاں سے ہے وہاں تک
محمد ہیں مکان و لامکاں تک
——
اب اسی مزاج کے چند اوراشعار دیکھیے اورفیصلہ کیجیے کہ جناب اختر کے ہاں نئی نعت نے فروغ پایا ہے یانہیں؟
——
شعور آدمی نے کروٹیں لیں
گلستانِ مدینہ کی ہوا سے
——
کب بامِ افق پرکچھ دھراہے
سورج توحراسے پھوٹتا ہے
——
آپ سے حال وماضی ہوئے سربہ خم
اورفرداہے عقدہ کشا آپ سے
——
پہلے اُن کانام لکھا اورپھرلب رکھ دئیے
آفر ینش کی حدیث دلربا کہتے ہوئے
——
اور۲۰۰۳ء میں’’خاتم المرسلین‘‘(پانچواں مجموعۂ نعت)مرتب کرنے تک جناب اختر ہوشیار پوری ’’سندِامتیاز‘‘(۷/جولائی ۱۹۹۸ء)اورتمغۂ امتیاز(۲۳/مارچ۱۹۹۹ء)سے سرفراز ہوچکے تھے۔’’خاتم المرسلین‘‘کی طباعت کے وقت وہ عمر کی ۸۵منزلیں طے کرچکے تھے اور آج میں خود اُن کے نعتیہ مجموعوں کاجائزہ لیتے وقت بفضلہ ۸۷ سال کے مراحل میں ہوں،الحمداللہ!
——
یہ بھی پڑھیں : نریش کمار شاد کا یوم پیدائش
——
نعت کے ضمن میں وہ خود بہت محتاط شاعر تھے۔’’خاتم المرسلین‘‘ کے پیشِ لفظ ایک طرز احساس میں وہ بصد عجز کہہ چکے ہیں کہ نعت کہتے وقت توحید ورسالت کاامتیاز ہمیشہ اُن کے پیشِ نظر رہا نیز کوئی لفظ یاترکیب ایسی نہیں جوشائستہ دربار نبی نہ ہو اوریہ درست ہے اُن کی ہرنعت میں مقام آشنا التجا ہے۔مدینے سے وابستگی کے ہزاروں اظہار ہیں اورہراظہار میں ایک قرینہ ہے بلکہ زیرنظر مجموعے کاگہری نظر سے مطالعہ کیاجائے تومعلوم ہوگا کہ یہاں کوئی نعت ایسی نہیں جومدینے کی برکات کے ذکر سے خالی ہو اورچوں کہ یہاں مدینہ موضوعِ سخن ہے اس لیے اسلوب سخن میں غزل کارنگ درآیاہے۔مثلاً:
——
وجہِ بہار زیست مدینے کاپھول ہے
میری رگوں میں خوں نہیں،حب رسول ہے
——
کیا کہوں لطفِ نبی کااعجاز
مکہ جاگا ہے ، مدینہ جاگا
——
شہر نبی میں چھاؤں بھی،لطفِ شگفتگی بھی ہے
روشنی سحر بھی ہے،چاند کی چاندنی بھی ہے
——
سوادِ وادئ طیبہ ہے صحنِ امن وسکوں
کہ اس کے حلقے میں تفریقِ نام وذات نہیں
——
پاہی لیں گے کسی روز منزل
قافلے چل دئیے ہیں مدینے
——
دوسرا پہلو جو اس کتاب میں بہت نمایاں ہے وہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کاوجہِ کائنات ہوناہے اوراُنھی کو شمع مہر بھی کہا گیاہے اورچاند کااجالا بھی ۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات کونعمت جاں اوردولت ہستی سے تعبیر کیا گیا ہے اوربتایا گیاہے کہ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمہی کی وہ چوکھٹ ہے جس سے زمانے کابھلا ہوتاہے۔یہیں سراپا غزل کے انداز کابھی ایک بولتا ہواشعر نظر سے گزرے گا۔ملاحظہ فرمائیں:
——
جنبشِ لب میں شگوفوں کی چٹک ہے پنہاں
بات کے لہجے میں اندازِ صبا ہوتاہے
——
جناب اختر نے’’مجتبیٰ‘‘کے پیشِ لفظ میں خود بڑے شوق سے یہ اقرار کیاہے کہ میں نے نعت جوش سے نہیں ہوش سے کہی ہے اوراپنی اوقات کو ایک لمحے کے لیے بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا کہ عشق رسول ،اطاعت رسول کے سوا کچھ نہیں خود خالق ہردوجہاں اپنی محبت کواتباع رسول سے مشروط کررہے ہیں۔اب آخر میں جناب اختر ہوشیارپوری کاایک غیر فانی شعر ملاحظہ فرمائیں:
——
ارض طیبہ میں میرے نبی کاوجود
جیسے قرآن اختر ہو جزدان میں
——
یہ بھی پڑھیں : حفیظ ہوشیار پوری کا یوم وفات
——
منتخب کلام
——
اک عمر سے اخترؔ میں ہوں خود اپنے مقابل
اک عمر سے اخترؔ میری شیشے سے ٹھنی ہے
——
پھر یہ ہوا کہ لوگ دریچوں سے ہٹ گئے
لیکن وہ گرد تھی کہ در و بام اَٹ گئے
——
آئینہ دیکھتا ہوں کہ شیدائیوں میں ہوں
میں آپ اپنے دکھ کے تماشائیوں میں ہوں
باہر گلی میں بردہ فروشوں کا شور ہے
بھاگوں کدھر ، گھرا ہوا تنہائیوں میں ہوں
——
اخترؔ یہ فیض دشتِ جنوں کی ہوا کا ہے
پتھر مجھے عزیز ہوئے اپنی جان سے
——
چمن کے رنگ و بو نے اس قدر دھوکا دیا مجھ کو
کہ میں نے شوق گل بوسی میں کانٹوں پر زباں رکھ دی
——
کچے مکان جتنے تھے بارش میں بہہ گئے
ورنہ جو میرا دکھ تھا وہ دکھ عمر بھر کا تھا
——
کب دھوپ چلی شام ڈھلی کس کو خبر ہے
اک عمر سے میں اپنے ہی سائے میں کھڑا ہوں
——
الفاظ کی تقدیس کو اربابِ قلم آئے
جب سلسلۂ وحی ہوا ختم تو ہم آئے
حرفوں کی صداقت پہ اٹھے تیشے بھی اکثر
اور ان کی گواہی کو بھی پتھر کے صنم آئے
زینبؓ کے کھلے سر کی طرح زیست کھڑی ہے
جلتے ہوئے خیموں سے کوئی لے کے علم آئے
کچھ لوگ بھی سناٹوں میں رچ بس سے گئے ہیں
کچھ غُلغلۂ انداز بھی اس شہر میں کم آئے
میں چُومتا پھرتا ہوں چٹانوں کی جبیں کو
شاید کسی بُت خانے سے گُلبانگِ حرم آئے
یہ معنی و الفاظ کی حُرمت کی گھڑی ہے
اے ہم سخنو ! دیکھنا گردن میں نہ خم آئے
میں آؤں پلٹ کر تو یہ احسان اتاروں
احباب مجھے چھوڑنے بادیدۂ نم آئے
آوازۂ صحرا فقط آواز ہے اخترؔ
ہاں کوہِ ندا پر کوئی دو چار قدم آئے
——
بارہا ٹھٹھکا ہوں خود بھی اپنا سایہ دیکھ کر
لوگ بھی کترائے کیا کیا مجھ کو تنہا دیکھ کر
مجھ کو اس کا غم نہیں سیلاب میں گھر بہہ گئے
مسکرایا ہوں میں بے موسم کی برکھا دیکھ کر
ریت کی دیوار میں شامل ہے خون زیست بھی
اے ہواؤ سوچ کر اے موج دریا دیکھ کر
اپنے ہاتھوں اپنی آنکھیں بند کرنی پڑ گئیں
نگہت گل کے جلو میں گرد صحرا دیکھ کر
میرے چہرے پر خراشیں ہیں لکیریں ہاتھ کی
میری قسمت پڑھنے والے میرا چہرا دیکھ کر
——
شایان زندگی نہ تھے ہم معتبر نہ تھے
ہاں کم نظر تھے اتنے مگر کم نظر نہ تھے
اب کے برس جو پھول کھلا کاغذی ہی تھا
اب کے تو دور دور کہیں برگ تر نہ تھے
ہر پھول ایک زخم تھا ہر شاخ ایک لاش
گویا کہ راہ میں تھیں صلیبیں شجر نہ تھے
بادل اٹھے تو ریت کے ذرے برس پڑے
ہم کو بھگو گئے ہیں وہ دامن جو تر نہ تھے
کہتے تھے ایک جوئے رواں ہے چمن چمن
دیکھا تو بستیوں کے کنارے بھی تر نہ تھے
ٹکرا کے سر کو اپنا لہو آپ چاٹتے
اچھا ہوا کہ دشت میں دیوار و در نہ تھے
دریا کا سینہ چیر کے ابھرے جو سطح پر
دامن میں سنگریزے تھے اخترؔ گہر نہ تھے
——
منزلوں کے فاصلے دیوار و در میں رہ گئے
کیا سفر تھا میرے سارے خواب گھر میں رہ گئے
اب کوئی تصویر بھی اپنی جگہ قائم نہیں
اب ہوا کے رنگ ہی میری نظر میں رہ گئے
جتنے منظر تھے مرے ہمراہ گھر تک آئے ہیں
اور پس منظر سواد رہ گزر میں رہ گئے
اپنے قدموں کے نشاں بھی بند کمروں میں رہے
طاقچوں پر بھی دیئے خالی نگر میں رہ گئے
کر گئی ہے نام سے غافل ہمیں اپنی شناخت
صرف آوازوں کے سائے ہی خبر میں رہ گئے
ناخداؤں نے پلٹ کر جانے کیوں دیکھا نہیں
کشتیوں کے تو کئی تختے بھنور میں رہ گئے
کیسی کیسی آہٹیں الفاظ کا پیکر بنیں
کیسے کیسے عکس میری چشم تر میں رہ گئے
ہاتھ کی ساری لکیریں پاؤں کے تلووں میں تھیں
اور میرے ہم سفر گرد سفر میں رہ گئے
کیا ہجوم رنگ اخترؔ کیا فروغ بوئے گل
موسموں کے ذائقے بوڑھے شجر میں رہ گئے
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات