اردوئے معلیٰ

Search

آج اردو کی جدید نظم کے ممتاز شاعر اختر حسین جعفری کا یوم پیدائش ہے۔

اختر حسین جعفری(پیدائش: 15 اگست، 1932ء – وفات: 3 جون، 1992ء)
——
اردو کی جدید نظم کے ممتاز شاعر اختر حسین جعفری 15 اگست 1932ء کو موضع بی بی پنڈوری ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔
ان کے شعری مجموعوں میں آئینہ خانہ اور جہاں دریا اترتا ہے کے نام شامل ہیں۔
وہ اردو کے جدید نظم نگاروں میں ایک اہم مقام کے حامل ہیں۔
حکومت پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں 2002ء میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا اس کے علاوہ انہوں نے اپنی تصنیف آئینہ خانہ پر آدم جی ادبی انعام بھی حاصل کیا تھا۔
3 جون 1992ء کو اختر حسین جعفری لاہور میں وفات پاگئے اور شادمان کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
——
اختر حسین جعفری ، قافلے کے پڑاؤ میں از ظفر معین بلے جعفری
——
اختر حسین جعفری جدید نظم نگاری کا ایک معتبر نام ہیں ۔اہلِ ادب نے انہیں ان کی زندگی ہی میں جدید نظم نگاری کا امام تسلیم کرلیاتھا۔ بہت سوں نے انہیں بیسویں صدی کاغالب قراردیا اور کچھ اکابرین ِ ادب کاخیال ہے کہ اخترحسین جعفری بے دل کے بعد سب سے قدآور شاعر ہیں۔وہ ترقی پسند تحریک کے سرگرم رکن بھی رہے ۔کمال کی شاعری کی۔میرے والدِ بزرگوار سیدفخرالدین بلے مرحوم مغفور بھی ان کی شعرو شاعری کےمداح تھے۔اور پاک و ہند کے صف ِ اول کے شعراء کی موجودگی میں بھی یہ کہا کرتے تھے کہ میں نے اخترحسین جعفری سے بڑاشاعر نہیں دیکھا، آپ نے دیکھاہو تو مجھے ضرور بتائیےگا۔
——
یہ بھی پڑھیں : علی سردار جعفری کا یوم پیدائش
——
فیض احمد فیض ، احمد ندیم قاسمی اور ڈاکٹر وزیرآغا نے یہ ریمارکس سن کرکبھی اس سے ہٹ کرکوئی رائے نہیں دی ۔گویا ان اکابرین ِ ادب کی خاموشی کو آپ میرے والدِ بزرگوار کےریمارکس پر مہرِتصدیق ثبت کرنے کے مترادف قراردے سکتے ہیں ۔ اخترحسین جعفری کوان کی ادبی خدمات کےاعتراف میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سےبھی نوازا گیا۔اس سے پہلے انہیں آدم جی ایوارڈ بھی ملا۔اور بہت سے اعزازات بھی انہوں نے اپنے نام کئے۔اختر حسین جعفری کو تمغہء حسن کارکردگی ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعدملا، جو ان کے ورثاء نے ایک بڑی تقریب میں بھیگی آنکھوں کےساتھ وصول کیا۔ یہ شکرانے کے آنسو تھے یاانہیں عظیم شخصیت کی یاد نے تڑپادیا؟ یہ تو وہی جانتے ہیں یا اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات بابرکات؟سوال یہ ہے کہ کیا ان کی زندگی میں ہی انہیں اس اعزاز سے نہیں نوازا جاسکتا تھاتاکہ وہ خود بھی اس خوشی کوانجوائے کرپاتے؟کیا ہم لوگوں کو ان کی زندگی ہی میں ان کاحق نہیں دے سکتے؟وہ کون سے عوامل ہیں ،جو ہمیں دوسروں کو بروقت خوشیاں بانٹنے سے روکتے ہیں ؟ ان سوالوں پر غورکرنے کی ضرورت ہےاور ان سے ملنے والے جواب آئندہ کیلئے ہمیں اپنے روئیے تبدیل کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں ۔اس حوالے سے ایک نامور ادب دوست شخصیت خالداقبال یاسر کی تحریر کاایک اقتباس آپ کی نذر ہے۔جوہمیں بتارہا ہے کہ اخترحسین جعفری کوان کی زندگی میں تمغہء حسن کارکردگی کیوں نہیں ملا۔ پہلے آپ خالداقبال یاسر صاحب کی تحریرکااقتباس ملاحظہ فرمائیے،بعد میں اس حوالے سے مزید بات ہوگی۔ خالد اقبال یاسر کی تحریر کا اقتباس۔
“۔ ۔ اکادمی ادبی انعامات کا عنوان ابتدا میں ہجری ادبی انعامات رکھا گیا تھا۔ ان کا سال آغاز 1401 ھجری تھا۔ اختر حسین جعفری کی زندہ جاوید نظموں کی پہلی کتاب آئینہ خانہ کی پرنٹ لائن میں سال اشاعت 1401 ھجری درج تھا۔ اس اندراج سے سال عیسوی اور ہجری میں کسی غلطی کی گنجائش نہ تھی۔ میرے ذمے کتابوں کی ابتدائی پڑتال تھی کہ صرف مقابلے میں شمولیت کی اہل کتابیں منصفین کو بھجوائی جائیں۔ میں نے آئینہ خانہ خاص طور پر اس وقت کے ڈی جی اکادمی کو سن ہجری کے ساتھ دکھائی اور اردو شاعری کی اس رجحان ساز اور عہد ساز کتاب کو لازماً منصفین کو بھجوانے کےلیے کہا کیونکہ عین وقت پر انعامات کے معاملات ایک کج فہم جونئیر افسر کو سونپ دیے گئے تھے۔ انعامات کے اعلان سے بہت پہلے ایک مشاعرے میں محسن احسان مجھے ایک طرف لے جا کر پوچھنے لگے کہ ان کی کتاب کو اکادمی ادبی انعام مل رہا ہے ؟ یہ بات میرے علم میں نہیں تھی تاہم جب انعامات کا اعلان ہوا تو ان کی بات درست نکلی۔ انعامات کے اعلان کے کچھ دن بعد اس وقت کے ڈی جی نے مجھے طلب کر کے آئینہ خانہ دراز سے نکالی اور کہا کہ یہ کتاب 1401 ھجری کی ہے لیکن اس پر غور کیوں نہیں ہوا۔۔۔ اب اس بات کا جواب انھیں متعلقہ افسر سے لینا چاہیے تھا اور شاید لیا بھی ہو مگر اس طرح اختر حسین جعفری مرحوم کی انعام کے قابل کتاب کو مقابلے سے باہر رکھا گیا، جس کا قلق مجھے آج بھی ہوتا ہے “۔
——
یہ بھی پڑھیں : شیر افضل جعفری کا یوم پیدائش
——
اس مختصر سی تحریر میں بہت سی اہم باتیں یکجاکردی گئی ہیں ۔اہم بات یہ ہےکہ اخترحسین جعفری کو ان کی کتاب آئینہ خانہ پر تمغہ ءحسن کارکردگی ان کی زندگی ہی میں مل جاتا،اگر بیوروکریسی یا سرخ فیتے کانظام آڑے نہ آتا۔ خالداقبال یاسر صاحب نے اپنی تجویز کووہاں تک پہنچادیا تھا ، جہاں پہنچانا ضروری تھا لیکن ایک بدذوق افسر کی افسری جاگ گئی۔ وہ رکاوٹ بن گئے ۔اصل میں قصور اِس افسر کانہیں ،بلکہ اُس افسر کاہے ،جس نے اِس افسر کی تقرری کی تھی۔کسی باذوق افسر کی تقرری ہوتی تو وہ ایک عظیم المرتبت شاعرکو صدارتی ایوارڈ ملنے کی راہ میں کبھی دیوار نہ بنتا ۔اور اختر حسین جعفری کی فیملی کو جو خوشی ان کےوصال کے دس سال بعد ملی ، وہ ان کی زندگی ہی میں مل جاتی۔ صدارتی تمغہ حسن کارکردگی کاملنا بلاشبہ ایک بڑا اعزازہے۔ یہ اور بات کہ یہ ایوارڈ ایسی ایسی شخصیات کو بھی ملے،جن کی خدمات نہ ہونے کے برابر تھیں ،اسی لئے اس ایوارڈ کی توقیر کاتحفظ نہیں کیا جاسکا۔اور بہت سی ایسی قدآّور شخصیات کو یہ ایوارڈ آج تک نہیں مل سکا، جنہیں یہ ایوارڈ مل جاتا تو اس ایوارڈ کی توقیر میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا۔اختر حسین جعفری بلاشبہ ایسی شخصیت تھے،جنہیں یہ ایوارڈ ملنے سے اس اعزاز کی عزت اور توقیر بڑھی ہے ۔کاش ، یہ عمل جاری رہتا۔لیکن ایسا ہے نہیں ۔ ہمارے قومی ترانے کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری کو پاکستان میں سب سے پہلا صدارتی ایوارڈ ملا ۔جاسم الدین،صوفی غلام مصطفیٰ تبسم،شاہداحمد دہلوی،عاشق حسین بٹالوی،مسعود اشعر،مسعود مفتی ،صہبااختر، جمیل الدین عالی،پروین شاکر ،اشفاق احمد،فہمیدہ ریاض،احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیرآغا، ڈاکٹر انورسدید،ابن انشابلاشبہ ایسی ادبی شخصیات ہیں ،جنہیں تمغہء حسن کارکردگی دینے سے اس صدارتی ایوارڈ کی اہمیت،اور وقعت کوچار چاند لگے ہیں ۔اس فہرست میں اور بہت سی شخصیات کےنام بھی لئے جاسکتے ہیں ،جنہیں ان کی زندگی میں یا بعد ازوفات یہ ایوارڈ ملا اور وہ بجاطور پر اس اعزاز و اکرام کےسزاوار تھے ۔میں ان شخصیات کانام نہیں لوں گا،جنہیں یہ ایوارڈ ملا تو ادبی حلقوں میں اشارتاً اور کنایتاً ہی نہیں بلکہ کھل کر شدید رد عمل سامنے آیا۔انصاف تو وہ ہوتاہے جو نظربھی آئے۔لیکن صدارتی ایوارڈ کی تقسیم کے بہت سے مواقع پر ایسا نہیں ہوا۔ جہاں جہاں اندھے نے ریوڑیاں بانٹیں اور اپنوں اپنوں کودی ہیں اور کسی میرٹ پر نہیں دیں، ان سب کے چہرے آپ کی آنکھوں کے سامنے یقیناً آگئے ہوں گے ۔ اختر حسین جعفری ایک ایسے بلندپایہ شاعر تھے،جن کی عظمت کسی ایوارڈ کی مستحق نہیں تھی۔ ان کے تینوں شعری مجموعے آئینہ خانہ ، جہاں دریا اترتاہے اور کلیات آخری اجالا میں شامل کلام انہیں زندہ رکھنے کیلئے بہت کافی ہے۔جو شاعری اہل ِادب کی زبانوں پر رہے ، مضامین میں جس کے حوالے دئیے جائیں ۔خطیب اپنے خطاب میں زور پیدا کرنے کیلئے اس کاجابجااستعمال کریں ،ادیب اپنی نثر میں جس شعرو شاعری سے جان ڈال دیں ،وہ کبھی نہیں مرسکتی اور بلاشبہ اخترحسین جعفری کی شاعری بھی لازوال ہے ، جب تک اردو زبان زندہ ہے ،اخترحسین جعفری کاکلام زندہ رہے گا ۔لیکن میرا نہیں نام کی تحریف کے ساتھ اشفاق احمد کی تحریر کا اقتباس ہے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : سید محمد جعفری کا یوم پیدائش
——
انہوں نےجدید لہجے کے جواں مرگ شاعر آنس معین کی موت پر اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ جب تک شعر سلامت اور الفاظ زندہ ہیں ، دنیائے ادب میں آنس معین زندہ رہےگا۔ یہ ایک جملہء معترضہ تھا، بات ہورہی ہے اخترحسین جعفری کی جدید شاعری اور دلوں کے تار چھیڑ دینے والی نظموں کی۔ایک نظم مجھے یاد آگئی ہے جو اخترحسین جعفری نے ایذرپاءونڈ کی موت پر لکھی تھی اورمحترم احمد ندیم قاسمی نے 1973 میں فنون کے اپریل مئی کےشمارے میں شائع کی تھی ۔یہ نظم آپ بھی پڑھئے ۔
ایذرپاؤنڈ کی موت پراختر حسین جعفری کی نظم
——
توجدا ایسے موسموں میں ہوا
جب درختوں کے ہاتھ خالی ہیں
انتظار بہار بھی کرتے
دامنِ چاک سے اگر اپنے کوئی پیمان پھول کا ہوتا
آ تجھے تیرے سبز لفظوں میں
دفن کر دیں کہ تیرے فن جیسی
دہر میں کوئی نو بہار نہیں
——
اختر حسین جعفری بھی ہم سے ایسے ہی موسموں میں جداہوئے تھے ۔اسی لئے عطاء الحق قاسمی صاحب نے اسی نظم کو اپنے کالم کی بنیادبنایا تھا اور دنیا کو بتایا تھا کہ تو جدا ایسے موسموں میں ہوا، جب درختوں کے ہاتھ خالی ہیں ۔ لکھنے بیٹھا ہوں تو یادوں کے دریچے کھل گئے ہیں ۔ اُس دن انتظار تھا قافلے کے پڑاءو میں احمد ندیم قاسمی اور اختر حسین جعفری کا۔ دونوں نے وقت پر پہنچنے کاوعدہ کررکھا تھا۔لیکن یہ نہیں آئے۔فون پر رابطے کی کوشش بھی ناکام رہی۔ میرے والدبزرگوار سید فخرالدین بلے نے حکم دیا کہ خیریت دریافت کرو ،پہلے کبھی ایسا نہیں ہواکہ یہ لوگ کہہ کر نہ آئے ہوں ۔میں ابھی نکلنے کی تیاری کررہاتھاکہ ان دونوں کو ایک گاڑی سے اترتا دیکھ لیا۔وہ قافلے کےپڑاءو میں ارباب ِ ادب کاہجوم دیکھ کر جی اٹھے۔پہلے تاخیر سے آنے پر معذرت کی ۔ اخترحسین جعفری نےاپنے مخصوص انداز میں یہ مصرعہ پڑھا
ہوئی تاخیر تو کچھ باعث ِ تاخیر بھی تھا
ادبی موضوعات پر گفتگو تو ہو ہی رہی تھی ۔ ان دونوں اہم شخصیات کے آنے سے رنگ ہی بدل گیا ۔احمد ندیم قاسمی صاحب نےشرکائے قافلہ کی فرمائش پر اپنا تازہ کلام اور ایک پرانی نظم سناکرخوب داد سمیٹی ۔ اختر حسین جعفری صاحب نے بڑے دھمیے انداز میں گفتگو کاآغاز کیا اور کہااس محفل میں آکر جومحبت اور اپنائیت ملتی ہے ،اس پر میں ۔بلےبھئی بلے۔ کےسوا کچھ نہیں کہہ سکتا۔دراصل سید فخرالدین بلے مجھ سے عمر میں بھی بڑے اور اورہراعتبارسے ایک بڑے آدمی ہیں ۔میں 1932میں پیدا ہواتھا اور ان کی ولادت 1930کی ہے ۔اسی لئے میں انہیں بلے بھائی ہی کہہ کرمخاطب کرتاہوں ۔اور بہت سے باتیں کرکے انہوں نے علم وعرفان کے دیپ روشن کئے اور پھر قافلے کے شرکاء کی فرمائش پر اپنی کئی نظمیں سنائیں ۔آپ یقین جانئے کہ اہل ِ ادب کاانگ انگ داد دیتا نظر آیا۔ آپ بھی پڑھئے اور سردھنئے ۔ایک نظم کاعنوان تھا ۔ آئینہ روشن خط زنگارسے۔تراکیب دیکھئے ۔چاند کے سائے میں لو دیتا بدن ،ٹمٹماتے ہونٹ ،میٹھی روشنی ۔یہ انفرادیت اخترحسین جعفری ہی کاخاصا ہے۔
——
آئینہ روشن خط زنگارسے
چاند کے سائے میں لو دیتا بدن
ٹمٹماتے ہونٹ میٹھی روشنی
گھولنا پیالوں میں امرت گھولنا
کھولنا الزام سارے کھولنا، جو بدن ملتے سمے کھلتے نہیں
شمع جلنے
دوستی پر سچ اترنے کی گھڑی آنے کو ہے
دل میں جتنا کھوٹ تھا، سب پڑھ لیا اس آنکھ نے
آنکھ نے اپنی قسم توڑی نہیں
دستخط میرے بھی ہوتے اختتام سطر پر
اس نے کاغذ پر جگہ چھوڑی نہیں
آئنہ روشن خط زنگار سے
درد رسوا سے رہائی کی سزا تھوڑی نہیں
——
یہ بھی پڑھیں : شیر افضل جعفری کا یوم وفات
——
اب اختر حسین جعفری کی دوسری نظم سنئے جوانہوں نے قافلے کےاسی پڑاءو میں پیش کرکےخوب داد ِسخن سمیٹی ۔عنوان ہے ریت صحرا نہیں ، ریت دریا نہیں۔
——
ریت صحرا نہیں، ریت دریا نہیں
ریت بس ریت ہے
میں فقط میں ہوں اور میری تصویر پر
جو ہے مذکور پہچان میری نہیں
مجھ میں کتنا ازل مجھ میں کتنا ابد، کتنی تاریخ ہے میں نہیں جانتا
ایسے دن رات کو دل نہیں مانتا، پور پر جن کی گنتی ٹھہرتی نہیں
آج بس آج ہے
کل سحر تک یہی آج تاراج ہے ۔
——
اس شاہکار نظم کو پڑھنے سے اس میں موجود معانی کی تہیں کھلتی چلی جاتی ہیں ۔اختر حسین جعفری کی بہت سی یادیں اس ادبی تنظیم قافلے کی بیٹھکوں سے جڑی ہوئی ہیں ،یہ ایک ایسی ادبی تنظیم تھی میرے والد نے بنائی تھی اور اس ادبی قافلے کے پڑاءو میرے والد بزرگوار سید فخرالدین بلےاپنے گھر میں سجاتے تھے۔ بڑے بڑے ادیب ، شاعر، دانشوراوراسکالرزآتے اورعلم و عرفان کے دریابہاکر چلے جاتے۔وقتی طور پر سب سیراب ہوجاتےاور پھر قافلے کے نئے پڑاءو کی تیاری شروع ہوجاتی ۔میں ان یادوں کو داستان رفاقت کے عنوان کے تحت یکجا کررہاہوں ،کچھ جھلکیاں آپ اس عالمی اخبار میں بھی دیکھ چکےہیں اور کچھ جھلکیاں آپ آئندہ دیکھ پائیں گے۔مضمون ختم ہورہاہے لیکن مجھے ایک بات یاد آگئی اور وہ یہ کہ ادبی تنظیم قافلے کے ایک پڑاءو میں اختر حسین جعفری کے بیٹوں کے ادبی اور فنی سفر پر بات کرتے ہوئے احمدندیم قاسمی نے کہا تھا امیرحسین جعفری اور منظر حسین اختر کی ادبی اٹھان بتارہی ہے کہ ان دونوں نے اپنا شعری سفر زورشور اور محنت کے ساتھ جاری رکھا تو یہ بھی اپنے باپ کی طرح ادبی دنیامیں بڑا نام پیداکریں گے۔ قافلے کےپڑاءو،دس سال تک محترمہ صدیقہ بیگم کے مجلے ادب ِ لطیف کی ادارت کے فرائض انجام دینےاور لاہور شہر کی ادبی محفلوں اور تقریبات میں شرکت کےباعث میری یادوں کا یہ سرمایہ بڑا وقیع ہے اور انشاء اللہ میں اسے آپ سے شئیر کرتا رہوں گا۔
——
منتخب کلام
——
دل جہاں بات کرے دل ہی جہاں بات سنے
کار دشوار ہے اس طرز میں کہنا اچھا
——
تپش گلزار تک پہنچی لہو دیوار تک آیا
چراغ خود کلامی کا دھواں بازار تک آیا
——
شاخ تنہائی سے پھر نکلی بہار فصل ذات
اپنی صورت پر ہوئے ہم پھر بحال اس کے لیے
——
چپک گیا ہے ۔۔ جلی انگلیوں کی پوروں سے
بجھے چراغ میں جیسے شرر تھا خوابیدہ
——
نہ فکر سدرہ نشین میری، نہ رفعتِ آسمان میری
نہالِ غم پر مرا بسیرا، ہرے شجر تک اڑان میری
——
بتائے کون کہ صفحہ خالی پر
بغیر حرف بھی نقطہ وجود رکھتا ہے
——
اب نہیں ھوتیں دعائیں مستجاب
اب کسی ابجد سے زنداں ستم کھلتے نہیں
——
ہجر اک حسن ہے اس حسن میں رہنا اچھا
چشم بے خواب کو خوں ناب کا گہنا اچھا
کوئی تشبیہ کا خورشید نہ تلمیح کا چاند
سر قرطاس لگا حرف برہنہ اچھا
پار اترنے میں بھی اک صورت غرقابی ہے
کشتئ خواب رہ موج پہ بہنا اچھا
یوں نشیمن نہیں ہر روز اٹھائے جاتے
اسی گلشن میں اسی ڈال پہ رہنا اچھا
بے دلی شرط وفا ٹھہری ہے معیار تو دیکھ
میں برا اور مرا رنج نہ سہنا اچھا
دھوپ اس حسن کی یک لحظہ میسر تو ہوئی
پھر نہ تا عمر لگا سائے میں رہنا اچھا
دل جہاں بات کرے دل ہی جہاں بات سنے
کار دشوار ہے اس طرز میں کہنا اچھا
——
تپش گلزار تک پہنچی لہو دیوار تک آیا
چراغ خود کلامی کا دھواں بازار تک آیا
ہوا کاغذ مصور ایک پیغام زبانی سے
سخن تصویر تک پہنچا ہنر پرکار تک آیا
عبث تاریک رستے کو تہ خورشید جاں رکھا
یہی تار نفس آزار سے پیکار تک آیا
محبت کا بھنور اپنا شکایت کی جہت اپنی
وہ محور دوسرا تھا جو مرے پندار تک آیا
عجب چہرہ سفر کا تھا ہوس کے زرد پانی میں
قدم دلدل سے نکلا تو خط رفتار تک آیا
پھر اس کے بعد طبنور و علم نا معتبر ٹھہرے
کوئی قاصد نہ اس شام شکست آثار تک آیا
——
سب خیال اس کے لیے ہیں سب سوال اس کے لیے
رکھ دیا ہم نے حساب ماہ و سال اس کے لیے
اس کی خوشبو کے تعاقب میں نکلا آیا چمن
جھک گئی سوئے زمیں لمحے کی ڈال اس کے لیے
سرو تا خاک گیہ اپنی وفا کا سلسلہ
سر کشیدہ اس کی خاطر پائمال اس کے لیے
کیا مکاں خوردہ خلائق میں چلے اس کا خیال
تنگ ہائے شہر کچھ رستہ نکال اس کے لیے
شاخ تنہائی سے پھر نکلی بہار فصل ذات
اپنی صورت پر ہوئے ہم پھر بحال اس کے لیے
وصل کے بدلے میں کیا داغ ستارہ مانگنا
اس شب بے خانماں سے کر سوال اس کے لیے
——
سدھائے ہوئے پرندے
——
سوال بچے نے جو کیے تھے
جواب ان کا دبی زباں سے وہی دیا ہے جو مجھ کو اجداد سے ملا تھا
وہی پرانے سوال اس کے
زمیں اگر خام ہے تو اس پر ہمارے پختہ مکان کیوں ہیں؟
اگر گلابوں کو رنگ خورشید سے ملا ہے
تو دھوپ کا حسن کون سے پھول کی عطا ہے؟
وہی پرانے سوال اس کے
وہی پرانا جواب میرا
وہی گرہ وارد چمن کی صدائے پرواز پر لگا دی ہے
جس کا حلقہ مری زباں پر پڑا ہوا ہے
مجھے یقیں ہے کہ یہ نیا ہم صفیر میرا
مری طرح سے زمیں کے شیشے کی شش جہت سے نہ آگے پرواز کر سکے گا
وہ ایک میٹھی صدا کی ندی
جو رات دن کی جلی زمینوں سے دور سر سبز جنگلوں میں رواں ہے نغمے
کوئی سدھایا ہوا پرندہ نہ اس کے سربستہ ساحلوں پر اتر سکے گا
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ