اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعر اختر سعید خان کا یومِ وفات ہے ۔

اختر سعید خان(پیدائش: 12 اکتوبر 1923ء – وفات: 10 ستمبر 2006ء)
——
اختر سعید خان 12 اکتوبر 1923 کو بھوپال میں پیدا ہوئے۔ نسلا وہ افغانی ہیں۔ ان کے دادا احمد سعید خان ریاست بھوپال کے جاگیر داروں میں شامل تھے اور شاعروں و ادیبوں کے قدردان تھے۔ گھر کے اس علمی اور ادبی ماحول نے اختر کو بھی شاعری کی طرف مائل کردیا اور بہت چھوٹی عمر میں شاعری شروع کردی۔
ابتدائی تعلیم مڈل اسکول رائسین ریاست بھوپال میں حاصل کی۔ 1940 میں پنجاب یونیورسٹی سے میٹرک پاس کیا اور دیال سنگھ کالج لاہور سے 1944 میں بی اے کیا۔1946 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ اختر سعید کی شاعری روایتی انداز اور ترقی پسند فکر کے امتزاج کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ اختر سعید نے نظمیں بھی کہیں مگر نظم گوئی سے انہیں تخلیقی آسودگی نہیں ملی اس لئے انہوں نے صرف غزل کو اپنے تخلیقی اظہار کا ذریعہ بنایا۔ 1976 میں کل ہند انجمن ترقی پسند مصنفین کے سکریٹری بھی رہے۔ ’نگاہ‘ ’طرز دوام‘ ’سوچ کے نام سفر‘ ان کے شعری مجموعے ہیں۔
——
اختر سعید خان کی غزل گوئی از فیروزہ یاسمین
——
اختر سعید خان ایک ایسے غزل گو فنکار ہیں جنہوں نے غزل کو حسن و خوبصورتی ، آب و رنگ دینے کے ساتھ ساتھ ایک نیا زندہ رہنے والا رحجان عطا کیا ہے ۔
آپ نے غزل کے پرانے روایتی انداز سے کنارہ کشی کر کے غزل میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا کی ہے ۔ جو غزل کل موردِ الزام تھی آج وہ دماغ کی روشنی ، دل کا سرور ، آنکھوں کی ٹھنڈک ، زندگی کا عزم اور کامیابی کی منزل بن گئی ہے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : سعید احمد اختر کا یومِ پیدائش
——
یوں تو ہر دور میں غزل گو شعرا جنم لیتے رہے ہیں اور غزلیں ہمیشہ ذوق و شوق سے پڑھی جاتی رہی ہیں لیکن صرف وہ ادب زندہ رہتا ہے جو وقت کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ محض تفریحِ طبع کا ذریعہ نہ بنے بلکہ زندگی کی راہوں کو ہموار کرنے کا سلیقہ رکھتا ہو ۔
اختر سعید خان کی غزل میں یہ تمام خوبیاں حقیقتوں کے ساتھ اچھوتے پن سے ایک نیا انداز اور بیکراں حسن لیے نمودار ہوتی ہیں کیونکہ اختر سعید خان عوام دوستی و انسانی ہمدردی کے کاموں میں نمایاں حصہ لیتے رہے ہیں ۔
1947 ء میں جب ہندوستان آزاد ہو گیا لیکن ریاستی دور ابھی باقی تھا ۔ جمہوریت پوری طور پر ابھی نہیں آئی تھی ۔ بھوپال ریاست میں ابھی بھی نوابوں اور جاگیرداروں کا دور دورہ تھا ۔ غریب عوام مظالم کا شکار تھے اور ان کے حقوق کچلے جا رہے تھے ۔ آزادی کا اجالا شعرا نے داغدار محسوس کیا ۔
ان حالات میں بیشتر شعرا نے بڑے جذباتی انداز میں عوام کو جگایا ۔ سیاسی و سماجی اور اقتصادی ناانصافی کے خلاف آوازیں اٹھائیں ۔
نظم کے علاوہ غزل میں بھی موضوعات کو بہت وسعت حاصل ہوئی ۔ اختر سعید خان بھی خاموش نہ رہ سکے :
——
سحر ہوئی تو ماحصل یہ تھا شبِ امید کا
جو اعتبار تھا گیا جو انتظار تھا گیا
——
اختر سعید خان نے غزل کے ذریعے وہ عزم اور حوصلہ بخشا اور وہ راستہ دکھایا جو ایک صحیح راہِ عمل تھی ۔ اگرچہ اس سفر میں اختر سعید خان اکیلے نہیں تھے ان کے ساتھ ان کے ہم عصر و ہم خیال شاعر بھی تھے لیکن ان کا انداز دوسروں سے جداگانہ تھا :
——
ہر خواب اعتبارِ شکستہ سے چُور ہے
دل میں مگر غرورِ تمنا عجیب ہے
——
1949 ء میں اختر سعید خان نے پھر عوام کے ذہنوں کو مزید بیدار کرتے ہوئے کہا :
——
خزاں کو موسمِ گل کہہ رہے ہیں دیوانے
حقیقتوں کو چھپانے چلے ہیں افسانے
یہ کیا چمن ہے کہ اک پھول پر بہار نہیں
یہ کیا اِرم ہے کہ ہنستے ہیں جس پہ ویرانے
——
سیاسی حقیقتوں کو اس قدر شاعرانہ انداز میں غزل کے اشعار میں کہنا اور اس انداز سے کہ غزل کا مزاج کہیں مجروح نہیں ہوتا ، اختر سعید خان کی غزل گوئی کا وصفِ امتیازی ہے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : پروفیسر خالد سعید کا یومِ وفات
——
ہاں اہلِ چمن مایوس نہ ہوں ہم رازِ چمن سے واقف ہیں
جو شامِ خزاں پر ٹوٹ پڑا وہ صبحِ بہاراں پا ہی گیا
ہر شاخ پہ کانٹے تھے نگراں ہر موڑ پہ گُلچیں تھے لیکن
کلیوں نے چٹکنا سیکھ لیا پھولوں کو مہکنا آ ہی گیا
——
آپ کی غزل ایک ایسا حسین پیکر ہے جس میں الفاظ کے ستارے جگمگا رہے ہیں ۔ جس میں ظاہری و باطنی دونوں خوبصورتیاں موجود ہیں ۔
معنی آفرینی کی گہرائی و گیرائی میں وہ بات پیدا کر دیتے ہیں جو شعر کو زندہ جاوید بنا دیتی ہے ۔ آپ کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ دل میں آرزوئیں پیدا ہوتی رہتی ہیں اور آرزو ہی انسان کو زندہ رہنے کا سلیقہ سکھاتی اور حوصلہ دیتی ہے :
——
اب بھی رہ رہ کے جو اکساتی ہے جینے کے لیے
کون سی وہ آرزو ہے دل میں ڈھونڈ تو سہی
——
جگا لوں کیوں نہ صبحِ آرزو کو
یہی تو شامِ غم کا آسرا ہے
——
منتخب کلام
——
جب وہ گھر چُھوٹ گیا قید رہی کس گھر کی
اب جہاں چاہے مجھے گردشِ دوراں لے جائے
——
ادھر سے بھی گزر جا اے بہار زندگی اک دن
دیارِ ہند میں آباد ویرانے ہزاروں ہیں
——
گل بداماں موسموں کو کچھ ہمیں سے لاگ ہے
جب ہوا سنکی چمن میں زخم دل کا چھل گیا
——
اب نہ اپنی ہے نہ کچھ ان کی خبر کیا کہنا
زندگی تیری یہ دزدیدہ نظر کیا کہنا
——
ہم تو ویرانے میں کچھ نقشِ جنوں چھوڑ چلے
اب ہمیں اہلِ جنوں یاد کریں یا نہ کریں
——
چمن میں نکہتِ برباد کی رُوداد بس یہ ہے
چمن میں فصلِ گل آئی تھی دیوانے نہیں آئے
——
حشر پر موقوف ہے پھر کس لیے ہر فیصلہ
تو زمیں کا بھی خدا ہے آسمانوں کے خدا
——
یہ بھی پڑھیں : تاج سعید کا یوم پیدائش
——
چھپا ہے رازِ محبت کہیں چھپائے سے
مری زباں پہ ہے اور آپ کی نگاہوں میں
——
یہ دل بھی عجب دل ہے آباد بھی ویراں بھی
دیکھو تو گلستاں ہے سمجھو تو بیاباں ہے
——
تمہیں جب دیکھ لیتا ہوں تو پیہم یاد آتی ہے
وہ دنیا جو مرے خوابوں میں آ کر مسکراتی ہے
——
یقین ہے نہ گماں ہے ذرا سنبھل کے چلو
عجیب رنگ جہاں ہے ذرا سنبھل کے چلو
سلگتے خوابوں کی بستی ہے رہ گزار حیات
یہاں دھواں ہی دھواں ہے ذرا سنبھل کے چلو
روش روش ہے گزر گاہ نکہت برباد
کلی کلی نگراں ہے ذرا سنبھل کے چلو
جو زخم دے کے گئی ہے ابھی نسیم سحر
سکوت گل سے عیاں ہے ذرا سنبھل کے چلو
خرام ناز مبارک تمہیں مگر یہ دل
متاع شیشہ گراں ہے ذرا سنبھل کے چلو
سراغ‌ حشر نہ پا جائیں دیکھنے والے
ہجوم دیدہ وراں ہے ذرا سنبھل کے چلو
یہاں زمین بھی قدموں کے ساتھ چلتی ہے
یہ عالم گزراں ہے ذرا سنبھل کے چلو
——
موج شمیم ہیں نہ خرام صبا ہیں ہم
ٹھہری ہوئی گلوں کے لبوں پر دعا ہیں ہم
بیگانہ خلق سے ہیں نہ تجھ سے خفا ہیں ہم
اے زندگی معاف کہ دیر آشنا ہیں ہم
اس راز کو بھی فاش کر اے چشم دل نواز
کانٹا کھٹک رہا ہے یہ دل میں کہ کیا ہیں ہم
یا رب ترا کمال ہنر ہم پہ ختم ہے
یا صرف مشق ناز کا اک تجربہ ہیں ہم
آخر ترے سلوک نے جھٹلا دیا اسے
اک زعم تھا ہمیں کہ سراپا وفا ہیں ہم
کل اس زمیں پہ اتریں گے پھولوں کے قافلے
اک پیکر بہار کی آواز پا ہیں ہم
——
عشق کے ٹوٹے ہوئے رشتوں کا ماتم کیا کریں
زندگی آ تجھ سے پھر اک بار سمجھوتا کریں
زندگی کب تک ترے درماندگان آرزو
خواب دیکھیں اور تعبیروں کو شرمندہ کریں
مڑ کے دیکھا اور پتھر کے ہوئے اس شہر میں
خود صدا بن جاؤ آوازیں اگر پیچھا کریں
ناامیدانہ بھی جینے کا سلیقہ ہے ہمیں
آئنے ٹوٹے ہوئے دل میں سجا کر کیا کریں
چند ذرے دل کے رقصاں ہیں فضاؤں میں ابھی
لاؤ ان ذروں میں حشر آرزو برپا کریں
خوں چکاں آنکھوں سے اپنی خوش نہیں ہم بھی مگر
چاک دامن ہو تو سی لیں چاک دل کو کیا کریں
بجھ گئے ایک ایک کر کے سب عقیدوں کے چراغ
اے زمانے کی ہوا اب یہ بتا ہم کیا کریں
عافیت دشمن تھا دل نا عاقبت اندیش ہم
اب کسے الزام دیں اخترؔ کسے رسوا کریں
——
حوالہ جات
——
اقتباسات : فیروزہ یاسمین از شخصیت اور فن : اختر سعید خان
شائع شدہ : 2005 ، صفحہ نمبر 62 تا 87
شعری انتخاب از نگاہ ، مصنف : اکختر سعید خان ، 1985 ء
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ