
امجد اسلام امجد ۔ تخلیقی توانائیوں سے مالا مال اور عجز و انکساری کا پیکر
——
امجد اسلام امجد صاحب محبت اور خلوص کا پیکر تھے۔ امجد اسلام امجد اور سید فخرالدین بلے فیملی کی رفاقت دو چار برس نہیں بلکہ نصف صدی پر محیط ہے۔ ادبی قافلہ کے بہت سے پڑاؤ میں امجد اسلام امجد نے بھرپور انداز میں اور میزبان کی حیثیت سے شرکت فرمائی ، اپنی تخلیقات بھی پیش کیں اور آواز جرس کے لیے برائے اشاعت بخوشی عطا بھی فرمائیں۔ قافلہ پڑاؤ میں شرکت کے لیے متعدد بار عطاء الحق قاسمی اور برادر محترم خالد احمد کے ہمراہ تشریف لائے اور ایسا بھی ہوا کہ شہزاد احمد ان کو اپنے ساتھ لائے۔ دو ایک مرتبہ تو حسن رضوی صاحب قافلہ پڑاؤ کے اختتام پر امجد اسلام امجد کو اپنے ہمراہ اپنی رہائش گاہ لے گئے۔ محسن نقوی کی شہادت کے وہ برادرم ڈاکٹر اجمل نیازی اور برادرم خالد احمد کے ہمراہ والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے پاس تعزیت کے لیے بھی بطور خاص تشریف لائے تھے۔ کالم نگاری ، غزل گوئی ، نظم نگاری ، ڈرامہ نویسی ، ماہر تعلیم ، تنقیدی و تحقیق کے ساتھ ساتھ وسیع حلقۂ یاراں لیکن بنیادی طور پر ذریعۂ معاش درس و تدریس رہا۔
——
یہ بھی پڑھیں : محسن نقوی اور سید فخرالدین بلے فیملی ، داستانِ رفاقت
——
جوائنگ سے ریٹائرمینٹ تک امجد بھائی ہمیشہ اپنی کلاس میں اپنی موجودگی کو دس منٹ پیشتر یقینی بناتے تھے کبھی کلاس میں دو منٹ کی بھی تاخیر سے نہیں پہنچے۔ فرائض منصبی کی ادائیگی کے حوالے سے ان کی مثالیں پیش کی جاتی تھیں۔ ان کے تمام ڈرامے مقبول اور کامیاب ٹھہرے۔
وارث، دہلیز، سمندر، وقت، فشار، رات، دن اور ایندھن جیسے شاہکار ڈراموں کے مصنف تھے۔ ان کا شاہکار بلکہ لازوال شاہکار ڈرامہ وارث آج بھی اپنی مثال آپ مانا جاتا ہے۔ ان کی خوبصورت اور ہر دلعزیز شخصیت ، ان کے کام ، اور مقام کو ہمیشہ قابل رشک نظروں سے دیکھا گیا ہے۔ ہم نے امجد اسلام امجد کو ہمیشہ ہمارے بڑوں اور سینٹرز کا احترام کرتے دیکھا۔ امجد اسلام امجد اور عطا الحق قاسمی کے دوستانے اور یارانے کی دنیا مثالیں دیا کرتی تھی۔
امجد اسلام امجد کو ان کی زندگی میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر سو سے زائد ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا گیا
نوجوانوں میں ان کی متعدد نظمیں بے حد مقبول ہوئیں۔ انہی میں سے ایک یہ بھی ہے۔
——
زندگی کے میلے میں خواہشوں کے ریلے میں
تم سے کیا کہیں جاناں اس قدر جھمیلے میں
وقت کی روانی ہے بخت کی گرانی ہے
سخت بے زمینی ہے سخت لا مکانی ہے
ہجر کے سمندر میں
تخت اور تختے کی ایک ہی کہانی ہے
تم کو جو سنانی ہے
بات گو ذرا سی ہے
بات عمر بھر کی ہے
عمر بھر کی باتیں کب دو گھڑی میں ہوتی ہیں
درد کے سمندر میں
ان گنت جزیرے ہیں بے شمار موتی ہیں
آنکھ کے دریچے میں تم نے جو سجایا تھا
بات اس دئے کی ہے
بات اس گلے کی ہے
جو لہو کی خلوت میں چور بن کے آتا ہے
لفظ کی فصیلوں پر ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے
زندگی سے لمبی ہے بات رت جگے کی ہے
راستے میں کیسے ہو
بات تخلیئے کی ہے
تخلیئے کی باتوں میں گفتگو اضافی ہے
پیار کرنے والوں کو اک نگاہ کافی ہے
ہو سکے تو سن جاؤ ایک روز اکیلے میں
تم سے کیا کہیں جاناں اس قدر جھمیلے ہیں
امجد اسلام امجد کی یہ نظم بھی ان سے اکثر فرمائش کرکے سنی جاتی تھی
نظم : مجھے اپنا ستارا ڈھونڈنا ہے
——
یہ بھی پڑھیں : مجید امجد کا یوم پیدائش
——
ستاروں سے بھرے اس آسماں کی وسعتوں میں
مجھے اپنا ستارا ڈھونڈنا ہے
فلک پر کہکشاں در کہکشاں اک بے کرانی ہے
نہ اس کا نام ہے معلوم، نہ کوئی نشانی ہے
بس اتنا یاد ہے مجھ کو
ازل کی صبح جب سارے ستارے
الوداعی گفتگو کرتے ہوئے رستوں پہ نکلے تھے
تو اس کی آنکھ میں اک اور تارا جھلملایا تھا
اسی تارے کی صورت کا
مری بھیگی ہوئی آنکھوں میں بھی اک خواب رہتا ہے
میں اپنے آنسوؤں میں اپنے خوابوں کو سجاتا ہوں
اور اس کی راہ تکتا ہوں
سنا ہے گمشدہ چیزیں
جہاں پہ کھوئی جاتی ہیں
وہیں سے مل بھی جاتی ہیں
مجھے اپنا ستارا ڈھونڈنا ہے!
——
امجد اسلام امجد اور سید فخرالدین بلے قافلہ کے پڑاؤ کے اختتام پر امجد اسلام امجد پیش کردہ کلام قافلہ کے ریکارڈ کےلیے تحریر فرمارہے ہیں
