آج معروف شاعر ڈاکٹر عندلیب شادانی کا یوم وفات ہے ۔

(پیدائش: 1 مارچ، 1904ء- وفات: 29 جولائی، 1969ء)
——
عندلیب شادانی نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کرنے کے بعد مدرسہ عالیہ رام پور میں داخلہ لیا تھا۔ یہیں سے منشی عالم اور منشی فاضل کے امتحانات پاس کیے۔ پھر پرائیویٹ طور پر 1921ء میں بی۔ اے پاس کیا۔ بعد میں وہ لاہور چلے گئے اور وہاں ایک کالج سے وابستہ ہو گئے۔ 1928ء میں فارسی کے لکچرر کے طور پر ان کا تقرر ڈھاکہ یونیورسٹی میں ہوا ۔1931ء میں وظیفے کے تحت لندن جا کر پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ بعد میں وہ پھر ڈھاکہ یونیورسٹی میں اردو اور فارسی شعبے کے صدر بنے اور وہیں سے 1965ء میں سبکدوش ہوئے ۔
عندلیب شادانی کا شعری مجموعہ پہلی بار 1951ء میں لاہور سے ’ نشاط رفتہ ‘ کے نام سے شائع ہوا تھا ۔
۔ ان کا مجموعہ کلام نشاط رفتہ اردو کے اہم شعری مجموعوں میں شمار ہوتا ہے۔ ان کی دیگر تصانیف میں نقش بدیع‘ تحقیق کی روشنی میں‘ نوش و نیش‘ سچی کہانیاں‘ شرح رباعیات‘ بابا طاہر اور دور حاضر اور اردو غزل گوئی کے نام شامل ہیں، حکومت پاکستان نے ڈاکٹر عندلیب شادانی کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔
عندلیب شادانی کا انتقال 29 جولائی 1969ء کو ڈھاکہ ( اس وقت مشرقی پاکستان ) میں ہوا تھا
——
یہ بھی پڑھیں :ریاض خیر آبادی کی برسی
——
بنگلہ دیش کے قومی دائرۃ المعارف بنگلہ پیڈیا نے اس بات کے لیے عندلیب شادانی کو سراہا ہے کہ انہوں نے رابندر ناتھ ٹیگور کی صد سالہ تقاریب میں حصہ لیا جو 1961ء میں منعقد ہوئے تھے۔ انہیں 1969ء میں ترقی کی روشنی کی وجہ سے دوڑ ایوارڈ دیا گیا۔ ان کی کل 12 کتابیں شائع ہوئی ہیں، جن میں بول چال کی فارسی لغت نقشِ بادی کے علاوہ چہار مقالہ، رباعیات بابا طاہر، پیام اقبال، تحقیق کی روشنی جیسے تنقیدی کام شامل تھے۔ انہوں نے سچی کہانیوں کے عنوان سے افسانوں کا مجموعہ لکھا۔ ان کا مجموعہ کلام رُبع شکست تھا۔انہوں نے ایک ڈراما چھوٹا خدا میں لکھا تھا۔ اس کے علاوہ خبر نامی رسالے کی انہوں نے ادارت کی تھی۔
——
ڈاکٹر عندلیب شادانی از انوار احمد
——
پتا نہیں کیوں دسمبر میں رفتگاں کی یاد آتی ہے،افراد بھی،شہر بھی اور وہ احساسِ رفاقت بھی جو،منقسم ہوگیا۔ اُردو ادب کے تحقیقی اور تنقیدی سرمائے میں عندلیب شادانیؔ کی ادبی خدمات کو کسی طور پر بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ شادانیؔ نے قصے کہانیاں بھی لکھے ، ڈرامے اور افسانے بھی ، تحقیق وتنقید کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی لیکن تمام اصنافِ ادب میں ان کی شاعری نمایاں اہمیت کی حامل رہی ہے۔ وہ نفسیاتِ انسانی کے رمز شناس ہیں ،نہ صرف حسن وعشق کی کیفیت کو بدرجہ اتم بیان کرتے ہیں بلکہ واردات قلبی کولفظوں میں سمونے کا فن جانتے ہیں۔ درحقیقت ان کی شاعری خودان کی آپ بیتی ہے ۔ شادانیؔ نانا بننے کی سعادت حاصل کرچکے تھے جب اپنے زمانے کی ایک پڑھی لکھی خاتون پر عاشق ہو بیٹھے ۔ بڑی چاہت سے شادی بھی کی لیکن یہ شادی کوئی ایسی کامیاب نہ رہی البتہ ان کی شاعری کو ایک نئی جہت ضرور عطا کی گئی :
——
کیا تم سے گلہ ہو بے رخی کا
دنیا میں کوئی نہیں کسی کا
دیکھا انھیں اور دل نہ دھڑکا
عالم ہے یہ اب تو بے حسی کا
روتے ہی کئی ذرا سا ہنس کر
یا رب یہ مآل ہے خوشی کا
تم سے کوئی چار دن جومل لے
پھر نام نہ لے وہ دوستی کا
——
عندلیب شادانیؔ کا شعری مجموعہ ’’ نشاطِ رفتہ ‘‘ کے نام سے ۱۹۵۰ء میں شائع ہوا۔ اس کے دیباچے میں وہ خود لکھتے ہیں کہ :
’’ میری شاعری تمام تر حال ہے اور پہلے دور کی بعض نظموں کوچھوڑ کر ، وہ بھی بیان واقع سے خالی نہیں ۔ میں نے زندگی میں ایک شعر بھی ایسا نہیں کہا جس پر آپ بیتی کا اطلاق نہ ہوسکے چونکہ محبت کا جذبہ عالمگیر ہے اس لیے مجھے یقین ہے کہ ان اشعار میں بہت سے لوگوں کو اپنے دل کی دھڑکن سنائی دے گی :‘‘
——
عشق سے ہوتا ہے آغاز حیات
اس سے پہلے زندگی الزام ہے
——
شادانی ؔ چاند اور چاندنی کے عاشق ہیں۔ پھولوں کے ذکر سے جھو م جھوم اٹھے ہیں حسن وعشق کا یہ استعارہ ان پر وجد کی کیفیت طاری کردیتا ہے وہ کثرت سے چاند اور چاندانی پر شعر کہتے ہیں اور ایک ’’ماہتابی شاعر ‘‘ کا روپ دھار لیتے ہیں :
——
تم چاندنی ہو ، پھول ہو ، نغمہ ہو شعر ہو
اللہ اے، حسنِ ذوق میرے انتخاب کا
——
تم دور تھے نظر سے اور چاندنی کھلی تھی
آنکھوں میں رات پیہم ٹوٹا کٹے تارے
——
وہ چاندنی میں تیرے تبسم کی کہکشاں
کیا ایک بار اور میسر نہ آئے گی ؟
——
نظر میں یوں ہیں محبت کی چاندنی راتیں
وہیں سے جیسے ابھی اٹھ کے آرہا ہوں میں
——
چاندنی اورپھولوں کی خوشبو جب یکجا ہوجاتی ہے تو شاعر کی وجدانی کیفیت کچھ یوں پکار اٹھتی ہے :
——
حسن محو خواب تھا شب یا میری آغوش میں
بوستاں بھر پھول تھے اور آسماں بھر چاندنی
——
شادانیؔ معاملاتِ دل کو چھپانے کے قائل نہیں اور نہ ہی اشارے کنائے میں بات کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حقیقت نگاری بعض اوقات کھلے اشاروں میں بدل جاتی ہے۔’’ نشاطِ رفتہ‘‘ کے اشعار میں جوانی کی رنگینیوں اور عشقیہ گھاتوں اور وارداتوں کا ایک جہان آباد نظر آتا ہے۔ حسن، منظر کی صورت میں میسر آجائے تو وہ اسے نظارہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
——
وہ شوقِ شکیب کی گستاخ دستیاں
اٹھا وہ درمیاں سے پردہ حجاب کا
وہ حسن شرمگیں کی ادائے سپردگی
وہ ارتعاش کیف لبِ کامیاب کا
——
’’ نشاط رفتہ ‘‘ میں چودہ کے قریب نظمیں بھی شامل ہیں۔ ان میں کچھ نظرمیں ایسی بھی ہیں جن میں عام روش سے ہٹ کر اشعار کہے گئے ہیں۔ مثلا ۱۹۴۷ء کے خونیں انقلاب پر لکھی جانے والی نظم ’’ عید قربان‘‘ (۲۴ اکتوبر ۱۹۴۷ء ، ڈھاکا) میں لکھتے ہیں :
——
پنجاب میں تھے کل پانچ دریا
اٹھا کچھ ایسا فتنوں کا طوفان
بہتی ہیں ہر سو اب خوں کی ندیاں
اور خوں کس کا ؟ خونِ مسلماں
——
شادانی ؔ نہ صرف اُردو کے اچھے شاعر تھے بلکہ وہ فارسی میں بھی شعر کہتے تھے اور فی البدیہہ شعر کہنے میں تو انھیں کمال حاصل تھا۔ موقع ومحل کی مناسبت سے کہے جانے والے اس قسم کے اشعار ابدی شہرت حاصل کر گئے ہیں مثلا :
——
گریباں میں ہیں اورکچھ پھول بالوں میں سجائے ہیں
چمن کو لوٹنے والے گلستان بن کر آئے ہیں
——
دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
اس نے دِل کا ساتھ نہ چھوڑا، ویسے ہم گھبرائے تو
——
۷ ستمبر ۱۹۵۷ء کے ایک مکتوب میں شادانی ؔ نظیر صدیقی کے نام لکھتے ہیں کہ :
’’ خواب میں دیکھا ایک جانا پہچانا نہایت شاندار ڈرائنگ روم ہے ۔ میں اور وہ صرف دوہی شخص وہاں ہیں۔ انھوں نے کہا ، کوئی تازہ غزل سنائیے ۔ میں نے کہا ، غزل تو برسوں سے نہیں کہی۔ کیا آپ تو فی البدیہہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ابھی کہیے ۔ میں نے کہا اچھا کوشش کرتا ہوں دو ایک منٹ فکر کرنے کے بعد مطلع پڑھا، اس کے بعد یہ شعر :
——
تمہیں نے مجھے پیار کرنا سکھایا
تمہیں اب مجھے بھول جانا سکھا دو
——
اس شعر کی کئی بارتکرار کی پھر ایک اور شعر پڑھا اور پھر یہ سلسلہ برابر چلتا رہا ۔ کوئی بیس پچیس یا شاید تیس شعر ہوئے ۔ ہر شعر کو انھوں نے کئی بار پڑھوایا۔ اس طرح اگلے شعر کے متعلق سوچنے کا موقع بھی مل گیا۔ دراصل کچھ زیادہ سوچنے کی ضرورت بھی نہ تھی۔ جو کچھ کہنا تھا وہ دوہی شخصیتوں کے متعلق کہنا تھا :
——
نہ یوں مسکرا کر بحث آسرا دو
مجھے اس فریب نظر سے چھڑا دو
تمہیں نے مجھے پیار کرنا سکھایا
تمہیں اب بھول جانا سکھا دو
میری زندگی شمع کی زندگی ہے
جلے تو جلے ، ختم ہے گر،بجھا دو
بہت آج رونے کو جی چاہتا ہے
کسی لٹنے والے کا قصہ سنا دو
وہ نادان چاہت کی اک بھول تھی بس
تم اپنا نیاز تمنا بھلا دو
میرے خط وہ دین ووفا کے صحیفے
انھیں اب جلا کر ہوا میں اڑا دو
وہاں میری تصویر اب بے محل ہے
شبستان راحت سے اس کو ہٹا دو
——
عندلیب شادانی سے متعلق نظیر صدیقی کہتے ہیں،اس رائے میں انہوں نے انصاف کیا یا نہیں،بہر طور یہ رائے دل چسپ ہے اور بعض کا خیال ہے کہ اس میں احساسِ رقابت کو بھی دخل ہے کہ شاید عندلیب شادانی کی مذکورہ بالا والہانہ ہم کلامی،صدیقی صاحب کو پسند نہ آئی تھی۔
——
یہ بھی پڑھیں :ماہر القادری کا یومِ پیدائش
——
’’ شادانی صاحب کا مطالعہ نہایت وسیع بھی ہے اور نہایت محدود بھی اُردو اور فارسی کے ادب العالیہ ، لغت ، قواعد اور عروض پروہ عالمانہ عبور اور محققانہ نظر رکھتے ہیں لیکن دنیا کے ادب العالیہ سے ان کی واقفیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ خود اُردو کے موجودہ ادب سے بھی کچھ زیادہ واقف نہیں ، انگریزی فرانسیسی ، روسی ، جرمنی امریکی ادیبوں اور شاعروں میں سے انھوں نے کسی ایک کا بھی مکمل مطالعہ نہیں کیا ہے وہ یورپ اور امریکہ کے ادب کی نئی تحریکوں ،شاعری کے تجربوں ، تنقید کے لیے اسکولوں ، افسانے ، ڈرامے اور ناول کی نئی تکنیکوں اور فکر وفن کے نئے مسائل سے بڑی حد تک بے خبر ہیں۔ ان میں سے جتنی چیزیں موجودہ اُردو ادب میں آچکی ہے وہ ان سے بھی پوری طرح آگاہ نہیں۔ فلسفہ ، لسانیات ،عمرانیات اور مذہبیات ، جن کاموجودہ دور کے ادبیات سے بڑا گہرا تعلق ہے، ان کی توجہ جذب نہ کرسکے لیکن ان تمام کوتاہیوں کے باوجود ہر جگہ اپنے وزن وقار کوقائم رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔
——
کتابیات :
——
۱۔ نقوش عندلیب شادانی کا تغزل اگست ۱۹۵۲ء ص ۴۸۔
۲۔ رسالہ سہ ماہی اُردو شمارہ ۔
۳۔ رسالہ سہ ماہی اُردو جلد ۴۹ ، ۱۹۷۳ء شمارہ ۱، ۲۔
۴۔ نشاط رفتہ
——
منتخب کلام
——
دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو
——
دل پر چوٹ پڑی ہے تب تو آہ لبوں تک آئی ہے
یوں ہی چھن سے بول اٹھنا تو شیشہ کا دستور نہیں
——
میں نگاہ سے دل کا مدعا سمجھتا ہوں
آؤ میں تمہیں چھیڑوں اور معذرت چاہوں
——
میں نے مانا تمہیں کچھ مجھ سے سروکار نہ تھا
جاتے جاتے مجھے کیوں تم نے پلٹ کر دیکھا
——
جو یہ کہتے ہیں کہ ہر حال میں خوش ہیں ہم تم
ان کے دل میں بھی مقدر کا گلہ ہوتا ہے
——
یہ جانتا ہوں کہ میں تجھ کو پا نہیں سکتا
ہر ایک سانس میں بڑھتی ہے آرزو تیری
——
تم جبرِ محبت کیا جانو ، اچھا یہ بتاؤ تم نے کبھی
ہنستی ہوئی آںکھوں کے پیچھے اشکوں کا سمندر دیکھا ہے ؟
——
رسوائی کے ڈر سے کوئی رازِ محبت چُھپتا ہے
آہیں روکیں ، آنسو روکیں ، رنگ مگر اُڑ جائے تو
——
سنتے آٗے تھے گیا وقت پلٹتا ہی نہیں
مگر اک بھولنے والے نے ہمیں یاد کیا
——
اپنی وفا سے بڑھ کے ہے تیری وفا پہ ناز
اب حسرتوں کو شکوۂ حرماں نہیں رہا
رکھ لی تری وفا نے محبت کی آبرو
میں اپنی آرزو سے پشیماں نہیں رہا
——
دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو
شفق دھنک مہتاب گھٹائیں تارے نغمے بجلی پھول
اس دامن میں کیا کیا کچھ ہے دامن ہاتھ میں آئے تو
چاہت کے بدلے میں ہم تو بیچ دیں اپنی مرضی تک
کوئی ملے تو دل کا گاہک کوئی ہمیں اپنائے تو
کیوں یہ مہرانگیز تبسم مد نظر جب کچھ بھی نہیں
ہائے کوئی انجان اگر اس دھوکے میں آ جائے تو
سنی سنائی بات نہیں یہ اپنے اوپر بیتی ہے
پھول نکلتے ہیں شعلوں سے چاہت آگ لگائے تو
جھوٹ ہے سب تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے
اچھا میرا خواب جوانی تھوڑا سا دہرائے تو
نادانی اور مجبوری میں یارو کچھ تو فرق کرو
اک بے بس انسان کرے کیا ٹوٹ کے دل آ جائے تو
——
صحن چمن ہے گوشۂ زنداں ترے بغیر
معمورۂ حیات ہے ویراں ترے بغیر
چھپ چھپ کے جس کو دیکھنے آتا تھا ماہتاب
ظلمت کدہ ہے اب وہ شبستاں ترے بغیر
جلتا ہے چارہ ساز کی نادانیوں پہ جی
میں اور میرے درد کا درماں ترے بغیر
سوتی ہیں اس میں کتنی امیدیں فنا کی نیند
سینہ ہے ایک شہر خموشاں ترے بغیر
میری ہنسی کہ تھی ترا سرمایۂ نشاط
آ دیکھ اب ہے خندۂ گریاں ترے بغیر
مہتاب کے ہجوم میں گم ہو گئی تھی رات
پھر قہر بن گیا غم دوراں ترے بغیر
جلتا ہے تیز تیز تڑپتا ہے پے بہ پے
دل ہے کہ ایک شعلۂ لرزاں ترے بغیر
میں ہیچ ہوں مگر مجھے اتنا سبک نہ کر
میں اور نشاط زیست کا ارماں ترے بغیر
جس زندگی کو تو نے بنایا تھا زندگی
وہ زندگی ہے خواب پریشاں ترے بغیر
——
ہنستی آنکھیں ہنستا چہرہ اک مجبور بہانہ ہے
چاند میں سچ مچ نور کہاں ہے چاند تو اک ویرانہ ہے
ناز پرستش بن جائے گا صبر ذرا اے شورش دل
الفت کی دیوانہ گری سے حسن ابھی بیگانہ ہے
مجھ کو تنہا چھوڑنے والے تو نہ کہیں تنہا رہ جائے
جس پر تجھ کو ناز ہے اتنا اس کا نام زمانہ ہے
تم سے مجھ کو شکوہ کیوں ہو آخر باسی پھولوں کو
کون گلے کا ہار بنائے کون ایسا دیوانہ ہے
ایک نظر میں دنیا بھر سے ایک نظر میں کچھ بھی نہیں
چاہت میں انداز نظر ہی چاہت کا پیمانہ ہے
خود تم نے آغاز کیا تھا جس کا ایک تبسم سے
محرومی کے آنسو بن کر ختم پہ وہ افسانہ ہے
یوں ہے اس کی بزم طرب میں اک دل غم دیدہ جیسے
چاروں جانب رنگ محل ہیں بیچ میں اک ویرانہ ہے
——
عندلیب شادانی نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کرنے کے بعد مدرسہ عالیہ رام پور میں داخلہ لیا تھا۔ یہیں سے منشی عالم اور منشی فاضل کے امتحانات پاس کیے۔ پھر پرائیویٹ طور پر 1921ء میں بی۔ اے پاس کیا۔ بعد میں وہ لاہور چلے گئے اور وہاں ایک کالج سے وابستہ ہو گئے۔ 1928ء میں فارسی کے لکچرر کے طور پر ان کا تقرر ڈھاکہ یونیورسٹی میں ہوا ۔1931ء میں وظیفے کے تحت لندن جا کر پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ بعد میں وہ پھر ڈھاکہ یونیورسٹی میں اردو اور فارسی شعبے کے صدر بنے اور وہیں سے 1965ء میں سبکدوش ہوئے ۔
عندلیب شادانی کا شعری مجموعہ پہلی بار 1951ء میں لاہور سے ’ نشاط رفتہ ‘ کے نام سے شائع ہوا تھا ۔
۔ ان کا مجموعہ کلام نشاط رفتہ اردو کے اہم شعری مجموعوں میں شمار ہوتا ہے۔ ان کی دیگر تصانیف میں نقش بدیع‘ تحقیق کی روشنی میں‘ نوش و نیش‘ سچی کہانیاں‘ شرح رباعیات‘ بابا طاہر اور دور حاضر اور اردو غزل گوئی کے نام شامل ہیں، حکومت پاکستان نے ڈاکٹر عندلیب شادانی کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔
عندلیب شادانی کا انتقال 29 جولائی 1969ء کو ڈھاکہ ( اس وقت مشرقی پاکستان ) میں ہوا تھا
——
یہ بھی پڑھیں :ریاض خیر آبادی کی برسی
——
بنگلہ دیش کے قومی دائرۃ المعارف بنگلہ پیڈیا نے اس بات کے لیے عندلیب شادانی کو سراہا ہے کہ انہوں نے رابندر ناتھ ٹیگور کی صد سالہ تقاریب میں حصہ لیا جو 1961ء میں منعقد ہوئے تھے۔ انہیں 1969ء میں ترقی کی روشنی کی وجہ سے دوڑ ایوارڈ دیا گیا۔ ان کی کل 12 کتابیں شائع ہوئی ہیں، جن میں بول چال کی فارسی لغت نقشِ بادی کے علاوہ چہار مقالہ، رباعیات بابا طاہر، پیام اقبال، تحقیق کی روشنی جیسے تنقیدی کام شامل تھے۔ انہوں نے سچی کہانیوں کے عنوان سے افسانوں کا مجموعہ لکھا۔ ان کا مجموعہ کلام رُبع شکست تھا۔انہوں نے ایک ڈراما چھوٹا خدا میں لکھا تھا۔ اس کے علاوہ خبر نامی رسالے کی انہوں نے ادارت کی تھی۔
——
ڈاکٹر عندلیب شادانی از انوار احمد
——
پتا نہیں کیوں دسمبر میں رفتگاں کی یاد آتی ہے،افراد بھی،شہر بھی اور وہ احساسِ رفاقت بھی جو،منقسم ہوگیا۔ اُردو ادب کے تحقیقی اور تنقیدی سرمائے میں عندلیب شادانیؔ کی ادبی خدمات کو کسی طور پر بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ شادانیؔ نے قصے کہانیاں بھی لکھے ، ڈرامے اور افسانے بھی ، تحقیق وتنقید کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی لیکن تمام اصنافِ ادب میں ان کی شاعری نمایاں اہمیت کی حامل رہی ہے۔ وہ نفسیاتِ انسانی کے رمز شناس ہیں ،نہ صرف حسن وعشق کی کیفیت کو بدرجہ اتم بیان کرتے ہیں بلکہ واردات قلبی کولفظوں میں سمونے کا فن جانتے ہیں۔ درحقیقت ان کی شاعری خودان کی آپ بیتی ہے ۔ شادانیؔ نانا بننے کی سعادت حاصل کرچکے تھے جب اپنے زمانے کی ایک پڑھی لکھی خاتون پر عاشق ہو بیٹھے ۔ بڑی چاہت سے شادی بھی کی لیکن یہ شادی کوئی ایسی کامیاب نہ رہی البتہ ان کی شاعری کو ایک نئی جہت ضرور عطا کی گئی :
——
کیا تم سے گلہ ہو بے رخی کا
دنیا میں کوئی نہیں کسی کا
دیکھا انھیں اور دل نہ دھڑکا
عالم ہے یہ اب تو بے حسی کا
روتے ہی کئی ذرا سا ہنس کر
یا رب یہ مآل ہے خوشی کا
تم سے کوئی چار دن جومل لے
پھر نام نہ لے وہ دوستی کا
——
عندلیب شادانیؔ کا شعری مجموعہ ’’ نشاطِ رفتہ ‘‘ کے نام سے ۱۹۵۰ء میں شائع ہوا۔ اس کے دیباچے میں وہ خود لکھتے ہیں کہ :
’’ میری شاعری تمام تر حال ہے اور پہلے دور کی بعض نظموں کوچھوڑ کر ، وہ بھی بیان واقع سے خالی نہیں ۔ میں نے زندگی میں ایک شعر بھی ایسا نہیں کہا جس پر آپ بیتی کا اطلاق نہ ہوسکے چونکہ محبت کا جذبہ عالمگیر ہے اس لیے مجھے یقین ہے کہ ان اشعار میں بہت سے لوگوں کو اپنے دل کی دھڑکن سنائی دے گی :‘‘
——
عشق سے ہوتا ہے آغاز حیات
اس سے پہلے زندگی الزام ہے
——
شادانی ؔ چاند اور چاندنی کے عاشق ہیں۔ پھولوں کے ذکر سے جھو م جھوم اٹھے ہیں حسن وعشق کا یہ استعارہ ان پر وجد کی کیفیت طاری کردیتا ہے وہ کثرت سے چاند اور چاندانی پر شعر کہتے ہیں اور ایک ’’ماہتابی شاعر ‘‘ کا روپ دھار لیتے ہیں :
——
تم چاندنی ہو ، پھول ہو ، نغمہ ہو شعر ہو
اللہ اے، حسنِ ذوق میرے انتخاب کا
——
تم دور تھے نظر سے اور چاندنی کھلی تھی
آنکھوں میں رات پیہم ٹوٹا کٹے تارے
——
وہ چاندنی میں تیرے تبسم کی کہکشاں
کیا ایک بار اور میسر نہ آئے گی ؟
——
نظر میں یوں ہیں محبت کی چاندنی راتیں
وہیں سے جیسے ابھی اٹھ کے آرہا ہوں میں
——
چاندنی اورپھولوں کی خوشبو جب یکجا ہوجاتی ہے تو شاعر کی وجدانی کیفیت کچھ یوں پکار اٹھتی ہے :
——
حسن محو خواب تھا شب یا میری آغوش میں
بوستاں بھر پھول تھے اور آسماں بھر چاندنی
——
شادانیؔ معاملاتِ دل کو چھپانے کے قائل نہیں اور نہ ہی اشارے کنائے میں بات کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حقیقت نگاری بعض اوقات کھلے اشاروں میں بدل جاتی ہے۔’’ نشاطِ رفتہ‘‘ کے اشعار میں جوانی کی رنگینیوں اور عشقیہ گھاتوں اور وارداتوں کا ایک جہان آباد نظر آتا ہے۔ حسن، منظر کی صورت میں میسر آجائے تو وہ اسے نظارہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
——
وہ شوقِ شکیب کی گستاخ دستیاں
اٹھا وہ درمیاں سے پردہ حجاب کا
وہ حسن شرمگیں کی ادائے سپردگی
وہ ارتعاش کیف لبِ کامیاب کا
——
’’ نشاط رفتہ ‘‘ میں چودہ کے قریب نظمیں بھی شامل ہیں۔ ان میں کچھ نظرمیں ایسی بھی ہیں جن میں عام روش سے ہٹ کر اشعار کہے گئے ہیں۔ مثلا ۱۹۴۷ء کے خونیں انقلاب پر لکھی جانے والی نظم ’’ عید قربان‘‘ (۲۴ اکتوبر ۱۹۴۷ء ، ڈھاکا) میں لکھتے ہیں :
——
پنجاب میں تھے کل پانچ دریا
اٹھا کچھ ایسا فتنوں کا طوفان
بہتی ہیں ہر سو اب خوں کی ندیاں
اور خوں کس کا ؟ خونِ مسلماں
——
شادانی ؔ نہ صرف اُردو کے اچھے شاعر تھے بلکہ وہ فارسی میں بھی شعر کہتے تھے اور فی البدیہہ شعر کہنے میں تو انھیں کمال حاصل تھا۔ موقع ومحل کی مناسبت سے کہے جانے والے اس قسم کے اشعار ابدی شہرت حاصل کر گئے ہیں مثلا :
——
گریباں میں ہیں اورکچھ پھول بالوں میں سجائے ہیں
چمن کو لوٹنے والے گلستان بن کر آئے ہیں
——
دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
اس نے دِل کا ساتھ نہ چھوڑا، ویسے ہم گھبرائے تو
——
۷ ستمبر ۱۹۵۷ء کے ایک مکتوب میں شادانی ؔ نظیر صدیقی کے نام لکھتے ہیں کہ :
’’ خواب میں دیکھا ایک جانا پہچانا نہایت شاندار ڈرائنگ روم ہے ۔ میں اور وہ صرف دوہی شخص وہاں ہیں۔ انھوں نے کہا ، کوئی تازہ غزل سنائیے ۔ میں نے کہا ، غزل تو برسوں سے نہیں کہی۔ کیا آپ تو فی البدیہہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ابھی کہیے ۔ میں نے کہا اچھا کوشش کرتا ہوں دو ایک منٹ فکر کرنے کے بعد مطلع پڑھا، اس کے بعد یہ شعر :
——
تمہیں نے مجھے پیار کرنا سکھایا
تمہیں اب مجھے بھول جانا سکھا دو
——
اس شعر کی کئی بارتکرار کی پھر ایک اور شعر پڑھا اور پھر یہ سلسلہ برابر چلتا رہا ۔ کوئی بیس پچیس یا شاید تیس شعر ہوئے ۔ ہر شعر کو انھوں نے کئی بار پڑھوایا۔ اس طرح اگلے شعر کے متعلق سوچنے کا موقع بھی مل گیا۔ دراصل کچھ زیادہ سوچنے کی ضرورت بھی نہ تھی۔ جو کچھ کہنا تھا وہ دوہی شخصیتوں کے متعلق کہنا تھا :
——
نہ یوں مسکرا کر بحث آسرا دو
مجھے اس فریب نظر سے چھڑا دو
تمہیں نے مجھے پیار کرنا سکھایا
تمہیں اب بھول جانا سکھا دو
میری زندگی شمع کی زندگی ہے
جلے تو جلے ، ختم ہے گر،بجھا دو
بہت آج رونے کو جی چاہتا ہے
کسی لٹنے والے کا قصہ سنا دو
وہ نادان چاہت کی اک بھول تھی بس
تم اپنا نیاز تمنا بھلا دو
میرے خط وہ دین ووفا کے صحیفے
انھیں اب جلا کر ہوا میں اڑا دو
وہاں میری تصویر اب بے محل ہے
شبستان راحت سے اس کو ہٹا دو
——
عندلیب شادانی سے متعلق نظیر صدیقی کہتے ہیں،اس رائے میں انہوں نے انصاف کیا یا نہیں،بہر طور یہ رائے دل چسپ ہے اور بعض کا خیال ہے کہ اس میں احساسِ رقابت کو بھی دخل ہے کہ شاید عندلیب شادانی کی مذکورہ بالا والہانہ ہم کلامی،صدیقی صاحب کو پسند نہ آئی تھی۔
——
یہ بھی پڑھیں :ماہر القادری کا یومِ پیدائش
——
’’ شادانی صاحب کا مطالعہ نہایت وسیع بھی ہے اور نہایت محدود بھی اُردو اور فارسی کے ادب العالیہ ، لغت ، قواعد اور عروض پروہ عالمانہ عبور اور محققانہ نظر رکھتے ہیں لیکن دنیا کے ادب العالیہ سے ان کی واقفیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ خود اُردو کے موجودہ ادب سے بھی کچھ زیادہ واقف نہیں ، انگریزی فرانسیسی ، روسی ، جرمنی امریکی ادیبوں اور شاعروں میں سے انھوں نے کسی ایک کا بھی مکمل مطالعہ نہیں کیا ہے وہ یورپ اور امریکہ کے ادب کی نئی تحریکوں ،شاعری کے تجربوں ، تنقید کے لیے اسکولوں ، افسانے ، ڈرامے اور ناول کی نئی تکنیکوں اور فکر وفن کے نئے مسائل سے بڑی حد تک بے خبر ہیں۔ ان میں سے جتنی چیزیں موجودہ اُردو ادب میں آچکی ہے وہ ان سے بھی پوری طرح آگاہ نہیں۔ فلسفہ ، لسانیات ،عمرانیات اور مذہبیات ، جن کاموجودہ دور کے ادبیات سے بڑا گہرا تعلق ہے، ان کی توجہ جذب نہ کرسکے لیکن ان تمام کوتاہیوں کے باوجود ہر جگہ اپنے وزن وقار کوقائم رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔
——
کتابیات :
——
۱۔ نقوش عندلیب شادانی کا تغزل اگست ۱۹۵۲ء ص ۴۸۔
۲۔ رسالہ سہ ماہی اُردو شمارہ ۔
۳۔ رسالہ سہ ماہی اُردو جلد ۴۹ ، ۱۹۷۳ء شمارہ ۱، ۲۔
۴۔ نشاط رفتہ
——
منتخب کلام
——
دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو
——
دل پر چوٹ پڑی ہے تب تو آہ لبوں تک آئی ہے
یوں ہی چھن سے بول اٹھنا تو شیشہ کا دستور نہیں
——
میں نگاہ سے دل کا مدعا سمجھتا ہوں
آؤ میں تمہیں چھیڑوں اور معذرت چاہوں
——
میں نے مانا تمہیں کچھ مجھ سے سروکار نہ تھا
جاتے جاتے مجھے کیوں تم نے پلٹ کر دیکھا
——
جو یہ کہتے ہیں کہ ہر حال میں خوش ہیں ہم تم
ان کے دل میں بھی مقدر کا گلہ ہوتا ہے
——
یہ جانتا ہوں کہ میں تجھ کو پا نہیں سکتا
ہر ایک سانس میں بڑھتی ہے آرزو تیری
——
تم جبرِ محبت کیا جانو ، اچھا یہ بتاؤ تم نے کبھی
ہنستی ہوئی آںکھوں کے پیچھے اشکوں کا سمندر دیکھا ہے ؟
——
رسوائی کے ڈر سے کوئی رازِ محبت چُھپتا ہے
آہیں روکیں ، آنسو روکیں ، رنگ مگر اُڑ جائے تو
——
سنتے آٗے تھے گیا وقت پلٹتا ہی نہیں
مگر اک بھولنے والے نے ہمیں یاد کیا
——
اپنی وفا سے بڑھ کے ہے تیری وفا پہ ناز
اب حسرتوں کو شکوۂ حرماں نہیں رہا
رکھ لی تری وفا نے محبت کی آبرو
میں اپنی آرزو سے پشیماں نہیں رہا
——
دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو
شفق دھنک مہتاب گھٹائیں تارے نغمے بجلی پھول
اس دامن میں کیا کیا کچھ ہے دامن ہاتھ میں آئے تو
چاہت کے بدلے میں ہم تو بیچ دیں اپنی مرضی تک
کوئی ملے تو دل کا گاہک کوئی ہمیں اپنائے تو
کیوں یہ مہرانگیز تبسم مد نظر جب کچھ بھی نہیں
ہائے کوئی انجان اگر اس دھوکے میں آ جائے تو
سنی سنائی بات نہیں یہ اپنے اوپر بیتی ہے
پھول نکلتے ہیں شعلوں سے چاہت آگ لگائے تو
جھوٹ ہے سب تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے
اچھا میرا خواب جوانی تھوڑا سا دہرائے تو
نادانی اور مجبوری میں یارو کچھ تو فرق کرو
اک بے بس انسان کرے کیا ٹوٹ کے دل آ جائے تو
——
صحن چمن ہے گوشۂ زنداں ترے بغیر
معمورۂ حیات ہے ویراں ترے بغیر
چھپ چھپ کے جس کو دیکھنے آتا تھا ماہتاب
ظلمت کدہ ہے اب وہ شبستاں ترے بغیر
جلتا ہے چارہ ساز کی نادانیوں پہ جی
میں اور میرے درد کا درماں ترے بغیر
سوتی ہیں اس میں کتنی امیدیں فنا کی نیند
سینہ ہے ایک شہر خموشاں ترے بغیر
میری ہنسی کہ تھی ترا سرمایۂ نشاط
آ دیکھ اب ہے خندۂ گریاں ترے بغیر
مہتاب کے ہجوم میں گم ہو گئی تھی رات
پھر قہر بن گیا غم دوراں ترے بغیر
جلتا ہے تیز تیز تڑپتا ہے پے بہ پے
دل ہے کہ ایک شعلۂ لرزاں ترے بغیر
میں ہیچ ہوں مگر مجھے اتنا سبک نہ کر
میں اور نشاط زیست کا ارماں ترے بغیر
جس زندگی کو تو نے بنایا تھا زندگی
وہ زندگی ہے خواب پریشاں ترے بغیر
——
ہنستی آنکھیں ہنستا چہرہ اک مجبور بہانہ ہے
چاند میں سچ مچ نور کہاں ہے چاند تو اک ویرانہ ہے
ناز پرستش بن جائے گا صبر ذرا اے شورش دل
الفت کی دیوانہ گری سے حسن ابھی بیگانہ ہے
مجھ کو تنہا چھوڑنے والے تو نہ کہیں تنہا رہ جائے
جس پر تجھ کو ناز ہے اتنا اس کا نام زمانہ ہے
تم سے مجھ کو شکوہ کیوں ہو آخر باسی پھولوں کو
کون گلے کا ہار بنائے کون ایسا دیوانہ ہے
ایک نظر میں دنیا بھر سے ایک نظر میں کچھ بھی نہیں
چاہت میں انداز نظر ہی چاہت کا پیمانہ ہے
خود تم نے آغاز کیا تھا جس کا ایک تبسم سے
محرومی کے آنسو بن کر ختم پہ وہ افسانہ ہے
یوں ہے اس کی بزم طرب میں اک دل غم دیدہ جیسے
چاروں جانب رنگ محل ہیں بیچ میں اک ویرانہ ہے