چشمِ الطاف و عنایاتِ مکرر میں ہے
مجھ سا بے مایہ بھی اُس شہرِ تونگر میں ہے ایک تسکین سی رہتی ہے پسِ حرفِ طلب اُس سے مانگا ہے تو اب اپنے مقدر میں ہے عشق کا سارا وظیفہ ہے تری دید کا شوق حسن کا سارا کرشمہ ترے پیکر میں ہے نطق کے طاق میں رکھا ہے ترا اسم چراغ اور […]