اردوئے معلیٰ

عزیز الدین خاکی : نعت خوانی کے تناظر میں نعت نگاری کی عمدہ مثال
——
نعت خوانی سے نعت نویسی ، نعت نویسی سے نعت گوئی، نعت گوئی سے نعت نگاری تک نعت کے کئی مرحلے ہیں۔ذوقِ نعت رکھنے والے سامعین اور قارئین کو ان مرحلوں کا پتہ ایک دم نہیں چلتا اِن کا ادراک اُن صاحبانِ نظر کو ہوتا ہے جو کسی نعت خوان کے ارتقائی مدارج کو دلچسپی اور توجہ سے دیکھتے ہیں۔اکثر نعت خوانوں کو بھی خبر نہیں ہوتی کہ وہ کارِ نعت کے کس سنگِ میل یا زینے پرہیںاُن کا فن مائل بہ ارتقاء ہے یا وہ اوپر بتائے گئے درجوں میں پہلے درجے پر ہی رُکے ہوئے ہیں۔
ذوقِ نعت کا پہلا پڑاؤ اور آغاز کی سیڑھی نعت خوانوں کا بڑا امتحان ہوتا ہے۔ شہرت، عزت افزائی، روپیہ پیسہ وغیرہ ایسی ’فتوحات‘ کا انبار اور سرشاری انہیں اس طرح اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے کہ کئی نعت خواں اگر کبھی اس ’سرشاری‘ سے نکلنا بھی چاہیں تو نہیں نکل سکتے۔پھر دوسروں کی نعتیں پڑھتے پڑھتے کبھی کبھار وہ ایک دو مصرعے خود بھی وضع کر لیتے ہیں خصوصاً اساتذہ کی معروف زمینوں اور، لمبی ردیف والی نعتوں میں بار بار کی نعت خوانی کے سبب انہیں دو چارمصرعے لکھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی اگر وضع کردہ شعروں میں کوئی ہلکا سا تلفظ کا یا عروض کا سقم ہو تو وہ اس کو اپنے ترنم کی ’’برکت‘‘ سے سیدھا کر لیتے ہیں۔پھراگر_حلقۂ احباب میں سے انہیں کوئی ’سہولت کار‘ مل جائے تو وہ نعت خوانی سے نعت نویسی کے درجہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ کئی نعت خوان اِسی رتبہ پر مطمئن ہو جاتے ہیں کسی مجلس میں دوسروں کی نعتوں میں وہ اپنے دوچار شعر یااپنی کوئی نعت بھی پڑھ لیتے ہیں۔پھراگر وہ ایسا بارہا کریں یا دوسروں کی نعتوں کے ساتھ تسلسل سے اپنا کلام بھی شاملِ نعت خوانی کر لیں تو وہ بھی نعت گوئی کے منصب پرباقاعدہ متمکن ہو جاتے ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : ہم خاک ہیں اور خاک ہی ماوا ہے ہمارا
——
نعت گوئی کے درجے پر پہنچنے کے لئے کچھ ریاضت ، توجہ اور اعتماد کا شمول ضروری ہے اور کچھ تسلسل کار- اس سنگ میل پر بھی کچھ لوگ رُک جاتے ہیں جیسے جیسے اُن کی ریاضت، محنت، توجہ اور اعتماد زیادہ بڑھتا ہے، وہ نعت گوئی سے نعت نگاری کے درجے پر آجاتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ درجہ بندی کسی باقاعدہ طے شدہ فارمولے کے سبب نہیںمیرے اپنے ماضی کے تجربے اور مشاہدے کے سبب ہے گزشتہ پانچ چھے عشروں میں نعت خوانی کی محفلوں، نعتیہ مشاعروں اور میلاد کی مجلسوں میں شرکت کا نتیجہ ہے ۔ خبر اخبار اورایسے اجتماعات کے بارے میں جانکاری کے سبب بعض نعت خوانوں کے بارے میں پتا چلتا رہتا ہے۔
میری اس خود ساختہ درجہ بندی سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں لیکن میرا تجربہ بتاتا ہے جیسے جیسے کوئی نعت خواں نعتیہ مجالس کاضرورت سے زیادہ دلدارہ ہوتا جاتا ہے وہ ’موجود‘و’میسر‘ ، پر ہی مطمئن ہو جاتا ہے نعت نگاری کو اپنی منزل وہی نعت خواں سمجھتا ہے جو ایسے اجتماعات میں کم کم جاتا ہے اور کبھی کبھار ایسی مجالس میں شرکت سے انکار کا حوصلہ بھی کر لیتا ہے۔مگر بقول علامہ اقبال ؏
——
خودی میں ڈوبتے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں
مگر یہ حوصلۂ مردِ ہیچ کارہ نہیں۔
——
شہرت بخش اور زرنواز محافلِ نعت سے سے گریز سب کے بس کی بات نہیں۔ تقریباتی معمولات اور مجلسی کم آویزی تخلیقِ نعت کے لئے ضروری ہے یا یوں سمجھئے کہ مطالعے کا میلان ، ریاضت کی طرف طبیعت کا مائل ہونا نعت نگاری کے فطری عناصر اور جبلّی تقاضے ہیں۔
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ درجہ بندی دنیا داری اور اہلِ ظواہر کی نظر سے ہے قبولیت، کم قبولیت یا عدم قبولیت کے اعتبار سے نہیں کہ قبولیت ِ نعت کا تعلق اخلاصِ نیّت سے ہے یہ اخلاص نعت پڑھنے میں ظہور کرے، نعت نویسی، نعت گوئی یا نعت نگاری کی کسی اورصورت میں ظاہر ہو۔ ممکن ہے کوئی مخلص قاری یا سامع ان مذکورہ درجوں میں کسی کا بھی اہل نہ ہو اور نہ کسی درجے پر اپنی صلاحیت کا اظہار کرے اور اپنے اخلاص کے سبب کسی بڑے سے بڑے نعت نگارسے بھی اگلی منزل پر فائز ہو۔کسے خبر کسی سامع کا کسی مجلسِ نعت میں خاموش بیٹھنا یا اکابرین نعت نگار کے معروف نعت پاروں کو سن کر صرف اس امر کا خیال کہ ’کاش اللہ تعالیٰ مجھے بھی لحن اور لفظ دیتا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت لکھتا‘مقبول ہو جائے ! ایسا غیر شاعر سامع ہم بہت سے عادتاً یا نمائشائی طور پرلکھنے والے نعت خوانوں اور شاعروںسے کہیں بہتر ہوتا ہے۔
برادرم عزیز الدین خاکی کی نعت نگاری پر قلم اٹھاتے ہوئے تمہید زیادہ لمبی ہو گئی جس کے لئے معذرت خواہ ہوں مقصود یہ تھا کہ نعت کے حالیہ منظر نامے میں خاکی صاحب ہمارے نعت خوانوں سے بہت مختلف ہیں مذکورہ بالا درجہ بندی سے مختلف اور منفرد ۔ مختلف اس لئے کہ نعت نگاری کی منزل اُن کے پیشِ نظر ہے انہوں نے یہ سارے مرحلے درجہ بہ درجہ نہیں بہ یک قدم طے کئے ہیں اُن کے کئی نعتیہ مجموعے ان کی نعت گوئی کو وہ مبارک تسلسل عطا کرتے ہیں جو ہمارے کئی نعت خوانوں کو حاصل نہیںخصوصاً وہ نعت خواں جو نعت خوانی پر ہی اکتفا کرلیتے ہیں وہ شاید اس کے آگے بڑھنے کے خواہاںہی نہیں ہوتے اس اعتبار سے خاکی صاحب منفرد ہیں کہ انہوں نے نعت کے فکر و فن پر اب تک جو محنت کی ہے وہ فنّی طور انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ان کی نعتوں اور تقدیسی شاعری کے اب تک کئی مجموعے چھپ چکے ہیں۔جیسے انوارِ مدینہ، ذکرِ خیرالوریٰ، نورالہدیٰ، مناقبِ اولیا ، ذکرِ صلِ علیٰ، نغماتِ طیبات، حبیبی یا رسول اللہ، فخرِ کون و مکاں، بستانِ مناقب ، الحمد للہ، بیّنات، کلیات عزیز خاکیؔ وغیرہ وغرہ۔ان کتابوں سے خاکیؔ کی نعت کا تسلسل واضح ہوتا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : پروفیسر عزیز احمد کا یوم وفات
——
زیر نظر نعتیہ مجموعہ ’آیاتِ نعت‘‘ اُن کی نعت کا اگلا پڑاؤ ہے۔ان کی نعت پر راقم الحروف کی نگرانی میں ایم فل اردو کا ایک مقالہ بعنوان ’’عزیز الدین خاکیؔ کی نعت نگاری‘‘اِسی سال رفاہ انٹر نیشنل یونیورسٹی فیصل آباد کیمپس سے وجیہہ رسول نے مکمل کر کے ڈگری حاصل کی ہے۔
حضور اکرم کی ذاتِ مبارک سے عقیدت و محبت نعت کا محوری اور مرکزی لازمہ ہے ۔ خاکی کے نعتیہ کلام میں جس کا اظہارفراواں طور پر ہُوا ہے اِس اظہار میں اُن کا مشاہدہ، معاصر نعت گوئی کی جانکاری اور مطالعے کے ساتھ اکابرین نعت کی صحبتوں کے اثرات اور ثمرات بھی ملتے ہیں ان کی نعت معاصر نعت خوانوں میں اسی سبب نمایاں ہے کہ انہوں نے نہ صرف نعت خوانی کے ساتھ نعت نگاری کے تقاضوں کا ادب و احترام ملحوظ رکھا بلکہ اپنی ہر تازہ کتابِ نعت میں زیادہ فنّی مہارت کا ثبوت دیا۔
عزیزالدین خاکی کی نعت کا جو پہلو قاری کو متاثر کرتا ہے وہ اُن کی شعری زمینیں ہیں یہ شعری زمینیں عام طور پر نعتیہ مجموعوں میں اس اندا ز میں( ان دنوں) کم کم نظر آتی ہیں ’ انداز‘ کا لفظ تھوڑی سی وضاحت چاہتا ہے نعت کے وہ شاعر جو دلپذیر لحن کاری سے سامعین کے دلوں کو گرماتے رہتے ہیں ۔ عام طور پر معروف اور مروجہ لے اور لب و لہجہ استعمال کرتے ہیں خصوصاً ایسے الفاظ جو حروف علت پر اور آسان لفظوں پر ختم ہوں جن کی ادائیگی اور جن کی سماعت پڑھنے اور سننے والوں کو بوجھل محسوس نہ ہوں۔ زیرِ نظر مجموعۂ نعت میں عزیزالدین خاکی نے جو شعری زمینیں ، ردیف، قوافی، تراکیب، محاکات، علامات استعمال کئے وہ قابلِ ذکر ہیں ان کی نعتیہ زمینوں میں بعض ایسی ہیں جن کے مصرعے دو مساوی الاوزان ٹکڑوں میں بٹ جاتے ہیں یو ں تکرار سے ان نعتوں میںصوتی خوش آہنگی کا اظہار ہوتا ہے یہ شعر دیکھئے:
——
ان پر درود بھیجو قرآن کہہ رہا ہے
احسان خود پہ کر لو قرآن کہہ رہا ہے
——
ہے سارا جہاں بھول جانے کے قابل
مدینہ ہے بس دل لگانے کے قابل
——
خاکی نے اپنی نعتوں میںجو ردیفیں استعمال کی ہیں وہ کئی اعتبارات سے متنوع ہیں۔ مثلاً اُن کی اسمائے رسول مقبول والی ردیفیں دیکھئے:
——
وباؤں نے ہمیں گھیرا ہے آ کر یا رسول اللہ
کرم فرمائیے ہم عاصیوں پر یا رسول اللہ
کرونا کی وبا نے اپنے پنچے گاڈ رکھے ہیں
خدارا دور کر دیجئے دلدر یا رسول اللہ
——
وہ حبیب خدا‘ احمد مجتبیٰ‘ خاص رب کی عطا‘ خاتم الانبیاء
اُن کے جیسا ہُوا ہے نہ ہو گا سدا مرحبا مرحبا‘ خاتم الانبیاء
——
اُن کی بعض ردیفوں میں درود و سلام کے تاثرات کو نمایاں کیا گیا ۔
——
جو مظہر ذات کبریا ہیں درُود اُن پر سلام اُن پر
کہ جو شہنشاہ دوسرا ہیں درُود اُن پر سلام اُن پر
——
خدا کی برسے گی رحمت درود پاک پڑھو
جب آئے کوئی مصیبت درود پاک پڑھو
——
اک درودوں کی تسبیح مَیں نے پڑھی اُس کی تاثیر سے
ایک محفل سجی اک چراغاں ہوا قلب سے روح تک
——
اُن کی کچھ ردیفیں تراکیب پر مشتمل ہے ۔
——
ہیں امام انبیاء وجہ وجود کائنات
یعنی وہ بدرالّدجیٰ وجہ وجود کائنات
——
کیا خوب مدینے کے مہکتے ہیں در وبام
سرکار کی نسبت سے چمکتے ہیں در و بام
——
بعض ردیفیںتکرار والی ہیں۔ایسی نعتوں میں داخلی خوش آہنگی یعنی الفاظ کے اپنے اُتار چڑھاؤ (Cadence)سے صوتی خوبصورتی کو ابھارا گیا ہے۔ ان کی نعتوں میں استعمال ہونے والی ردیفیں نصف مصرع پر بلکہ کہیں کہیں اس سے بھی بڑی ہیں۔ اس کی کچھ مثالیں دیکھئے:
——
ان کی خوشبو جا بجا ہے کیا زمیں کیا آسماں
مدحت خیرالورا ہے کیا زمیں کیا آسماں
——
مصطفیٰ آئے ہیں لے کر رحمتیں ہی رحمتیں
اس وسیلے سے ہیں گھر گھر رحمتیں ہی رحمتیں
مدحت مصطفیٰ ہے زمیں تا فلک
بس یہی غلغلہ ہے زمیں تا فلک
——
سرورِ سروراں آپ ہیں آپ ہیں
شافع عاصیاں آپ ہیں آپ ہیں
——
جو بزم نعت میں آئے عقیدت سے محبت سے
تو بہرہ مند ہو جائے عقیدت سے محبت سے
——
عزیزالدین خاکی کی نعتوں میںمحاکاتی عناصر بھی نمایاں ہیں یہ کہیں ردیفوں میںاورکہیں شعروں میں ظاہر ہوئے ہیں۔ بڑی شاعری ہمیشہ امیجز اور شعری تمثالوں سے جنم لیتی ہے ۔ ایسے مقامات پر شاعر اپنے احساسات اور جذبات و خیالات کی تصویر کشی لفظوں میں اس انداز سے کرتا ہے کہ قاری کے سامنے پورا منظر نامہ آ جاتا ہے بعض اوقات یہ تصویر اتنی جاندار ہوتی ہے کہ قاری اپنے آپ کو اس منظر نامے کا حصہ سمجھتا ہے جس میں وہ شعر تخلیق ہُوا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : صبا اکبر آبادی کا یومِ وفات
——
خاکی کے ہاں بعض ردیفیں منفرد ہیں۔ردیف چونکہ شعر کے معنوی ماحول کو سازگار کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے لہٰذا باکمال شاعر ردیف کے انتخاب میں اُس کے امکانات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خاکی نے کچھ ردیفیں ایسی استعمال کی ہیں جو نسبتاً مشکل ہیں لیکن خاکی نے اُن سے بھی نعت کے بڑے خوبصورت شعر تخلیق کیے یہ ردیفیں دیکھئے جن میں کہ بس، پیراستہ، ساختہ، یقینا،_آن بان اور بالخصوص جیسی ردیفوں سے نعتیہ شعر تخلیق کئے گئے ہیں۔مثلاً
——
سرور کونین کی وہ شان و عظمت ہے کہ بس
دم بخود ہے سارا عالم ایسی رفعت ہے کہ بس
——
کون ہے جو یوں ہُوا آراستہ پیراستہ
ہے وہ ذات مصطفیٰ آراستہ پیراستہ
——
جب لیا نام نبی بے ساختہ
کھل گئی دل کی کلی بے ساختہ
——
ہیں سب رونقیں مصطفی سے یقینا
چراغاں ہے خیرالورا سے یقینا
——
مہکے، کے قافیے کے ساتھ مکاں بھی مکیں بھی
برسی، کے قافیے کے ساتھ آن بان
——
ہو گیا صاحب‘ کھو گیا صاحب
عنایت بالخصوص، الفت بالخصوص
——
مَیں ان دنوں ’نعتیہ لسانیات‘ پر ایک کتاب کے حوالے سے سوچتا رہتا ہوں اس لئے میری توجہ معاصرِ نعت میں الفاظ، تراکیب، قوافی، ردیفوں اور نعت کی زمینوں میں تازہ کاری کے بارے میں متجسّس رہتی ہے۔ _خاکی کی نعت کے محاسن میں ان کی ردیفوں اور شعری زمینوں میں بڑا تنوع ملتا ہے یہ بات اہم ہے کہ یہ تنوع فطری انداز لئے ہوئے ہے اور ’تنوع برائے تنوع‘ نہیں یہ چونکا دینے کے لیے نہیں بلکہ خاکی کے تخلیقی مزاج میں اس کی جڑیں پیوست ہیں۔ اس کی ایک وجہ خاکی ؔکا خوش نما لحن ہے۔ انہوں نے تکرار والی ردیفوں سے نعت کی تاثیر کو ابھارا ہے اس طرح کی نعتوں میں اکثر اوقات سامعین بھی زیرِ لب شامل نعت ہو جاتے ہیں ایسی ردیفیں اہلِ محفل کے ذوقِ نعت میں اضافہ کرتی ہیں۔ مثالوں میںپورے شعر دینے کی بجائے یہاں ایسی چند شعری زمینوں کی نشاندہی کی جا رہی ہے:
——
خیرالورا کی رحمتیں، مصطفی کی رحمتیں
نگر ہے پیشِ نظر، سفر ہے پیشِ نظر
مختار کی رعنائیاں، سرکار کی رعنائیاں
لمحے یاد آتے ہیں، ذرّے یاد آتے ہیں
نعت نبی کی لذّتیں، زندگی کی لذّتیں
زندگی کا جنوں‘حاضری کا جنوں
خیرالبشر کا احترام، طیبہ نگر کا احترام
ہوا خبر ہے کسے، دعا خبر ہے کسے
ضیائے گنبد خضرا، برائے گنبد خضرا
——
یہ بھی پڑھیں : عزیز احمد کا یوم پیدائش
——
عزیزالدین خاکی نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ کی سیرتِ مبارکہ ،درودِ پاک، مدینہ منورہ، آپ کے اسوہ حسنہ اور نعت کے دوسرے مضامین پر بڑے خوبصورت شعر کہے ہیں ان شعروں میں بعض معاشرتی ،سماجی، مذہبی اور عصری حوالوں سے کئی دلکش تصویریں پڑھنے والوں کو متاثر کرتی ہیں۔درج ذیل شعر دیکھئے:
——
کرم سید ابرار ہُوا نعت ہوئی
اُن کے دربارسے اک اور عطا نعت ہوئی
——
ہیں مدینے میں چھما چھم رحمتوں کی بارشیں
ہو رہی ہیں خوب پیہم رحمتوں کی بارشیں
——
پُرکیف زندگی ہے دوبارِ مصطفی میں
ہر دم نئی خوشی ہے دربارِ مصطفی میں
——
وہی ہیں رہبر اعظم بہ ہر صورت پہ ہر عنواں
وہی ہیں ہادیٔ اکرم بہ ہر صورت پہ ہر عنواں
——
تابندگی ہے آٹھویں پہر روشنی ہے آٹھویں پہر
خیرالبشر سے رابطہ ان کے در سے رابطہ
——
سیّد ابرار کا صدقہ پیکر انوار کا صدقہ
تابندگی پھلے پھولے‘ روشنی پھلے پھولے
——
گوشہ گوشہ مبارک‘ چپہ چپہ مبارک
جنتی باب السّلام‘ برتری باب السّلام
——
بحیثیتِ مجموعی زیرِ نظر مجموعہ ’’آیاتِ نعت‘‘ خوش آئند ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت و محبت کا مظہر،_فنی پختگی اور مہارت کا عکاس،نعت کی شعری جمالیات کا مظہر۔ خاکی کی نعت سنبھلے ہوئے اندازِ نعت کی شاعری ہے عام نعت خوانوں کے مروّجہ اسالیب سے آگے کی خیراندوختہ، آراستہ اور یقینا جیسی ردیفوں سے نعتیہ جمالیات کشید کرنے والے شاعر نے فکر و فن کے خوشگوار امتزاج سے جو شاعری تخلیق کی ہے وہ نعت کے باب میں ان کے روشن مستقبل کی علامت ہے اللہ تعالیٰ انہیں توفیقات مزید سے نوازے(آمین)۔خاکی کے نعتیہ مجموعے کے بارے میں مَیں اپنے تاثرات اس رباعی پر ختم کرتا ہوں۔
——
ہر نعت‘ محبتِ شہہ طیبہ کی
تصویر ہے ایک نسبتِ آقا کی
لاریب! ثنا تری‘ عزیز خاکی
تمثیل ہے جذبۂ گراں مایہ کی
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔