پیکار ہے وہ ہم سے کوئی دوسرا نہیں

یہ حادثہ ہمارے لئے اب نیا نہیں تجھ سے جُدائی کے اُسی اِک فیصلے کے بعد میں خود بھی اپنے ساتھ کبھی پھر رہا نہیں جاں اِک اندھیری غار ہے تجھ بن مِرے لئے دِل ایک ایسا طاق ہے جس میں دِیا نہیں دیوارِ شب میں یوں تو کئی چھید تھے مگر کوشش کے باوجود […]

موت کا سر پہ تاج لینا ہے

زندگی سے خراج لینا ہے وہ سخی ہے نواز دے شاید بے کلی کا علاج لینا ہے تجھ لئے دل تو کیا ہے جاں حاضر کر ذرا احتجاج لینا ہے آنکھ اُکتا گئی اندھیروں سے روشنی کو رواج لینا ہے کل کا کیا اعتبار ہے اشعرؔ جو بھی لینا ہے آج لینا ہے

چاند کی اُلفت میں پاگل ہو گئی

رات کی جاگی ہوئی تھی سو گئی اسقدر پھیلے جھمیلے آس پاس ذہن میں اِک یاد تھی سو کھو گئی اُٹھ گئے سوچوں سے یادوں کے قدم دھوپ سایوں کے تعاقب کو گئی رات آنکھوں‘‘ میں اُداسی کی لکیر’’ شام گہری ، کتنی گہری ہو گئی خودنمائی دو (۲) دلوں کے درمیاں بیج اشعرؔ نفرتوں […]

غدر سے بے خبر نہیں ہونا

بدعائے بشر نہیں ہونا منزلوں کا سُراغ بھی رکھنا صرف گردِ سفر نہیں ہونا تان رکھنا وجود پر چھایا ماسوائے شجر نہیں ہونا شام بننا کوئی سُہانی سی جون کی دوپہر نہیں ہونا صحرا کی خشکیوں سے چکرا کر پانیوں کا بھنور نہیں ہونا مرتضیٰ لوگ روند ڈالیں گے اتنے بھی بے ضرر نہیں ہونا

لکیریں تھیں کچھ اور کچھ دائرے

بدلتے رہے آنکھ کے زاویے جنہیں زعم تھا موم سے جسم پر انہوں نے کئے سورجوں سے گِلے امیروں کے لاکرز میں دھن کے ساتھ غریبوں کے ارمان بھی بند تھے محبت کی ہے میں نے اُس سے اگر ضروری نہیں وہ بھی چاہے مجھے تجھے ساتھ لے کر چلوں کس طرح مِرے سر پہ […]

تیغ اپنوں نے چھینی تھی

ورنہ جیت یقینی تھی رات سحر تک مہکا ہوں اُس کی خوشبو بھینی تھی ہم فرسودہ کہلائے اپنی خصلت دینی تھی نازک ہاتھ جلا ڈالے چائے لازم پینی تھی پریوں سے سُندر تھا رُوپ لیکن خلق زمینی تھی کس سُرعت سے درد ملے وقت کی کوکھ مشینی تھی

خسارہ بھی اگر ہو منفعت کہنا

محبت کو کبھی آزار مت کہنا کبھی آہٹ کو دستک جاننا دل کا کبھی یوں ہی کسی پُرزے کو خط کہنا تم اپنے سر کوئی الزام مت لینا جُدائی پر تھے میرے دستخط کہنا خطائیں ٹھیک ہیں اپنی جگہ لیکن محبت میں غلط ہے معذرت کہنا سنو! پہلے مجھے تسخیر کر لو تم پھر اُس […]

ہوا چیر دیتی ہے اِس شہر کی

فضا موت جیسی ہے اِس شہر کی لہو کے سمندر سے شمشان تک ملاقات ہوتی ہے اِس شہر کی خرابوں کے اوراق پر گونجتی ادھوری کہانی ہے اِس شہر کی یہاں خواب اُگنے کا موسم نہیں بڑی بانجھ دھرتی ہے اِس شہر کی سُنا ہے ابھی تک یہاں اِک گلی مری منتظر تھی ، ہے […]

جو عبث ہم پہ رہا شک اُس کا

ہے نہیں ہم کو گِلہ تک اُس کا خود کو محدود کیا ہے اُس تک ہے مری ذات پہ بس حق اُس کا روز آتا تھا وہ تجھ سے مِلنے یوں تو تھا دور بہت چک اُس کا وہ ترے پیار کا دم بھرتا ہے تو بھی کچھ مان کبھی رکھ اُس کا وہ جسے […]

چلو شاید کہ منزل کا نشاں ہے

نہیں تو یہ مسافت رائیگاں ہے نہ ہی تم میں سکت طوفاں سے لڑ لو نہ اپنے پاس کوئی بادباں ہے فقط ہم نام دینے سے ہیں قاصر تعلق تو ہمارے درمیاں ہے میں باسی ہوں کسی بنجر زمیں کا مقابل میرے پیاسا آسماں ہے نہیں ہوتی اسیرِ وقت اشعرؔ محبت دائمی ہے ، جاوداں […]