اپنے پندار کا در توڑ دیا میں نے بھی

بے لباس اپنا بدن دیکھ لیا میں نے بھی بے حسی کا کوئی مشروب تھا سب ہاتھوں میں زہر سمجھو کہ دوا ، پی ہی لیا میں نے بھی آدمی تھا میں فرشتہ تو نہیں تھا آخر جس طرح جیتے ہیں دنیا میں جیا میں نے بھی کرتے جاتے تھے سبھی کشتِ تمنا سیراب اپنی […]

سرحدِ شہر قناعت سے نکالے ہوئے لوگ

کیا بتائیں تمہیں کس کس کے حوالے ہوئے لوگ اپنی قیمت پہ خود اک روز پشیماں ہوں گے سکّۂ وقت کی ٹکسال میں ڈھالے ہوئے لوگ آئینوں سے بھی نہ پہچانے گئے کچھ چہرے آتشِ زر میں جلے ایسے کہ کالے ہوئے لوگ کب سے ہے میرے تعاقب میں دہن کھولے ہوئے ایک عفریت شکم […]

یہ طبیعت مجھے اپنا نہیں بننے دیتی

جیسے سب ہیں مجھے ویسا نہیں بننے دیتی آنکھ ایسی ہے کہ دیکھے نہیں جاتے حالات سوچ ایسی ہے کہ اندھا نہیں بننے دیتی دُور اندر سے کہیں ایک اُبھرتی ہوئی چیخ میرے احساس کو بہرا نہیں بننے دیتی ظلم ایسا ہے کہ دنیا کی زبانیں خاموش یہ خموشی مجھے گونگا نہیں بننے دیتی دلِ […]

اُسی حوالے سے ہر بار میں نشانہ ہوا

جسے بھلائے ہوئے بھی مجھے زمانہ ہوا یہ خوئے دربدری تو مرے مزاج میں تھی کسی کا مِل کے بچھڑنا تو اک بہانہ ہوا نکل سکا نہ اک اندیشۂ فراق سے عشق خیالِ وصل کبھی حرفِ مدعا نہ ہوا وفا تو محوِ ستائش تھی اس کو کیا معلوم جمالِ یار حقیقت سے کب فسانہ ہوا […]

بازی انا کی، بھوک سے کیسی بری لگی

بھوکا بُرا لگا، کبھی روٹی بری لگی خانہ بدوشیوں کے یہ دکھ بھی عجیب ہیں چوکھٹ پر اپنے نام کی تختی بری لگی روشن دریچے کر گئے کچھ اور بھی اداس صحرا مزاج آنکھ کو بستی بری لگی دشمن کی ناخدائی گوارا نہ تھی ہمیں غرقاب ہوتے ہوتے بھی کشتی بری لگی خود پر دیارِ […]

عجیب قاعدے ہجرت! تری کتاب میں ہیں

خسارے دونوں طرف کے مرے حساب میں ہیں یہ طے ہوا ہے کہ اب اُس کی ملکیت ہوں گے وہ سب علاقے جو میری حدودِ خواب میں ہیں نہ تشنگی میں کمی ہے، نہ پانیوں کی کمی عذاب میں ہیں کہ پیاسے کسی سراب میں ہیں تجھے ہی رکھتے ہیں قلب و نظر کے آگے […]

ملول خاطر و آزردہ دل، کبیدہ بدن

شب وصال میں روتے ہیں غم گزیدہ بدن علاج زخم تمنا کو چاہئیے مرہم قلم کی نوک سے سلتے نہیں دریدہ بدن اٹھائیں شاہ پہ کیسے ہم انگلیاں لوگو جلوس شاہ میں عریاں ہیں برگزیدہ بدن شرف یہ ملتا نہیں ہر کشیدہ قامت کو کہ اترے دارکے تختے سے سر بریدہ بدن یہ انکساری نہیں […]

کارِ وفا محال تھا، ناکام رہ گیا

قصّہ مرا بھی تشنۂ انجام رہ گیا شب کو بھی میں چھڑا نہ سکا رہن درد سے دن بھی اسیر گردشِ ایّام رہ گیا ظلمات پُر فریب میں اُلجھی رہی نظر محروم دید ماہ سر بام رہ گیا تصویرِ جاں کو حسرتِ تکمیل ہی رہی اک نقشِ آرزو تھا کہ بس خام رہ گیا تکتا […]

کسی بھی عشق کو ہم حرزِ جاں بنا نہ سکے

انا کا بوجھ تھا اتنا کہ کچھ اٹھا نہ سکے فصیلیں ساری گرا دیں جو درمیان میں تھیں دلوں کے بیچ کی دیوار ہی گرا نہ سکے ہزار حرفِ خوش آہنگ تھے بہم لیکن مزاجِ کلک کی تلخی کبھی چھپا نہ سکے سبھی کے غم کئے تصویر ہم نے شعروں میں کسی کے غم کا […]

بے سمت کاوشوں کا ثمر دائرے میں ہے

محور نہیں ہے پھر بھی سفر دائرے میں ہے دُہرا رہے ہیں خود کو عروج و زوالِ دہر عالم تمام زیر و زبر دائرے میں ہے کہنے کو انجمن ہے شریکِ سخن ہیں لوگ ہر شخص اپنے اپنے مگر دائرے میں ہے سونپی تھی راز دان کو، آ پہنچی مجھ تلک معلوم یہ ہوا کہ […]