تڑپ رہے ہیں یہاں ہزاروں

پہنچ رہے ہیں وہاں ہزاروں عجیب در ہے کہ جس کے زائر نِہاں ہزاروں عیاں ہزاروں غلام تھے سرفروش ان کے جو لکھ گئے داستاں ہزاروں قلوب میں عشقِ احمدی کے نجوم ہیں ضو فشاں ہزاروں رواں دواں ہیں ہر ایک جانب یقین کے کارواں ہزاروں عزیزؔ تم نعت کیا کہو گے ہیں ان کے […]

ہے رخشِ سخن مدحتِ آقا کے سفر میں

صد شکر کہ ہے روح، بہاروں کے اثر میں طیبہ کا سفر باعثِ شادابیٔ دل تھا عُشاق کو اب چین مُیَّسر نہیں گھر میں وہ پیروِ سرکار کبھی ہو نہیں سکتا جو ڈھونڈتا پھرتا ہے سکوں لعل و گہر میں وہ عشق جو پہنچائے درِ شاہِ ہدیٰ تک تنویر اسی کی ہو مرے شام و […]

نالۂ درد مرا زود اثر ہو جائے

کاش آقا کی مری سمت نظر ہو جائے ہجرِ طیبہ میں گریں آنکھ سے جتنے آنسو کرمِ شاہ سے ہر ایک گُہر ہو جائے! خواب دیکھوں تو مدینے کی زمیں کے دیکھوں دل بھی طیبہ کی کوئی راہ گزر ہو جائے! وہ جو چاہیں تو یہ اِدبار کی گھڑیاں ٹل جائیں چند لمحوں میں مری […]

خرد کی تیرہ شبی کی اگر سحر ہو جائے

تو روح عشقِ محمد سے معتبر ہو جائے یقیں کے ساتھ اٹھیں ہاتھ جب دعا کے لیے قفس کی آہنی دیوار میں بھی در ہو جائے خجل ہو قوم عمل پر تو مہربان ہو رَبّ ہر آنکھ فرطِ ندامت سے خوں میں تر ہو جائے لہک لہک کے جو آقا کا نام لیتے ہیں اب […]

شمیمِ ذوقِ عمل مدتوں سے آئی نہیں

نمودِ عشق ہمالہ، خلوص رائی نہیں تڑپ رہا ہے یہ دل حاضری کو مدت سے پہنچ کے روضے پہ رُودادِ غم سنائی نہیں مجھے نصیب نہیں آفتاب کا پر تو شبِ سیاہ میں لمعات کی رسائی نہیں ہم اپنا حال بدلنے کا عزم ہار گئے اگرچہ کون سی ذلت ہے جو اُٹھائی نہیں بجا کے […]

قائم ہو جب بھی بزم حساب و کتاب کی

میں شان دیکھ پاؤں رسالت مآب کی! ہاں میں بھی سر جھکائے کھڑا تھا حضورِ شاہ ! لگتا ہے یوں کہ جیسے یہ باتیں ہوں خواب کی! خوں رنگ ہو گئی ہے حضوری کی آرزو! شاید اسے نصیب ہو صورت گلاب کی! ایماں کے ساتھ جس نے عمل سے کیا گریز اس نے تو اپنی […]

نگاہِ قہر سے دیکھیں ہیں آج سب مجھ کو

ترے کرم کی ضرورت ہے میرے رب مجھ کو متاعِ دیں کی حفاظت بھی ہو گئی مشکل ستا رہے ہیں شیاطین روز و شب مجھ کو مجھے ہو اُسوۂ خیرالبشر کی بھیک عطا! خطا تھی میری کہ پہلے نہ تھی طلب مجھ کو میں جانتا ہوں مکافات ہے عمل کی مرے ستا رہا ہے زمانہ، […]

دعا کو بھیک مل جائے اثر کی

ملے توفیق طیبہ کے سفر کی شعور پیرویٔ مصطفی دے! مرے اللہ ! سن لے چشمِ تر کی! وہی اُسوہ رہے پیہم نظر میں کہ جس پر ہے بِنا اُجلی سحر کی! ضرورت ہے مری تاریکیوں کو ابو القاسم کی سیرت کے قمر کی! گزرنا ہے جہانِ آب و گِل سے الٰہی خیر ہو میرے […]