اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعرہ بشریٰ فرخ کا یومِ پیدائش ہے

 بشریٰ فرخ(پیدائش: 16 فروری 1957ء )
——
بشری فرخ پاکستانی شاعرہ ہیں جن کا تعلق پشاور سے ہے ۔ آپ نامور ٹی وی کمپئر ، اداکارہ ، شاعرہ اور سفرنامہ نگار ہیں۔ انھوں نے بطور میزبان پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان کی خدمت کی ہے۔ وہ خیبر پختونخوا کی فنکارہ ہیں جنہوں نے ٹیلی ویژن اور ریڈیو میں چار مختلف زبانوں اردو ، پشتو ، ہندکو اور انگریزی میں فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ بشری فرخ نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے بہت سے پروگرام کیے ہیں۔ ان کے پروگرام خاص طور پر نوجوانوں میں بہت مقبول رہے ہیں۔بشری فرخ کے نو شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔
آپ 16 فروری 1957 کو پشاور ، صوبہ خیبر پختون خواہ میں پیدا ہوئیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف پروڈیوسر فرخ سیر سے شادی ہوئی۔ 40 سالوں سے ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن سے وابستہ ہیں۔آپ کو پاکستان ٹیلی ویژن پشاور سنٹر کی پہلی اناونسر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔آپ نے پاکستان ٹیلی ویژن پشاور سنٹر کے اردو ، پشتو اور ہندکو ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔اپنے شوہر فرخ سیر کی وفات کے بعد شعر گوئی کی طرف مائل ہوئیں۔آپ کا ایک سفر نامہ اور 8 شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔آپ کو خیبر پختون خواہ کی پہلی صاحب کتاب شاعرہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ملکی اور غیر ملکی سطح پر کئی مشاعروں اور کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکی ہیں۔آپ کی ادبی خدمات کے حوالے سے پشاور یونی ورسٹی اور قرطبہ یونی ورسٹی میں ایم اے اور ایم فل کی سطح مقالے لکھے جا چکے ہیں۔ آپ "کارواں حوا لٹریری فورم” کی چیئر پرسن بھی ہیں۔
پی ٹی وی پشاور سنٹر میں 10 سال بطور میزبان خدمات انجام دیں اور 35 سال تک ڈراما آرٹسٹ کی حیثیت سے کام کیا۔
بطور میزبان، کمپیئر اور 35 سال تک ڈرامہ آرٹسٹ کی حیثیت سے ریڈیو پاکستان کی خدمت کی۔
خواتین مصنفین فورم (Women writer’s Forum) کی جنرل سکریٹری کی حیثیت سے 3 سال تک خدمات انجام دیں۔ ایک سال خواتین مصنفین فورم کی ناظم اعلی کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
تعلقات عامہ کے افسر کی حیثیت سے 2 سال تک بزنس وومن ایسوسی ایشن سے جڑی رہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف کمپیوٹر مینجمنٹ سائنسز (آئی سی ایم ایس) کے ساتھ تعلقات عامہ کے افسر کی حیثیت سے دو سال تک خدمات انجام دیتی رہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف کمپیوٹر مینجمنٹ سائنسز حیات آباد پشاور نے بطور انچارج ادبی ونگ آئی سی ایم ایس (ICMS) ایک سال تک خدمات حاصل کیں۔
——
تصانیف
——
اک قیامت ہے لمحہ موجود(اردو شاعری)
ادھوری محبت کا پورا سفر(اردو شاعری)
بہت گہری اداسی ہے(اردو شاعری)
محبتاں دے مزاج وکھرے(ہندکو شاعری)
جدائی بھی ضروری ہے(اردو شاعری)
مجھے آواز مت دینا(اردو شاعری)
ورفعنا لک ذکرک(اردو نعتیہ مجموعہ)
تو کجا من کجا(اردو نعتیہ مجموعہ)
خمینی کے ایران میں(اردو سفر نامہ)
——
یہ بھی پڑھیں :
——
اعزازات
——
اباسین آرٹس کونسل ادبی ایوارڈ 2017-2018
سردار عبدالرب نشتر ایوارڈ
ہندکو ورلڈ کانفرنس ایوارڈ 2005
بزم بہار ادب سلور جوبلی ایوارڈ 2005
سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ ایوارڈ
فروغ ادب ایوارڈ
روزن انٹرنیشنل لٹریری ایوارڈ
تانگھ وسیپ ایوارڈ
خیبر کالج آف کامرس شیلڈ
عظیم ویلفیئر سوسائٹی ایوارڈ
پی ٹی وی بہترین کارکردگی ایوارڈ 1998
موسیقار اعظم ایوارڈ 1997
ایگفا ایوارڈ 1997
فرنٹیئر کلچرل کلب ایوارڈ
فرنٹیئر آرٹس کونسل ایوارڈ
میر آرٹس کونسل ایوارڈ
کوکا کولا ایوارڈ 1978
سلطانی ایوارڈ 1976
قومی سیرت ایوارڈ
خوشحال خان خٹک ایوارڈ
روزن انٹر نیشنل ایوارڈ
طاہر کلانچوی ایوارڈ
——
بشریٰ فرخ کا شعری مجموعہ’جدائی بھی ضروری ہے’:تحقیقی و تنقیدی جائزہ
تبصرہ نگار : بادشاہ منیربخاری
——
"بہت گہری اداسی ہے” بشریٰ فرخ کا تیسرا شعری مجموعہ ہے۔اس سےپہلےان کےدوشعری مجموعے "اک قیامت ہےلمحہ موجود” اور "ادھوری محبت کا سفر” چھپ چکے ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب انتہائی خوبصورت گیٹ اپ چھپی ہے جس سے کتاب دیکھنےوالےکی جمالیاتی حِس کو یقیناً تحریک ملتی ہے۔ بشریٰ فرخ پشاور کی شاعرات میں کافی شہرت یافتہ ہو گئی ہیں اور اوپرتلےتین شعری مجموعوں کی اشاعت سے بھی ان کی شہرت میں اضافہ ہوا ہے، ان کی شہرت کی بنیادی وجہ ٹی وی سے ان کی وابستگی ہے۔ بشریٰ فرخ کی شاعری میں ایک عورت بولتی ہے۔ اور یہی ان کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی بھی ہے اس لیے کہ ہمارے ملک کی شاعرات کی شاعری میں سب کچھ ہوتا ہے صرف عورت نہیں ہوتی، جبکہ بشریٰ فرخ کی شاعری پڑھتے ہوئے ہمیں یہ گلہ نہيں ہوتا، ان کی شاعری فکروفلسفہ سے زیادہ زمینی حقائق پر مبنی ہے۔ جہاں گوشت پوست کا انسان رہتا ہے، سوچتا ہے، دکھی ہوتا ہے، کبھی موسم، کبھی جدائی اور کبھی لاحاصلی کا دکھ اسے کچھ کھنے پر مجبور کردیتا ہے اس پر مستزاد اگر یہ دکھ کسی عورت کا ہو اور اس کا بیان شاعری میں ہو تو یقیناً اس کی بہترین صورت بشریٰ فرخ کی شاعری ہے۔
——
یہ دو لفظوں کا رشتہ نبھ تو جاتا ہے مگر بشریٰ
کہیں جیون نہیں ملتا، کہیں ساتھی نہیں ملتا
کبھی ہم بھی تو بشریٰ کہکشاں قدموں میں رکھتے تھے
زمیں پر آسماں سے، وقت نے کیسے گرایا ہے
——
کہتے ہیں شاعری اظہار کرب کا بہترین ذریعہ ہے۔ چاہے یہ ذات کے اندار کا دکھ ہو یا بیرون ذات ہونے والے حادثات و واقعات، ہر حال میں چند خارجی عوامل ہی ذات کی گہرائیوں میں مختلف شکلوں میں جمع ہوتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ داخلی دکھ بھی خارج کے اعمال کے نتیجے میں بنتا ہے، شاعری اسی جمع ہوتے رہنے والے طوفان کوماخذمل جانے کی نوید ہے۔ شاعری کی خوبصورتی یہی ہے کہ خارج سے جتنا مواد ملتا ہے وہ خام مال کی طرح بدوضع، ٹوٹا پھوٹا اور بدنما ہوتا ہے لیکن جب شاعر کے دل پر چوٹ بن کر پڑتا ہے تو وہ کسی ماہر کاریگر کی طرح اسے تراش خراش کے خوبصورت فن پارے کی صورت میں واپس بیھجتا ہے، پھر وہ دکھ کسی حسین کسک کی صورت میں مشام جاں مہکاتا ہے اور شعر بن کر ہونٹوں پر گنگناتا ہے، بشریٰ فرخ کی شاعری بھی دراصل اسی کسک کی پیداوار ہے۔
——
جس شہزادے نے چنوایا فرقت کی دیواروں میں
مرتے دم تک سارے زندہ جذبے اس کے نام رہے
دل کی لوح پر نقشیدہ ہر لفظ محبت میں بشریٰ
زبریں،زیریں،پیشیں، نقطے، سارے اس کے نام رہے
——
بشریٰ فرخ کے تینوں شعری مجموعوں میں ایک قدر مشترک اداسی کی وہ لہر ہے جس نے ان کی شاعری میں فطری روانی پیدا کر دی ہے۔ وہ اپنی ہر غزل میں اور ہر نظم میں اس لہر کو ساتھ رکھتی ہیں، یقیناً اس لہر کی کچھ حقیقت رہی ہو گی، مگر کچھ ذاتی غم جب تحریر کی ردااوڑھ لیتے ہیں تو وہ پھر ذاتی نہيں رہتے آفاقی بن جاتے ہیں، بشریٰ کی شاعری میں اس کے دکھوں اور غموں نے وہ درجہ تو حاصل نہیں کیا کہ ہم انہیں آفاقی کہیں لیکن ان کے درد، دکھ اور غم ان کے شعروں میں صرف ان کے اپنے ذات کا استعارہ نہیں ہیں بلکہ آج کے وفا شعار عورت کا نوحہ ہیں جسے دیکھا بھی جا سکتا ہے اور محسوس بھی کیا جا سکتا ہے۔ بشریٰ کی شاعری میں ایک وسیلے نے اپنا ڈیرہ جمایا ہوا ہے ان کے جو اشعار اس وسیلے سے مملو ہیں وہ دل سے نکلتے ہیں اور دل میں جا بیٹھتے ہیں۔ جبکہ باقی شعر بھرتی کے معلوم ہوتے ہیں۔ ان کی شاعری کی عمر غالباً اتنی زیادہ نہیں ہے لیکن اس کم عرصے میں بھی وہ اپنی پہچان کرواگئی ہيں، یہ کامیابی کم فنکاروں کو نصیب ہوتی ہے۔
——
تمہارے دسترس میں تھی بہت دن
اب اپنے ساتھ رہنا چاہتی ہوں
کبھی دل بن کے آؤ مجھ میں دھڑکو
یہ اک پتھر سے کہنا چاہتی ہوں
پہلا زخم ہے آنکھوں سے بہنے دے لہو
رفتہ رفتہ غم چھپانے کا ہنر آ جائے گا
——
زیرتبصرہ کتاب میں فنی حوالے سے بیشتر مقامات پر خامیاں کھٹکتی ہیں، کچھ اشعار میں وزن کا مسئلہ، چند مقامات پر تعقید، اور کچھ شعروں اور نظموں میں غیر شاعرانہ لہجہ جس سے کتاب کا مجموعی تاثر مجروح ہو جاتا ہے۔ اچھی شاعری میں یہ عیوب نمایاں نظر آتے ہیں۔ بہرحال ان کا زیرتبصرہ مجموعہ ان کے گزشتہ مجموعوں کے مقابلے میں پختہ کاری کا مظہر ہے۔
——
منتخب کلام
——
طیبہ کو ہی ہم راہ گزر کرتے رہے ہیں
یوں حق و صداقت کا سفر کرتے رہے ہیں
انداز ترے حُسنِ تکلم کے عجب تھے
جو دشمنِ جاں پر بھی اثر کرتے رہے ہیں
——
کہتی رہوں آقا میں تری نعت مسلسل
ہوتے رہیں یہ کشف و کرامات مسلسل
کٹ جاۓ سہولت سے، اگر جود و کرم کی
مِلتی رہے بس آپ سے خیرات مسلسل
——
اک اذیت ہے تو لذت بھی ترے درد میں ہے
بے سکونی میں بھی آرام بہت آتا ہے
——
یہ کوئی تازہ انکشاف نہ تھا
دل مرا کب مرے خلاف نہ تھا
باتوں باتوں میں بڑھ گئی تھی بات
ورنہ کچھ اُن سے اختلاف نہ تھا
——
چند گھڑیاں ترے کوچے میں گزار آتے ہیں
تو سنے یا نہ سنے تجھ کو پکار آتے ہیں
درد کی چھاؤں میں کھلتے یہ اداسی کے کنول
دل کے موسم کو ذرا اور نکھار آتے ہیں
——
ابھی جذبوں کی لے مدھم سُروں میں بولتی ہے
اسے شوریدہ سر ہونے میں کچھ دن تو لگیں گے
مہارت آپ کی اپنی جگہ ہے خوب لیکن
ہُنر کو معتبر ہونے میں کچھ دن تو لگیں گے
——
بڑی مکمل و محدود تھی مری دنیا
کہ زندگی تھی ترے بازوؤں کے گھیرے میں
——
اُن سے کچھ رابطہ تو باقی ہے
درد کا سلسلہ تو باقی ہے
پیار کی کچھ سزا تو باقی ہے
زندگی کا مزہ تو باقی ہے
——
بہت روکا اسے ہم نے مگر اس دل نے چپکے سے
ہواؤں کو کسی کے نام اک پیغام دے ڈالا
گُلوں کو چھوڑ کر تھا خار چُننا کس قدر مشکل
مگر ہم نے یہ مشکل کام بھی انجام دے ڈالا
——
نئے سرے سے روابط بحال کیا کرنا
جو کل گزر گیا اس کا ملال کیا کرنا
ذرا سی بات ہے ، اُس نے بھلا دیا مجھ کو
ذراسی بات کو جی کا وبال کیا کرنا
بغیر اُس کے بھی یہ داستان مکمل ہے
کتابِ ہجر میں بابِ وصال کیا کرنا
——
کہانی سے وہ یوں انصاف کرتا جا رہا ہے
خوشی کے بعد غم کا رنگ بھرتا جا رہا ہے
دلِ بُشریٰ میں تیرا پیار وہ چڑھتا سمندر
جو دریاؤں ، ندی نالوں کو بھرتا جا رہا ہے
——
ایک تُو ، ایک تیرا پیار بہت کافی ہے
اپنا چھوٹا سا یہ سنسار بہت کافی ہے
سچے جذبوں کو ضرورت نہیں گویائی کی
لبِ خاموش کا اظہار بہت کافی ہے
کچھ نہیں چاہیے یہ عمر سر کرنے کو
چند لمحوں کا ترا پیار بہت کافی ہے
——
بظاہر تجھ سے ملنے کا کوئی امکاں نہیں ہے
دلاسوں سے بہلتا یہ دل ناداں نہیں ہے
چمن میں لاکھ بھی برسے اگر ابر بہاراں
تو نخل دل ہرا ہونے کا کچھ امکاں نہیں ہے
ہوائے وقت نے جس بستئ دل کو اجاڑا ہے
اسے آباد کرنا کام کچھ آساں نہیں ہے
وہ اک دیوار ہے حائل ہمارے درمیاں جو
کسی روزن کا اس میں اب کوئی امکاں نہیں ہے
اگرچہ کھا گئی دیمک غموں کی بام و در کو
مگر ٹوٹی ابھی تک یہ فصیل جاں نہیں ہے
تمہاری روح بشریؔ قید ہے تن کے قفس میں
اسے آزاد کرنا معجزہ آساں نہیں ہے
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ