تصورات کے جنگل سے راستہ نکلے

کبھی مدار سے باہر بھی بھیڑیا نکلے ترا بھلا ہو کہ تیری وضاحتوں کے سبب مری شکست کے پہلو ہزارہا نکلے تھی ایک عمر میں خواہش کہ کھل سکے کوئی پر اب کے خوف ہے لاحق کہ کون کیا نکلے کبھی زمین پہ جم کر کھڑے بھی ہو پائیں چبھا ہوا ہے جو کانٹا جنون […]

میں نے سپردِ خاک کیے آخری کنول

پھر دفن ہو گیا ہوں دفینے کے ساتھ ہی شرمندگی میں شکل عیاں ہو گئی مری سب رنگ بہہ گئے ہیں پسینے کے ساتھ ہی ساحل پہ کون ہے کہ سنے گا بھلا مجھے ڈوبے گی یہ صدا بھی سفینے کے ساتھ ہی دگنا ہے میرا کرب غمِ آگہی کہ میں مر کر بھی دیکھتا […]

خیال و خواب سے آگے گماں سے بالاتر

یہ خآمشی ہے مری جاں بیاں سے بالاتر تمہاری کھوج میں پرواز کر کے آ پہنچا میں لامکان سے آگے، مکاں سے بالاتر عجیب ضد ہے کہ اک بار جا کے دیکھ سکوں جہاں نظر نہیں جاتی وہاں سے بالاتر میں دھول چاٹ رہا ہوں تمہاری خواہش پر مری تو خاک بھی تھی آسماں سے […]

غربت کا بھی احساس کہاں شہر بدر کو

پھرتا ہے جنوں دوش پہ لادے ہوئے گھر کو دھڑکن ہے کہ حلقوم میں پھر گونج رہی ہے اب کون سی حسرت ہے دلِ سوختہ سر کو اس شہرِ فراموش میں کیا فرق رہا ہے کس طور جدا جانئے دیوار سے در کو دل کھول کے رونے کے تعیش کی ہوس میں اب اور نچوڑوں […]

شکوہِ ترکِ آرزو نہ گلہ

ان کوئی بات ہی نہیں باقی بات باقی بھی ہو کیا کہیے جب یہاں کوئی بھی نہیں باقی محفلِ شب میں خاک اڑتی ہے چاند میں روشنی نہیں باقی شعر لفظوں کا جھمگٹا ٹھہرے فکر میں دل کشی نہیں باقی جس قدر فاصلے ابھر آئے اس قدر زندگی نہیں باقی اب جنوں مصلحت پرست ہوا […]

وحشتِ بے پناہ سے بڑھ کر

آرزو کیا ہے آہ سے بڑھ کر چشمِ صحرا نورد میں تم تھے خوابِ آب و گیاہ سے بڑھ کر میں ترے وار کارگر کرنے آ رہا ہوں سپاہ سے بڑھ کر آن پہنچا فریبِ منزل تک واہمہ ہائے راہ سے بڑھ کر میں تری خامشی کو سنتا تھا دیکھتا تھا نگاہ سے بڑھ کر […]

کیا مرگ و نیستی ہے تو کیا بود و ہست ہیں

یہ فاصلے جنوں کے لیے ایک جست ہیں ہم پر کوئی بھی مان کوئی بھی یقین کیا ہم لوگ عشق پیشہ و وحشت پرست ہیں سر ہو چکیں تو علم ہوا ہم کو صاحبو یہ چوٹیاں بھی کرب کی قامت سے پست ہیں ہم کو ترے وجود سے کیا چاہیے کہ ہم اپنی فنا کے […]

جنوں کے ساتھ ابھی تک ہیں سلسلے گویا

تمہارے لمس کے سورج نہیں ڈھلے گویا حریمِ حرف کوئی تان بخش دے اب تو ترے ریاض میں اب کٹ چکے گلے گویا بس اپنا آپ لپیٹا تھا زادِ رہ کہہ کر بدن مٹا کے تری راہ پر چلے گویا تری تلاش کے رستوں میں جذب ہو ہو کر سرک سرک کے سمیٹے ہیں فاصلے […]

کیا تغزل تھا اس تکلم میں

بولتا تھا کوئی ترنم میں بہہ گیا جامِ ضبط سے آخر اور میں جذب ہو گیا تم میں آسماں گر پڑا ہے دھرتی پر اور میں پِس گیا تصادم میں عادتاً کھِنچ گئے تھے لب میرے کچھ معانی نہ تھے تبسم میں احمقو ، ناخدا بدلنے سے فرق کیا آگیا تلاطم میں

تم نہ عریاں ہوئے غنیمت ہے

اس قدر روشنی کا کیا کرتا زندگی آخرش بسر کر دی اور اس زندگی کا کیا کرتا تنگ آیا ہوا ہو جو خود سے کوئی اس آدمی کا کیا کرتا جو مرے شعر سن کے آیا تھا وہ مری خامشی کا کیا کرتا منزلِ عشق مہرباں ہی سہی ذوقِ آوارگی کا کیا کرتا بے بسی […]