یوں ہی شعلے کو ہوا دیتا جا

اپنے ہونے کا پتہ دیتا جا بے رُخی یوں نہ برت کام کے بعد کچھ نہیں ہے تو دعا دیتا جا چوٹ دینے میں بھی کچھ لگتا ہے تو بھی کچھ نامِ خدا دیتا جا سنگریزوں کا بھی حق ہے تجھ پر خون ، اے آبلہ پا دیتا جا سربلندی تو مری فطرت ہے سر […]

مت پوچھئیے کہ راہ میں بھٹکا کہاں کہاں

روشن میں میرے نقشِ کفِ پا کہاں کہاں تِریاک اپنے زہر کا اپنے ہی پاس تھا ہم ڈھونڈتے پھرے ہیں مداوا کہاں کہاں لمحوں کے آبشار میں اک بلبلہ ہوں میں کیا سوچنا کہ جائے گا جھرنا کہاں کہاں تکیے پہ محوِ خواب ، تہہِ تیغ ہے کہیں لَو دے رہا ہے شعر ہمارا کہاں […]

اے عمرِ رفتہ تیری شام و سحر میں کیا تھا

اک در میں کیا کشش تھی ، اک رہگذر میں کیا تھا کیوں دیکھ کر اسے ہم وقفِ الم ہوئے تھے اس دل کو کیا ہوا تھا ، اُس عشوہ گر میں کیا تھا فکر و نظر نے کھولے کتنے رموزِ ہستی لیکن کھلا نہ اس کی پہلی نظر میں کیا تھا آتے ہیں یاد […]

کیا کر گئی وہ تیغِ ادا ہم سے پوچھیے

گزری شہیدِ عشق پہ کیا ہم سے پوچھیے رحمت گناہگارِ محبت پہ ہو نہ ہو خوف و ہراسِ روزِ جزا ہم سے پوچھیے مرضی خدا کی کیا ہے کوئی جانتا نہیں کیا چاہتی ہے خلقِ خدا ہم سے پوچھیے کٹتا ہے دن نہ رات گزرتی ہے چین سے بے لطف زندگی کی سزا ہم سے […]

اک تحفۂ نو سوئے حرم لے کے چلے ہیں

پہلو میں محبت کا صنم لے کے چلے ہیں صحرا میں کہاں پرتوِ اندازِ گلستاں خود اپنی نگاہوں کا بھرم لے کے چلے ہیں کیا حال ہے دل کا اسے اب کون بتائے محفل سے تری دیدۂ نم لے کے چلے ہیں کانٹوں کا گلہ کیا ہے کہ ہم راہِ طلب میں اک دشتِ بلا […]

شہر میں اسلحہ بلوائی لیے بیٹھے ہیں

اور ہم شکوۂ تنہائی لیے بیٹھے ہیں مرگ تو گھات میں ہے اور ادب کے معمار فن کی تکمیل یہ سوادائی لیے بیٹھے ہیں اتھلے پانی سے برآمد ہوئی لاشیں اور ہم فکرِ اقبال کی گہرائی لیے بیٹھے ہیں غالبؔ و میرؔ نے کس کس سے محبت کی تھی غم یہ تحقیق کے شیدائی لیے […]

بلائے جاں تھی جو بزمِ تماشا چھوڑ دی میں نے

خوشا اے زندگی خوابوں کی دنیا چھوڑ دی میں نے جو رہتیں بھی تو میرے شوق کی گلکاریاں کب تک چلو اچھا ہوا تزئینِ صحرا چھوڑ دی میں نے نہ ہو جب حال ہی اپنا تو مستقبل کی پروا کیا غمِ امروز چھوڑا ، فکرِ فردا چھوڑ دی میں نے مرض وہ ہے کہ صدیاں […]

ٹھہر جاتا ہے آنکھوں میں کوئی منظر جیسے

سراپا ہو تصور میں کوئی جلوہ گر جیسے مشغولِ غفلت اور پھر شوقِ خلوت بھی دیوانہ ہی ہو بیاباں میں دربدر جیسے جذبات میں تلاطم اور نہ آتشِ شوق چھا ہی گئی ہو کوئی دِل پہ کہر جیسے گرہن سا گرہن لگ رہا ہے اے ماہِ کامل طلوع سی ہو رہی ہو مرگِ سحر جیسے […]

ماضی کو سینے سے لگائے مستقبل کا ساتھ دیا

یوں ہم نے ہر بزم نبھائی ، ہر محفل کا ساتھ دیا خون ابھی باقی تھا رگوں میں اور یہ ظالم ڈوب گئی نبض ہماری کہلاتی تھی اور قاتل کا ساتھ دیا آتشِ دل آہوں میں ڈھلی اور اشک زمیں میں جذب ہوئے آگ ہوا سے مل گئی جا کر ، آب نے گِل کا […]