میرا سفر ہے ضبطِ مسلسل کی قید میں

چھوٹی سی جیسے کشتی ہو بوتل کی قید میں اپنے بدن کی آگ میں جل کر مہک اٹھی خوشبو جو بیقرار تھی صندل کی قید میں اے فصل تشنہ کام نویدِ رہائی دے پانی کو دیکھ کب سے ہے بادل کی قید میں گہرائی اُس کے ضبطِ الم کی بھی دیکھئے ساگر رکھے ہوئے ہے […]

کتنے چراغ جل اٹھے، کتنے سراغ مل گئے

آنکھیں جنوں کی کیا کھلیں، اپنے تو ہونٹ سل گئے ایسے پلٹ گئی ہوا دل کی کتاب کے ورق یادوں کے کچھ گلاب جو کھوئے ہوئے تھے مل گئے اک چہرے کی شباہتیں نکھریں مری نظر کے ساتھ شاخ نظر جھکی جدھر کچھ عکس تازہ کھل گئے اپنی تو خیر راہ میں تھیں کرچیاں ہی […]

کوئی بھی آگ ہو، شانہ بشانہ جلتا ہے

وہ میرے ساتھ ہے جب سے، زمانہ جلتا ہے کوئی تو رہتا ہے دل کے کھنڈر مکانوں میں چراغ شام کو اکثر پرانا جلتا ہے دراز دستیء بادِ ستم کا شکوہ کیا چراغ یادوں میں اب جاودانہ جلتا ہے یہ انتظار شبستان دل میں ہے کس کا نہ بجھ کے دیتا ہے کوئی دیا، نہ […]

نظمِ نو آ گیا، انصاف نرالا دے گا

بیچ کر مجھ کو مرے منہ میں نوالا دے گا فرق مٹ تو گئے مابین سفید و سیہ اب اور کتنا یہ نیا دور اُجالا دے گا جس کی خاطر میں نے پہچان گنوائی اپنی اب وہی میرے تشخص کو حوالہ دے گا سر جھکاتا ہے پذیرائی کے انداز میں آج کل یہی شہر ہمیں […]

نظریں چُرائیے، نہ ندامت اٹھائیے

جتنے بچے ہیں سنگ ملامت، اٹھائیے مصلوب کیجئے ہمیں نا کردہ جرم پر معصوم پھر بنا کے سلامت اٹھائیے یہ ٹیڑھے ترچھے وار ہیں توہین عاشقی تیغ ستم کو برسر قامت اٹھائیے اِس تہمتِ جفا سے بھی آگے ہیں مرحلے اتنی سی بات پر نہ قیامت اٹھائیے تکلیف دیجئے نہ کسی غمگسار کو احسانِ چارہ […]

نہ سیم و زر نہ گہر بیچ کر ادا ہو گا

وفا کا قرض ہے، سر بیچ کر ادا ہو گا زمیں کا قرض ہے جتنا مری اڑانوں پر غرورِ بازو و پر بیچ کر ادا ہو گا چکانے نکلا ہوں میں کاسۂ گدائی لئے جو قرض کاسۂ سر بیچ کر ادا ہو گا لبوں سے حرفِ محبت بہ لہجۂ تسلیم متاعِ قلب و جگر بیچ […]

نہ کوئی باد نما تھا نہ ستارہ اپنا

رہنما کوئی اگر تھا تو یہ رستہ اپنا زندگی گزری تضادات سے لڑتے لڑتے فیصلے سارے تھے اوروں کے، طریقہ اپنا بے سلیقہ تو نہیں، بے سروسامان سہی دست و بازو کو بنائیں گے وسیلہ اپنا مان کرمشورے اپنوں کے اٹھایا ہے قدم دیکھئے اب کیا نکلتا ہے نتیجہ اپنا ڈر تو لگتا ہے بہت […]

ہر گام اُس طرف سے اشارہ سفر کا تھا

منزل سے دلفریب نظارہ سفر کا تھا جب تک امید منزل جاناں تھی ہمقدم دل کو ہر اک فریب گوارا سفر کا تھا رہبر نہیں نصیب میں شاید مرے لئے جو ٹوٹ کر گرا ہے، ستارہ سفر کا تھا رُکنے پہ کر رہا تھا وہ اصرار تو بہت مجبوریوں میں اُس کی اشارہ سفر کا […]

ہر موڑ پر ٹھہر کے کریں راستے کی جانچ

اس درجہ احتیاط کے قائل نہیں تھے ہم غفلت جو تھی اگر تو بس اپنے ہی حال سے حالت سے دوستوں کی تو غافل نہیں تھے ہم خوابوں کی آبرو بھی پسِ پشت ڈال دیں اتنے بھی زیرِ بارِ مسائل نہیں تھے ہم گزری تو خیر جیسی بھی لیکن لگا ہمیں اُس انتظارِ زیست کا […]

مانا کہ عرضِ حال کے قائل نہیں تھے ہم

سمجھے نہ کوئی ایسی بھی مشکل نہیں تھے ہم کچھ ہو گئیں خطائیں تو معذور جانئے انسان ہی تھے جوہرِ کامل نہیں تھے ہم اپنے ہی شہر میں ہمیں مہماں بنا دیا اتنی مدارتوں کے تو قابل نہیں تھے ہم طوفاں ملے جو ہم سے تو شکوہ نہ کیجئے اک بحرِ اضطراب تھے ساحل نہیں […]