ہوئے مسند نشیں پھر ملک و ملت بیچنے والے

بنا کر بھیس زر داروں کا غربت بیچنے والے خدا حافظ بزرگوں کی امانت کا خدا حافظ محافظ ہو گئے گھر کے، وراثت بیچنے والے زمیں ملکِ خدا میں ہو گئی تنگ اب کہاں جائیں کدالیں تھام کر ہاتھوں میں محنت بیچنے والے خزانے میری مٹی کے عجب ہیں کم نہیں ہوتے مسلسل بیچتے ہیں […]

لوگ مصروفِ خدائی ہیں خدا کے گھر میں

بندہ توبہ کرے مسجد سے اب آ کے گھر میں پُل بنانے میں تھے مصروف، یہ معلوم نہ تھا دریا آ جائے گا دیواریں گرا کے گھر میں اتنا گھبرائے گھٹن سے کہ ہم ایسے محتاط آ گئے لے کے دیا اپنا ہوا کے گھر میں کھوٹا سکہ تو نہیں ہے یہ محبت لوگو آزماؤ […]

سایۂ نخلِ ثمر بار نہیں آیا پھر

گھر سے نکلے تو چمن زار نہیں آیا پھر پھر مجھے خاکِ جنوں لے کے پھری دشت بہ دشت وہ ترا شہرِ خوش آثار نہیں آیا پھر تم نے تو دام لگا کر یونہی بس چھوڑ دیا میرے خوابوں کا خریدار نہیں آیا پھر بجھ گئی جلتی ہوئی دھوپ تو ہمسایوں کے بیچ قضیۂ سایۂ […]

اک بات کہہ رہا ہوں لہجے بدل بدل کے

اک شعر ہو رہا ہے مصرعے بدل بدل کے پُرپیچ راستہ ہے، سامان ہلکا رکھنا تھک جاؤ گے وگرنہ کاندھے بدل بدل کے تاریکیوں سے گذرا میں روشنی کی خاطر پہنچا تری ڈگر پر رستے بدل بدل کے تعبیر کیا ملے گی اُن کو بھلا سحر سے گزری ہے رات جن کی سپنے بدل بدل […]

حبس جاں رونے سے کچھ اور گراں ہوتا ہے

آگ بجھتی ہے تو انجام دھواں ہوتا ہے تاب گفتار ہی باقی ہے نہ موضوع سخن اب ملاقات کا ماحول زباں ہوتا ہے کھینچ لائی ہے ضرورت مجھے کن راہوں میں ہر قدم پر مجھے دھوکے کا گماں ہوتا ہے غیرسے میری شکایت کا مجھے رنج نہیں گلہ شکوہ بھی محبت کا نشاں ہوتا ہے […]

پھر لگا ہے دوستوں کا تازیانہ مختلف

تیر دشمن کی طرف ہیں اور نشانہ مختلف بے نیازی برطرف، اب لازمی ہے احتیاط وقت پہلا سا نہیں اب، ہے زمانہ مختلف آشیانہ چھوڑنے کی اک سزا یہ بھی ملی روز لاحق ہے تلاشِ آب و دانہ مختلف اک شکم پرور زمیں رکھتی ہے پابستہ مجھے اور وفائیں مانگتی ہیں اک ٹھکانہ مختلف دوسرا […]

مجھے نسبت جو کسی در سے نہ دربار سے ہے

یہ عنایت بھی ترے نام کی سرکار سے ہے بادبانوں کا تکلف نہیں کشتی میں مری آسرا مجھ کو ہوا سے نہیں پتوار سے ہے گونج رہ جائے گی میری جو صدا مر بھی گئی اتنی امید مجھے شہر کی دیوار سے ہے شورِ زنجیر بپا رکھتی ہے جکڑی ہوئی امید دل کی دھڑکن میں […]

کوئی فخر زہد و تقویٰ، نہ غرورِ پارسائی

مجھے سب خبر ہے کیا ہے مرے نفس کی کمائی مجھے جب کبھی اندھیرے ملے راہِ جستجو میں نئی مشعل تمنا ترے نام کی جلائی اسے کیوں نہ سر پہ رکھوں، یہ جزائے بندگی ہے ترے نام سے مزیّن مرا کاسۂ گدائی وہ جو ضبط سے نہ نکلا، کبھی نطق تک نہ پہنچا اُسی حرفِ […]

بے سبب ہم بھی تہ دام نہ آئے ہوں گے

فرش نے عرش کے امکان دکھائے ہوں گے سر جھکاتے ہیں جو ہر سنگ پہ کہہ کر لبیک خوئے تسلیم تری بزم سے لائے ہوں گے جن کے سینے میں دھڑکتا ہو کسی اور کا دل لوگ ایسے بھی تو قدرت نے بنائے ہوں گے اختلافاتِ نظر خود ہیں اُجالے کا ثبوت جس جگہ روشنی […]

کسی کو روک لیں ہم، ایسے کم نگاہ نہیں

مسافرانِ محبت ہیں سنگِ راہ نہیں ق ستم تو یہ ہے کہ دنیا تمہارے زیرِ ستم تمہارے ظلم کا پھر بھی کوئی گواہ نہیں کھلا ہے کون سا رستہ سپاہِ جبر سے آج بچا ہے کون سا قریہ جو رزم گاہ نہیں؟ متاع ہستی کہاں رکھئے اب بجز مقتل کسی طرف بھی کوئی گوشۂ پناہ […]