سنگ آئے کہ کوئی پھول، اٹھا کر رکھئے

جو ملے نام پر اُس کے وہ سجا کر رکھئے سجدۂ عجز سے بڑھ کر نہیں معراج کوئی سربلندی ہے یہی سر کو جھکا کر رکھئے دل پہ اُترا ہوا اک حرفِ محبت نہ مٹے اسمِ اعظم ہے یہ تعویذ بنا کر رکھئے گر کے خاشاک ہوا جس میں انا کا شیشم ہے وہی خاکِ […]

منزل کو جانتا تھا، اشارہ شناس تھا

ٹھہرا نہ وہ کہیں جو نظارا شناس تھا انجام لکھ گیا مرا آغازِ عشق سے اک شخص کس بلا کا ستارہ شناس تھا ساگر کی سرکشی سے میں لڑتا تھا جن دنوں واقف ہوا سے تھا نہ کنارہ شناس تھا ہوتا نہ بے وفا تو گزرتی بہت ہی خوب میں خوگرِ زیاں، وہ خسارہ شناس […]

اُن لبوں تک اگر گیا ہو گا

شعر میرا نکھر گیا ہو گا ترکِ الفت نہیں تھی خو اُس کی میری حالت سے ڈر گیا ہو گا اعتباراُس کے دل سے دنیا کا جانے کس بات پر گیا ہو گا؟ زہر پینے سے کون مرتا ہے کوئی غم کام کرگیا ہو گا پاؤں اٹھتے نہیں دوانے کے کوئی زنجیر کر گیا ہو […]

ورثۂ درد ہے تنہائی چھپا لی جائے

اپنے حصے کی یہ جاگیر سنبھالی جائے کون دیکھے گا تبسم کی نمائش سے پرے ٹوٹی دیوار پہ تصویر لگا لی جائے چہرے پڑھنا بھی اُسے آہی گیا ہو شاید غم زدہ چہرے پہ مسکان سجالی جائے اختلافات نہ بن جائیں تماشہ اے دوست بیچ میں اب کوئی دیوار اٹھا لی جائے اپنی رفتار سے […]

سفر حضر کی علامتیں ہیں، یا استعارہ ہے قافلوں کا

یہ شاعری تو نہیں ہماری، یہ روزنامہ ہے ہجرتوں کا یہ رُوپ سورج کی دھوپ جیسا، یہ رنگ پھولوں کی آنچ والا یہ سارے منظر ہیں بس اضافی، یہ سب تماشہ ہے زاویوں کا ہر ایک اپنی انا کو تانے دُکھوں کی بارش میں چل رہا ہے دیارِ ہجرت کے راستوں پر عجیب موسم ہے […]

منظر وہی پرانا ہے، موسم نیا نیا

بدلا جو میں نے زاویہ، عالم نیا نیا تازہ ہے دوستی ابھی لہجے نہ جانچئے کھُلتا ہے تار تار یہ ریشم نیا نیا دل کی خلش بڑھی ہے تری قربتوں سے اور زخموں کو جیسے ملتا ہے مرہم نیا نیا ہر عکس کرچیاں سی چبھاتا ہے آنکھ میں پتھر اور آئنے کا ہے سنگم نیا […]

لہروں پہ سفینہ جو مرا ڈول رہا ہے

شاید مری ہمت کو بھنور تول رہا ہے شیریں ہے تری یاد مگر ہجر لہو میں شوریدہ ہواؤں کا نمک گھول رہا ہے پتوار بنا کر مجھے طوفانِ حوادث قامت مری پرچم کی طرح کھول رہا ہے ساحل کی صدا ہے کہ سمندر کا بلاوا گہرائی میں سیپی کی کوئی بول رہا ہے یہ وقت […]

ضربِ تیشہ سے یوں اعجاز کی صورت جاگے

سینۂ سنگ سے اک موم کی مورت جاگے ٹوٹ جائے مرے مولا یہ جمودِ شب تار کوکبِ بخت چمک جائے مہورت جاگے کاش پڑ جائے مرے غم پہ ہُما کا سایا شعلۂ درد سے عنقا کسی صورت جاگے خواہش حرف ستائش کو تھپک دو ورنہ بن کے اکثر یہ نمائش کی ضرورت جاگے بے غرض […]

ہاتھوں میں لئے سنگ کی سوغات چلی ہے

اُترے گی مرے گھر ہی جو بارات چلی ہے ملتے ہیں گھڑی بھر کو دکھانے کے لئے زخم یاروں میں نئی طرزِ ملاقات چلی ہے لگتا ہے کہ افسانۂ رسوائی بنے گی وہ بات جو اغیار سے بے بات چلی ہے جو عشق نے چاہا ہے وہی کر کے دکھایا کب دل کے حضور اپنی […]

طعنۂ سود و زیاں مجھ کو نہ دینا، دیکھو

میرے گھر آؤ کبھی، میرا اثاثہ دیکھو در کشادہ ہے تمہارا مجھے تسلیم مگر مجھ میں جھانکو، کبھی قد میری انا کا دیکھو بس سمجھ لینا اُسے میری سوانح عمری سادہ کاغذ پہ کبھی نام جو اپنا دیکھو اِس خموشی کو مری ہار سمجھنے والو! بات سمجھو، مرے دشمن کا نشانہ دیکھو آج لگتا ہے […]