معیار ہے سخن تو حوالہ نہ دیکھئے

شاخِ ہنر کو دیکھئے، شجرہ نہ دیکھئے شاید اسی طرح مجھے پہچان جائیں آپ لہجے کا رنگ دیکھئے، چہرہ نہ دیکھئے رستے ہیں میرے گھر کے محبت کے راستے دل کی کتاب کھولئے، نقشہ نہ دیکھئے سینہ ہے داغ داغ مگر دل تو صاف ہے گھر دیکھئے جناب، علاقہ نہ دیکھئے دیواریں پڑھ رہے ہیں […]

منظر سے ہٹ گیا ہوں میں، ایسا نہیں ابھی

ٹوٹا تو ہوں ضرور، پہ بکھرا نہیں ابھی وہ بھی اسیرِ فتنۂ جلوہ نمائی ہے میں بھی حصارِ ذات سے نکلا نہیں ابھی آسودۂ خمار نہیں مضمحل ہے آنکھ جو خواب دیکھنا تھا وہ دیکھا نہیں ابھی داغ فراقِ یار کے پہلو میں یاس کا اک زخم اور بھی ہے جو مہکا نہیں ابھی نومیدیِ […]

تمھاری گلیوں میں پھر رہے تھے اسیرِ درد و خراب ہجراں

ملی اجازت تو آ گئے پھر حضورِ عشق و جناب ہجراں وہ ملنے جلنے کی ساری رسمیں در اصل فرقت کے سلسلے تھے گئے دنوں کی رفاقتوں میں چھپا ہوا تھا سراب ہجراں مٹے نہیں ہیں حروفِ ظلمت، ابھی گریزاں ہے صبح برات ابھی پڑھیں گے کچھ اور بھی ہم دیارِ غم میں کتاب ہجراں […]

کس طور اُن سے آج ملاقات ہم کریں

گریہ کریں کہ شکوۂ حالات ہم کریں کچھ دیر کو سہی، پہ ملے درد سے نجات کچھ دیر کو تو دل کی مدارات ہم کریں مانا کہ اُن کی بزم میں ہے اذنِ گفتگو اتنا بھی اب نہیں کہ سوالات ہم کریں جب تک ہیں درمیان روایات اور اصول دشمن سے کیسے ختم تضادات ہم […]

اک بادباں شکستہ طغیانیوں میں دیکھا

بے حوصلہ سفینہ کم پانیوں میں دیکھا اتنا قریب تجھ کو پایا نہ محفلوں میں جتنا قریب تجھ کو ویرانیوں میں دیکھا اُن مشکلوں سے بہتر آسانیاں نہیں یہ جن مشکلوں کو میں نے آسانیوں میں دیکھا کیسے کھلوں میں اُس پر، اِس زندگی کو جس نے بس خواہشوں میں سوچا، من مانیوں میں دیکھا […]

لَو چراغوں کی بہت کم ہے خدا خیر کرے

بادِ صرصر بڑی برہم ہے خدا خیر کرے سرِ تکیہ کوئی ہمدم بھی نہیں آج کی شب آج تو درد بھی پیہم ہے خدا خیر کرے لذّتِ دردِ نہاں سے نہیں واقف جو ذرا وہ مرا چارہ گرِ غم ہے خدا خیر کرے خوئے لغزش بھی نہیں جاتی مرے رہبر کی جادۂ راہ بھی پُرخم […]

عذابِ ہجرتِ پیہم سنبھلنے دے

حصارِ بے مکانی سے نکلنے دے غبار بے سر و سامانی پردہ رکھ قبائے بے لباسی تو بدلنے دے ہوائے شہر غربت اک ذرا دھیرے چراغ شام تنہائی کو جلنے دے دیار اجنبی کے منجمد لہجے سکوتِ گوشۂ جاں میں پگھلنے دے فشارِ احتیاج زندگی مجھ کو کبھی تو کنجِ غفلت میں بہلنے دے جنونِ […]

زنجیر کس کی ہے کہ قدم شاد ہو گئے

بیڑی پہن کے لگتا ہے آزاد ہو گئے جتنے بھی حرفِ سادہ ہوئے اُس سے منتسب ہم رنگِ نقش مانی و بہزاد ہو گئے سنگِ سخن میں جوئے معانی کی جستجو گویا قلم بھی تیشۂ فرہاد ہو گئے زندہ رہے اصولِ ضرورت کے ماتحت جب چاہا زندگی نے ہم ایجاد ہو گئے خود بیتی لگتی […]

ترکِ تعلقات کا وعدہ نہ کر سکیں

چاہیں بھی ہم اگر کبھی ایسا نہ کر سکیں سر سے تمھارے عشق کا سودا نہ جا سکے تا عمر ہم کسی کو بھی اپنا نہ کر سکیں جلتے رہیں سدا یونہی رستوں کی دھوپ میں یادوں کے سائبان بھی سایا نہ کر سکیں مصروفیت تو ہو مگر ایسی نہیں کہ اب بزمِ خیال بھی […]

کسی بھی لاٹری سے اور خزانوں سے نہیں ہوتی

ہماری حیثیت اونچی ، مکانوں سے نہیں ہوتی دلوں میں زہر بھر کر کون یہ رشتے نبھاتا ہے محبت آپ جیسے بدگمانوں سے نہیں ہوتی ہماری خواہشوں کو گر مقدم رکھ لیا جاتا کبھی رنجش ہماری خاندانوں سے نہیں ہوتی سمندر سے خفا ہو کر الٹ دیتی ہیں ہر ناؤ ہوا کی دشمنی ان بادبانوں […]