جگر بچا ہی نہیں ہے تو کس کو پروا ہے

کہ چاکِ زخمِ جگر کو سیا سیا ، نہ سیا جو کاٹتے تھے مسافت ، مسافتوں میں کٹے سفر کا کیا ہے کسی نے کیا کیا ، نہ کیا فریب عشق ، ترا رقص ہی قیامت ہے فریب حسن کسی نے دیا دیا ، نہ دیا ہر ایک تہمتِ وحشت ، ہمی سے وابستہ ہمارا […]

نہ سُنی تم نے ، کوئی بات نہیں

بات یوں بھی نہیں تھی کہنے کی حاتمِ عشق کی حویلی بھی ، اب کہاں رہ گئی ہے رہنے کی ڈوبنا کون چاہتا ہے مگر؟ اور ہمت نہیں ہے بہنے کی اب بھرم ٹوٹتا ہے ، تو ٹوٹے بے دلی اب نہیں ہے سہنے کی اور پھر ، تیرگی میں ڈوب گئی جھلملاہٹ ، تمہارے […]

وہ دِلاسہ تِرا دلاسہ سا

ہے اَثاثہ یا ہے اَثاثہ سا تیرا میرا نصیب ہے جیسے ایک پیاسا اور ایک پیاسا سا فون پر خامشی کا لہجہ وہ تھا شناسا یا تھا شناسا سا سانس آنا ہی زندگی کا بس ہے خُلاصہ یا ہے خُلاصہ سا بھیک کے واسطے ضروری نہیں کوئی کاسَہ یا کوئی کاسَہ سا

مسلسل ذہن میں ہوئی غارت گری کیا ہے

سخنور گر یہی فن ہے تو پھر دیوانگی کیا ہے جنون و کرب میں اوہام کو الہام کہتا ہوں فقط خفقان کا عالم ہے ورنہ شاعری کیا ہے سخن کیا ہے؟ مہذب نام ہے بکواس کرنے کا معزز طرزِ دریوزہ گری ہے، زندگی کیا ہے تخیل ہے کہ عریاں عالمِ وحشت میں پھرتا ہے اگر […]

دامان تار تار ، گریباں پھٹے ہوئے

لوٹے ہیں گردِ راہ ِ وفا سے اٹے ہوئے تم نے چھوا تو ٹوٹ کے ریزے بکھر گئے ہم اپنی خواہشوں میں کھڑے تھے بٹے ہوئے ہم صرف اک تخیلِ آوارہ گرد ہیں مدت ہوئی ہے ذہنِ رساء سے کٹے ہوئے دل سے ترے خیال کی تصویر بھی گئی دیوار کا نصیب فقط چوکھٹے ہوئے […]

ڈھونڈ کر لائے تھے کل دشتِ جنوں کا راستہ

اب جنونِ عشق کا مرہم تلاشہ جائے گا آئیگا وہ وقت جس کی آس تک موہوم ہے جائے گا یہ درد جو ہے بے تحاشہ ، جائے گا پھر ترے کوچے کی رونق ہیں فدایانِ جنوں جس طرف جائے تماشہ گر، تماشہ جائے گا کب تلک مالِ غنیمت میں جواہر آئیں گے معرکہ گاہوں سے […]

جو خود سپردگی تھی جنوں کی اساس میں

اب ممکنات میں نہ قرین قیاس میں اعصاب مرتعش تو سماعت میں شور ہے لایا گیا ہوں کھینچ کے ہوش و حواس میں عریاں ہوئے نہ عیب بہرحال شکر ہے پیوند بے شمار ہیں چاہے لباس میں کس کس کے بوکھلا کے گلے سے نہیں لگا کتنے ہی ہاتھ تھام کے دیکھے ہراس میں کاسے […]

پایا گیا ہے اور نہ کھویا گیا مجھے

میرا ہی ہاتھ تھام کے رویا گیا مجھے میں سخت جان جھیل گیا طنزیہ ہنسی سو میرے آنسووں میں ڈبویا گیا مجھے کہنے کو چشم نم سے بہایا گیا ہوں میں لیکن پلک پلک میں پرویا گیا مجھے آخر کو میں سفید لبادے ہہ داغ تھا مل مل کے اضطراب میں دھویا گیا مجھے پھوٹوں […]

آرزو موجزن ہے نس نس میں

اور کچھ بھی نہیں مرے بس میں ضبط میں پھول پھل رہا ہے جنوں تم نے شعلہ دبا دیا خس میں میں نبھانے چلا تھا رسموں کو میں نبھاتا ہی رہ گیا رسمیں کاٹ کھانے کو دوڑتی ہیں مجھے میں نے کھائی تھیں جس قدر قسمیں تم بھی حق دار ہو برابر کے بانٹ لیتے […]

ہم اپنے اعمال پہ اپنے اندر ڈوب کے مر جاتے ہیں

جیسے سورج روز افق میں جا کر ڈوب کے مر جاتے ہیں اس کوٹھی میں رہنے والے جانے ایسا کیا کرتے ہیں۔ کوئی پوچھے تواس گھر کے نوکر ڈوب کے مر جاتے ہیں ”میری تیراکی کے آگے دریا بھی پانی بھرتا ہے” ایسا دعویٰ کرنے والے اکثر ڈوب کے مر جاتے ہیں ساحل کا احسان […]