قطرہ قطرہ لہو پلاتے ہوئے

میں مرا عشق کو بچاتے ہوئے آنکھ آئینے میں گنوا آیا تشنگی عکس کی بجھاتے ہوئے ڈھلتے سائے میں ڈھل گئی آخر دھوپ، سایہ مرا جلاتے ہوئے تیری جانب رہا سفر میرا راستہ اپنا خود بناتے ہوئے غم کی قندیل بھی بجھا آئے ہم ترا ظرف آزماتے ہوئے ہاتھ اس کے بھی جل گئے ہوں […]

مری کہانی میں کردار بھی اسی کا تھا

سہا جو میں نے وہ آزار بھی اسی کا تھا وہ جس کو ہونے کا احساس بھی دیا ہم نے ہماری ذات سے انکار بھی اسی کا تھا وہ ایک عہد بھی ہم سے وفا نہ کر پایا مگر یہ دل کہ وفا دار بھی اسی کا تھا بچھڑ گیا ہے تو اب دھوپ بھی […]

مرے لیے بھی رعایت تو ہو نہیں سکتی

کہ اب دوبارہ محبت تو ہو نہیں سکتی جہاں پہ تیز ہواؤں کی حکمرانی ہو وہاں چراغوں کی عزت تو ہو نہیں سکتی تمھارے عشق میںباندھی ہے دھڑکنوں کی لے اب اس سے بڑھ کے ریاضت تو ہو نہیں سکتی اگر ہے عشق تو صحرا میں آپ آ جائیں حضور شہر میں وحشت تو ہو […]

میں جتنی مشکل سے اپنا وعدہ نبھا رہا ہوں

یقین جانو یہ کوئی نیکی کما رہا ہوں یہ میرے کمرے کا سارا منظر دھواں دھواں ہے جلا رہا ہوں ، کبھی میں سگریٹ بجھا رہا ہوں ترے بدن پرگڑی ہوئی ہیں کسی کی نظریں میں ایک کتے کو اپنا کھانا کھلا رہا ہوں مقابلہ ختم ہوگا اب جان سے گزر کر کوئی رعایت نہیں […]

ہر اک سے آنکھ ملاؤگے، مارے جاؤ گے

ہر اک سے آنکھ ملاؤ گے، مارے جاوٗ گے زیادہ بوجھ اٹھاؤ گے، مارے جاوٗ گے کوئی نہیں ہے یہاں اعتبار کے قابل کسی کو حال سناؤ گے ،مارے جاؤ گے ہر ایک شاخ پہ چھڑکا ہوا ہے زہر یہاں شجر کو ہاتھ لگاؤ گے ، مارے جاوٗ گے دھوئیں میں ملنا مقدر ہے ان […]

ہنستا رہتا ہوں اور خوشی کم ہے

زندگی میں بھی زندگی کم ہے کیا ہوا تجھ کو میرے شہرِ سخن شعر اتنے ہیں ، شاعری کم ہے کتنا لمبا ہے ہجر کا رستہ تیری یادوں کو ڈائری کم ہے ٹھوکریں لگ رہی ہیں کیوں اتنی آنکھ بند ہے کہ روشنی کم ہے میں بھی عادی سا ہوگیا غم کا تیرے چہرے پہ […]

ابھی تمہارے زمانے تلک نہیں پہنچا

میں یعنی اپنے ٹھکانے تلک نہیں پہنچا فریب عشق کی ہر رہ گزر ہے الجھی ہوئی ترے کسی بھی بہانے تلک نہیں پہنچا جوبات دل میں تھی اس کے رہی دل میں کہ تیر اپنے نشانے تلک نہیں پہنچا قلم سے میں نے زمیں آسماں ملائے پر یہ آسمان گرانے تلک نہیں پہنچا ابھی تو […]

اس لیے عشق کے احسان سے ڈر لگتا ہے

اب کسی خواب کے اعلان سے ڈرلگتا ہے لطف وہ لذتِ ہجراں میں ملا ہے مجھ کو اب ترے وصل کے امکان سے ڈر لگتا ہے یہ جمع پونجی کمائی ہے مری چاہت کی اس لئے بھی مجھے نقصان سے ڈر لگتا ہے کوزہ گر میں ہوں ترے چاک سے اترا ہوا وقت جس کو […]

اس کی تصویر جلانی پڑی ہے

رات آنکھوں میں بتانی پڑی ہے میں ہی افسانہ نہ ہو جاؤں کہیں میرے سینے پہ کہانی پڑی ہے ایسی حسرت کا بھلا کیا کیجے شمع امید بجھانی پڑی ہے ایک کاغذ کو جلانا پڑا ہے ایک تحریر مٹانی پڑی ہے خاک میں خود کو ملایا میں نے خاک صحرا میں اڑانی پڑی ہے میں […]

اُٹھو یہ دامنِ دل و دیدہ سمیٹ کر

وہ لوگ جا چکے ہیں تماشا سمیٹ کر اک بار کھل کے روؤں لپٹ کر میں تجھ سے پھر رکھ آؤں تیرے دل میں یہ دریا سمیٹ کر میرا تو اعتراض فقط ایک رخ پہ تھا تو جا رہا ہے خواب ہی سارا سمیٹ کر جانا تھا اس کو نیلے حسیں پانیوں کی اور میری […]