مری کہانی کے کردار سانس لیتے ہیں

میں سانس لوں تو مرے یار سانس لیتے ہیں ہم ایک دشت میں دیتے ہیں زندگی کی نوید ہمارے سینے میں آزار سانس لیتے ہیں کبھی تو وقت کی گردش تھکا بھی دیتی ہے سو تھام کر تری دیوار سانس لیتے ہیں اکھڑنے لگتی ہیں سانسیں الجھ کے سانسوں سے پھر اس کے بعد لگاتار […]

مزاجِ یار کیوں برہم ہے میں کچھ کہہ نہیں سکتا

مرا بھی حوصلہ کچھ کم ہے میں کچھ کہہ نہیں سکتا ضرورت ہوں تو آ کر جلد اپنے خواب لے جانا کہ پھر برسات کا موسم ہے میں کچھ کہہ نہیں سکتا بہت شدھ راگ، دھن نایاب اور بیتار تانیں ہیں یہ کیسی تال ہے، کیا سم ہے میں کچھ کہہ نہیں سکتا مرے سیدھے […]

ملے کچھ عشق میں اتنا قرار کم از کم

ہمارے چہروں پہ آئے نکھار کم از کم سنائی دینے لگے اُس کی دھڑکنوں سے صدا کسی سے اتناتو ہو ہم کو پیار کم از کم ہم اپنے خواب کی تعبیر کچھ نکالیں کیا کہ ایک لمحہ تو ہو پائیدار کم از کم مرے چمن میں خزاں رکھ چکی قدم لیکن مرے خیال کو ملتی […]

میرا جنوں خیال سے آگے نہ جا سکا

میں ہجر تجھ وصال سے آگے نہ جا سکا وہ خوش خرام لمحہءِ آئیندہ میں گیا اور میں رہ ملال سے آگے نہ جا سکا دل تک پہنچ کے رہ گیا سب دشتِ آرزو اس شہرِ پائمال سے آگے نہ جا سکا اتنے جواب آئے کہ سمجھا ہی کچھ نہیں میں تو اس اک سوال […]

میں کیسے جھیل سکوں گا بنانے والے کا دکھ

جھری جھری پہ لکھا ہے لگانے والے کا دکھ غضب کی آنکھ اداکار تھی ، مگر ہائے تمھاری بات ہنسی میں اڑانے والے کا دکھ غزل میں درد کی پہلے بھی کچھ کمی نہیں تھی اور اُس پہ ہو گیا شامل سنانے والے کا دکھ تجھے تو دکھ ہے فقط اپنی لامکانی کا قیام کر […]

نہ سوچا تھا کہ یوں دیوار ہو گا

یہ رستہ اس قدر دشوار ہو گا خبر کیا تھی کہ سایہ چھین کر وہ شجر بھی صورتِ دیوار ہو گا لبِ دریائے وحشت دل کھڑا ہے مری انگلی پکڑ کر پار ہو گا ابھرتی رہ تمنائے محبت وہ منظر اب کہاں بیدار ہو گا میں جب آزاد ہوں گا اس گماں سے یقیناً تو […]

وعدہ دیا تھا اُس نے، نشانی تو تھی نہیں

یادوں پہ ہم نے فلم بنانی تو تھی نہیں بس دیکھنا تھا کوئی ہتھیلی پہ ایک نام ہم نے تمھاری شام چرانی تو تھی نہیں کردار کی اذیتیں کچھ پوچھئے نہ بس بے ربط تھیں لکیریں کہانی تو تھی نہیں ہر ایک شخص کھوجنے میں تھا لگا ہوا میں نے کسی کو بات بتانی تو […]

وہ لوگ جن سے نہیں ہے مکالمہ میرا

وہی تو کرنے چلے ہیں مقابلہ میرا تُو اپنی دنیا اٹھا اور اک طرف ہو جا کہ اب خدا سے ہی ہوگا معاملہ میرا کسی بھی عشق کے مضموں کو کیا کروں پڑھ کر مرے تو ہاتھ پہ رکھا ہے تجربہ میرا ادھورے عکس دکھاتا ہے ایک مدت سے کہ بدگمان ہوا مجھ سے آئینہ […]

وہی تھی کل بھی پسند اور وہی ہے آج پسند

الگ مزاج ہے میرا، الگ مزاج پسند میں کیا کروں کہ مری سوچ مختلف ہے بہت میں کیا کروں مجھے آیا نہیں سماج پسند میں اپنی راہ نکالوں گا اپنی مرضی سے مجھے نہیں ہیں زمانے، ترے رواج پسند یہ میرا دل ، مری آنکھیں ، یہ میرے خواب عذاب اٹھا اے عشق تجھے جو […]

پری نہ تھی مرے گاؤں میں کوئی باغ نہ تھا

وہ ایک خواب کہ جس کا کوئی سراغ نہ تھا تمھاری ٹوٹی ہوئی آس کا میں کیا کرتا مجھے تو اپنی مرمت سے ہی فراغ نہ تھا عجیب حبس تھا دیوار و در سے لپٹا ہوا ہوا نہ آئی کہ گھر میں کوئی چراغ نہ تھا گناہِ عشق سمجھتے تھے پارسا، لیکن قبا سفید تھی […]