تھک ہار کے دم توڑ دیا راہ گذر نے

کیا روپ نکالا ہے جواں ہو کے سفر نے میں زخم کی تشہیر نہیں چاہتا ورنہ شہکار تراشہ ہے ترے دستِ ہنر نے میں کون سی تاویل گھڑوں اپنی بقاء کی تم کو چلو روک لیا موت کے ڈر نے پھر شہر رہا ، یا نہ رہا روئے زمیں پر دیکھا نہ پلٹ کر بھی […]

اب اُس کی آرزو میں نہ رہیئے تمام عمر

یعنی کہ یہ عذاب نہ سہیئے تمام عمر آخر اُتر پڑے تھے پہاڑوں سے کس لیئے اب دشتِ بے امان میں بہیئے تمام عمر وہ سرسری سی بات اداء جب نہیں ہوئی ایسی غزل ہوئی ہے کہ کہیئے تمام عمر وہ جا چکا ہے جس کو نہ جانا تھا عمر بھر اب آپ اپنے زعم […]

کارِ عبث رہی ہیں جنوں کی وکالتیں

کب سن رہی تھیں محض حقیقت عدالتیں پاؤں کہ چادروں سے ہمیشہ نکل گئے پوشاک کی بدن سے رہیں کم طوالتیں تم ہو رہے ہم سے مخاطب تو کم ہے کیا اب کیا بیان کیجے شکستوں کی حالتیں اب ہیں نصیبِ زعمِ محبت ، ہزیمتیں اب خواہشوں کا آکر و حاصل خجالتیں پلتے رہے ہیں […]

اک حدِ اعتدال پہ لرزاں ہے دیر سے

وہ زندگی کہ مثلِ شرر ناچتی پھری رہرو تو رقص کرتے ہوئے جان سے گئے اک عمر گردِ راہ گذر ناچتی پھری بے خواب تھی جو آنکھ، مگر لگ نہیں سکی لوری کی دھن پہ گرچہ سحر ناچتی پھری سیماب ہو کے گھل گئے پاؤں تو دھوپ میں پائل تھی بے قرار ، مگر ناچتی […]

DON QUIXOTTE

ہم اپنی رنگین نظر سے شہر کے منظر دیکھ رہے تھے آک کی بڑھیاں ہی پریاں تھیں دھوپ طلسمِ ہوش رباء شہر کا یہ بے ہنگم شور شرابا ہی موسیقی تھا تند بگولے دیو کے رتھ ، اور دھول کی اک چادر محمل رنگ محل اک کٹیا تھی اور گھاس کا اک تنکا جنگل ایک […]

حرف نادم ہوئے بیاں ہوکر

راز حیران ہیں عیاں ہو کر دھند آنکھوں میں آن اتری ہے دید اڑنے لگی دھواں ہو کر میں تری ذات سے نہیں نکل پایا تو نہیں چھپ سکا نہاں ہو کر میں نہیں اب کسی گمان میں بھی میں کہ اب رہ گیا گماں ہو کر میرا ہم عمر اک بڑھاپا بھی میرے ہمراہ […]

اُڑتے ہوئے غبار میں اجسام دیکھتے

ہم تھک چکے مناظرِ ابہام دیکھتے اتنی قلیل عمر میں ممکن کہاں کہ لوگ اتنے شدید درد کا انجام دیکھتے صبحِ فراقِ یار تلک سنگ رہ گیا اس دل کی رونقوں کو سرِ شام دیکھتے جھپکی ہے آنکھ آج کہ اک عمر ہو گئی لوحِ ہوا پہ نقش کوئی نام دیکھتے ائے کاش ہم بھی […]

المیہ

سر بہ زانو ہے ، شکستہ ہے خداوندِ سخن سر جھکائے ہوئے خاموش کھڑے ہیں اشعار قافیے گنگ ، سراسیمہ پریشاں بحریں اور سمٹی ہوئی بیٹھی ہیں جھجھکتی افکار صرف سانسوں کی صدا گونج کے رہ جاتی ہے موت کا سوگ کہ طاری ہے سرِ قصرِ سخن گاہے گاہے کبھی اٹھ جاتی ہیں خالی آنکھیں […]

آہستگی سے شیشہِ دل پر خرام کر

میرا نہیں تو عشق کا ہی احترام کر ہے ماوراء بیاں سے مرا آٹھواں سفر ائے داستان گو ، مرا قصہ تمام کر میں تو اٹک کے رہ گیا نصف النہار پر گردش زمین کی ہی بڑھا اور شام کر رشکِ مطالعہ ، مجھے بین السطور پڑھ ائے نازِ گفتگو ، مری چپ سے کلام […]

دل واقفِ اندازِ روایاتِ کہن ہے

اس بار مگر درد کا کچھ اور چلن ہے مانا کہ تجھے عشق سے مطلب ہی نہیں ہے کیا ہو کہ یہی خانماں برباد کا فن ہے تو حسنِ مکمل ہے تو میں شاعرِ یکتاء تو وجہِ سخن بن کہ فقط محوِ سخن ہے تھا لمس ترا نرم بہت ، جھیل گیا ہوں ویسے تو […]