آج پھر سے دلِ مرحوم کو محسوس ہوا

ایک جھونکا سا کوئی تازہ ہوا کا جیسے مہرباں ہو کے جھلستے ہوئے تن پر اترا سایہِ ابر ، کہ سایہ ہو ہُما کا جیسے نرم لہجے میں مرے نام کی سرگوشی سی زیرِ لب ورد ، عقیدت سے دعا کا جیسے ہاتھ جیسے کوئی رخسار کو سہلاتا ہو دل نے محسوس کیا لمس بقا […]

نہ جانے سوچ کے کیا بات سر جھٹکتا ہے

وہ شخص جو کہ خلاؤں کے پار تکتا ہے وہ بے دلی ہے کہ دل عشق میں نہیں لگتا وہ برہمی ہے کہ اپنا بدن کھٹکتا ہے وہ کیفیت کہ کوئی نام ہی نہیں جس کا خیال دشتِ سوالا ت میں بھٹکتا ہے وہ تیرگی ہے کہ ٹھوکر قدم گِنی جائے وہ فاصلہ ہے کہ […]

رائیگاں شعر مرے ، نوحہِ نمناک عبث

تُند خُو عشق اڑاتا ہے مری خاک عبث آس کے طُور پہ اتری نہ تجلی کوئی ٹکٹکی باندھ کے تکتے رہے افلاک عبث لوچ مٹی میں سرے سے ہی نہیں ہے میری گردشوں میں ہے زمانوں سے ترا چاک عبث وحشتیں ہیں کہ ہر اک حال میں عریاں ٹھہریں عقل بُنتی رہی تہذیب کی پوشاک […]

مشقِ بال و پر کی خاطر گنبدِ بے در دیا

پھوڑنے کے واسطے گویا کہ مجھ کو سر دیا وحشتیں بخشی گئی مد و جزر کی عشق کو حسن کو ماہِ مکمل سا تبھی پیکر دیا وقت کی زنجیر کی کڑیاں ہیں کیوں ٹوٹی ہوئی حذف کاتب نے نہ جانے عمر سے کیا کر دیا کوئی گنجائش نہیں چھوڑی کسی تعبیر کی عشق نے خوابوں […]

بات کر میرے ہم نشیں کچھ بھی

مجھ کو تو سوجھتا نہیں کچھ بھی لمس ہونٹوں کو چاہیے تیرا دست و عارض لب و جبیں کچھ بھی منہدم ہو رہا ہے دل کا مکاں اور کہتا نہیں مکیں کچھ بھی وسوسے نوچتے رہے دل کو کر نہ پایا ترا یقیں کچھ بھی ہم ، تہی دست بحرزادوں کو دے نہ پائی کوئی […]

مکان لاکھ لبھاتے ، مگر بلاتا تھا

وہ راستہ، کہ مکانوں کے بعد آتا تھا ذرا سی دیر کو لگتا کہ رائیگاں نہ گئے وہ جب کبھی مرے اشعار گنگناتا تھا تمہارے لمس کی طاری تھی سرخوشی اس پر یہ دل بھلا مرے پہلو میں کب سماتا تھا وہ انہماک کے عالم دم بخود اور میں کہ جیسے شعر نہیں واقعہ سناتا […]

ہوا نہ تارِ تنفس میں ارتعاش تلک

بچھڑ گیا ہے کوئی اس قدر خموشی سے حیات سر کو جھکائے کھڑی ہے صحرا میں کہ باز آ نہ سکا قیس سر فروشی سے ملا ہے عکس سرِ آئینہ اگرچہ ابھی ملا نہیں ہے مگر خاص گرمجوشی سے زمینِ آتش و آہن تو پار کرنی ہے وجود چور سہی خانماں بدوشی سے ہزار عیب […]

حروف کیا ترے قد کی برابری کرتے

کہاں سے ہم ترے شایان شاعری کرتے تمہارا فیض نہ ہوتا تو ہم سے تن آساں محبتیں بھی جو کرتے تو سرسری کرتے بھلا ہو وہ تو تمہارا کہ پر ہی کاٹ دیے وگرنہ ہم بھی ستاروں کی ہم سری کرتے تمہارا ذکر محاسن فنون کا ٹھہرا نہیں تو کون تھے ہم کیا سخنوری کرتے

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ بات میرا وہم ہو

پر مجھے لگتا ہے میرا نام جیسے اہم ہو مطمئن ہیں اس طرح عشاق جیسے کہ ابھی غم بقدرِ ظرف ہو الجھن بقدرِ فہم ہو یوں تو لگتا ہے کہ جیسے رنگ باقی ہوں ابھی یہ بھی ممکن ہے کہ میرا آئینہ خؤش فہم ہو