ساتھ کب تک کوئی چلا مت پوچھ
کس نے کی کس قدر وفا مت پوچھ مختصر یہ کہ ہو گئے آزاد کون کس سے ہوا رِہا مت پوچھ تھی قیامت مگر گزر ہی گئی تذکرہ اس کا بارہا مت پوچھ پوچھ مجھ سے جو میرے دل میں ہے لوگ کہتے ہیں کس سے کیا، مت پوچھ تب مجھے بھی نہیں تھی اپنی […]
معلیٰ
کس نے کی کس قدر وفا مت پوچھ مختصر یہ کہ ہو گئے آزاد کون کس سے ہوا رِہا مت پوچھ تھی قیامت مگر گزر ہی گئی تذکرہ اس کا بارہا مت پوچھ پوچھ مجھ سے جو میرے دل میں ہے لوگ کہتے ہیں کس سے کیا، مت پوچھ تب مجھے بھی نہیں تھی اپنی […]
مان بھی جاؤ اب خدا کے لیے اشک کرتے ہیں حال دل کا بیان لفظ ملتے نہیں دعا کے لیے حرفِ تسکیں کی بھیک ہے درکار ایک مہجور و بے نوا کے لیے مہر و الفت سے بڑھ کے کیا ہو گا آج انسان کی بقا کے لیے لاکھ مجھ پر زمانہ ڈھائے ستم ہنس […]
"میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے” کسی کے ساتھ گزارے تھے جو خوشی کے پل بہت رلاتے ہیں اب رابطہ نہ ہوتے ہوئے ہزار مصلحتوں کا حجاب حائل تھا ہمارے بیچ کوئی فاصلہ نہ ہوتے ہوئے عجیب شے ہے محبت کہ دل کے زخموں نے ترے ستم کو بھی مرہم کہا، نہ […]
درد ایسا ہے ، کچھ دوا ہی نہیں دم نکل جائے اتنا دم ہی کہاں اس پہ جینے کا آسرا ہی نہیں یک بہ یک وار دوستوں کے سہے ایسا باظرف تھا ، مڑا ہی نہیں میں یہ کہتا ہوں مان جا اب تو اس کی ضد ہے کہ وہ خفا ہی نہیں داد خواہی […]
مشت برابر جیون اندر، جنم جنم کے روگ جانے کیسے جیتے ہوں گے، سُکھ کے اندر لوگ
اُس کے گھر ماہتاب اُترا ہے پھر اُسے دسترس میں لانے کا میری آنکھوں میں خواب اُترا ہے ایسے نازل ہوا خیال اُس کا جیسے کوئی عذاب اُترا ہے
مری صدا پہ کوئی کان بھی دھرے ، تب نا میں جاں بلب ہی سہی ، آنکھ کسطرح موندوں یہ سانس لیتا ہوا درد بھی مرے ، تب نا میں چاہتا ہوں سنوں تیرے درد کا قصہ مگر جنون مجھے بے زباں کرے ، تب نا تمہارے ظرف کی مانند ، میری آنکھ نما جگر […]
لوٹ آیا ہوں فقط درد کو رسوا کر کے پھانس سی ہے کہ نکلتی ہی نہیں سینے سے میں نے دیکھا ہے بہر طور مداوا کر کے خود نمائی کا کوئی رنگ نہیں راس آیا بڑھ گئی اور ندامت ہی تماشہ کر کے میں مسیحائی کی تکلیف نہیں سہہ پایا مر گیا ہوں میں ترے […]
دیکھتا بھی ہے جو کوئی تو نہیں دیکھتا ہے شرم سے آنکھ ہر اک بار ہی جھک جاتی ہے اور دل ہے کہ ہر اک بار وہیں دیکھتا ہے جس کے پر نوچ لیے تو نے ، وہ طائر اب کے آسماں دیکھنا چاہے تو زمیں دیکھتا ہے شعر ہونے سے کہیں پہلے ہی رو […]
ہم تھے قارونِ تخیل کے نگیں، دفن ہوئے تیری متروک شریعت کے فراموش خدا دل کی تاراج زمینوں میں کہیں دفن ہوئے ہم ہمیشہ کے لیے خاک کیے جاتے ہیں ہم خزانوں کی طرح سے تو نہیں دفن ہوئے شعر دربار میں موجود رہے دو زانو تاجدارانِ سخن تخت نشیں دفن ہوئے تُو کہ افلاک […]