آج تحریک منہاج القرآن کے بانی رہنما اور پاکستان عوامی تحریک کے بانی چیئرمین ڈاکٹر طاہر القادری کا یوم پیدائش ہے۔
——
محمد طاہر القادری 19 فروری 1951ءکو جھنگ میں پیدا ہوئے۔ آپ تحریک منہاج القرآن کے بانی رہنما ہیں، جو 1980ءسے قرآن و سنت کے افکار کے ذریعے فروغ علم و شعور ، اصلاح احوال امت اور ترویج و اقامت دین کے لیے مصروف عمل ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی تحریک کے قیام کا مقصد ان الفاظ مین بیان کیا:
"تحریک منہاج القرآن کے بپا کئے جانے کا مقصد اولیں غلبہ دین حق کی بحالی اور امت مسلمہ کےاحیاء و اتحاد کے لیے قرآن و سنت کے عظیم فکر پر مبنی جمہوری اور پرامن مصطفوی انقلاب کی ایک ایسی عالمگیر جدوجہد ہے جو ہر سطح پر باطل، طاغوتی، استحصالی اور منافقانہ قوتوں کےاثر و نفوذ کا خاتمہ کر دے۔”
آپ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن، عوامی تعلیمی منصوبہ اور منہاج یونیورسٹی کے بانی ہیں اور پاکستان عوامی تحریک نامی سیاسی جماعت کے بھی بانی چیئرمین ہیں۔
آپ شیخ سید طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی کے مرید ہیں، جو سلسلہ نسب میں شیخ سید عبدالقادر جیلانی کی 17 ویں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 28 ویں پشت سے ہیں۔ انہیں 1994ء میں 130 سال عمر پانے والے چکوال کے معروف بزرگ سید رسول شاہ خاکی نے پہلی بار اور بعد ازاں 2004ء میں عرب علماء کی طرف سے شیخ الاسلام کا خطاب دیا گیا۔
ڈاکٹر محمد طاہر القادری ایک سنی سکالر ہیں مگر وہ مسلک اہل سنت کو کسی شخصیت یا علاقے سے منسوب کرنے کو مذموم سمجھتے ہیں ، اسلیے وہ خود کو بریلوی اور دیوبندی عنوانات سے آزاد فقط اہل سنت مسلمان قرار دیتے ہیں۔
ان کے مطابق اہل سنت کوئی فرقہ نہیں بلکہ مسلمانوں کی اکثریتی جماعت یعنی سواد اعظم کا نام ہے، جو سنت رسول اور طریق صحابہ کرام کی اتباع کرنے والی ہو ، جبکہ فرقے وہ ہیں جو مختلف ادوار میں اس اکثریتی جماعت سے اختلاف کرکے الگ ہوتے گئے۔
ان کے مطابق اپنا عقیدہ چھوڑو مت اور دوسروں کا عقیدہ چھیڑو مت کی پالیسی اتحاد امت کے لیے ناگزیر ہے۔
ان کے مطابق اسلامی تصوف کی روح نفس کی پاکیزگی سے عبارت ہے، جو شریعت کی پاسداری کے بغیر ناممکن ہے۔ اسی بناء پر وہ تصوف کو کاروبار بنانے والوں کو جاہل اور گمراہ قرار دیتے ہیں۔
ان کے مطابق اسلام قیام امن کا سب سے بڑا داعی ہے اور جہاد کے نام پر دہشت گردی کا بازار گرم کرنے والے گروہ مسلمان تو کجا انسان بھی کہلانے کے مستحق نہیں۔ آپ کے مطابق دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں۔ آپ نے متعدد بار واضح طور پر اسامہ بن لادن کی کارروائیوں کی مذمت بھی کی۔
ان کے مطابق اسلام حقوق نسواں کا واحد علمبردار مذہب ہے، جو آزادی نسواں کے نام پر عورت کی تذلیل کرنے کی بجائے صحیح معنوں میں اسے مرد کے برابر معاشرتی حقوق دیتا ہے۔
ان کے مطابق اسلام کا اصول مشاورت اسلامی نظام حیات کی روح ہے۔ اسلامی فلاحی معاشرے کے قیام کے لیے فرد واحد کے فیصلوں کی بجائے تمام فیصلوں میں اجتماعی مشاورت ناگزیر ہے۔
ان کے مطابق انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے بین المذاہب رواداری نہایت ضروری ہے۔ انہوں نے خود عملی طور پر مسلم کرسچئن ڈائیلاگ فورم بنا رکھا ہے اور وہ عیسائیوں کے مسجدوں میں آ کر عبادت کرنے کو حدیث نبوی کی بنیاد پر جائز قرار دیتے ہیں۔
ان کے مطابق اسلامی نظام معیشت آج کے دور میں بھی قابل عمل ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے بلاسود بینکاری نظام بھی پیش کیا-
ان کے مطابق اسلام کو آج کے دور میں قابل عمل دین ثابت کرنے کے لیے اسلام کی مذہبی، سماجی اور ثقافتی اقدار کے فروغ کے ساتھ ساتھ سائنسی بنیادوں پر اسلام کی تعبیر کی ضرورت ہے۔
ان کے مطابق سیاست اسلام کا حصہ ہے، جسے دین سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔
خاندانی پس منظر
ڈاکٹر محمد طاہر القادری جھنگ کے ایک معروف عالم دین ڈاکٹر فرید الدین قادری کے بیٹے ہیں۔ ان کے آباؤاجداد سیال خاندان سے تھے، جو تحصیل و ضلع جھنگ کے چنیوٹ روڈ پر واقع گاؤں کھیوا کے نواب تھے۔ ان میں سے دو بھائیوں نے اپنی جائداد تیسرے بھائی کے سپرد کر کے خود درویشی اختیار کی، نواب جمعہ خان ڈیرہ اسمعیل خان کی طرف اور نواب احمد یار خان (جو ڈاکٹر طاہر القادری کے اجداد میں سے تھے) جھنگ صدر جا آباد ہوئے۔
ڈاکٹر فریدالدین 1918ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے عربی و فارسی ادب، فقہ اسلامی اور تصوف و روحانیت کے حصول کے لیے دنیابھر کا سفر کیا۔ انہوں نے لکھنؤ (بھارت) سے طب یونانی میں تخصص کیا اور انہیں 1940ء میں پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے گولڈمیڈل دیا گیا۔ انہوں نے لکھنؤ، حیدرآباد، دہلی، دمشق، بغداد اور مدینہ منورہ سے اکتساب علم کیا۔ وہ دہلی اور حیدرآباد میں حکیم نابینا انصاری کے ساتھ بھی شریک رہے۔ وہ نقیب الاشراف سید ابراہیم سیف الدین الگیلانی کے مرید تھے، جو بغداد سے بمبئی میں آن بسے تھے۔ انہیں علامہ محمد اقبال کے ساتھ گہرا شغف تھا اور وہ قیام پاکستان کی تحریک میں قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ بھی شریک سفر رہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : نامور شاعر جمیل الدین عالی کا یومِ پیدائش
——
وہ سعودی عرب کے عبدالعزیز ابن سعود کے طبی مشیر بھی رہے۔ ان سے مروی ہے کہ وہ 1948ء میں سعودی عرب گئے تو بیت اللہ کے پہلو میں آخر شب اللہ تعالٰی سے دعا کی کہ انہیں ایسا بیٹا عطا فرما جو اسلام کی خدمت کرے، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں خواب میں طاہر کی ولادت کی خوشخبری دی تھی۔
ڈاکٹر فریدالدین نے 2 نومبر 1974ء کو جھنگ میں 56 سال کی عمر میں انتقال کیا۔
سوانح
ڈاکٹر محمد طاہر القادری اوائل عمر ہی سے انقلابی رجحانات کے حامل تھے۔ انکے والد گرامی چاہتے تھے کہ انکا یہ ہونہار بیٹا نہ صرف روایتی مذہبی علوم میں ماہر ہو بلکہ جدید علوم و فنون میں بھی طاق ہو۔ لہذا انہوں نے بیٹے طاہر کے لیے بیک وقت دینی و دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم کا اہتمام کیا۔ یہ معمول از اول تا آخر جاری رہا۔
ڈاکٹر محمد طاہر القادری امت مسلمہ اور بالخصوص پاکستان کے حالات پر شدید دکھی رہتے تھے ۔ امت مسلمہ کی زبوں حالی انکو ہردم پریشان کئے رکھتی تھی۔ اسی اثنا میں اکتوبر 1971ء میں انہیں عظیم مفکر ڈاکٹر برہان احمد فارقی کی صحبت ملی ، جس نے انکی فکر کو پروان چڑھانے میں بہت ہی نمایاں کردار ادا کیا۔
1971ء سے 1973ء کے زمانے میں ڈاکٹر طاہر القادری نے مختلف مسلم و غیر مسلم مفکرین کے انقلابی افکار کا تاریخی مطالعہ کیا۔ مسلم مفکرین میں امام غزالی، شاہ ولی اللہ دہلوی، مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی، مولانا عبیداللہ سندھی وغیرہم اور غیر مسلم مفکرین میں کارل مارکس، فریڈرک اینجلس، لینن، سٹالن اور ماؤزے تنگ وغیرہ شامل ہیں۔
اس مطالعے سے ان پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ انقلابی فکر کے حوالے سے کامیابی کا جو دوٹوک یقین غیرمسلم مفکرین کے ہاں نظر آتا ہے ، وہ اکثر مسلم مفکرین کے ہاں مفقود ہے۔ اس پر انہوں نے انقلابی زاویہ نگاہ سے قرآن و حدیث کا ازسرنو گہرا مطالعہ شروع کیا، جس کے نتیجے میں قرآن مجید اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انکو انقلاب کی کامیابی کی حتمی اور دوٹوک ضمانت مہیا کردی ، جس سے انقلاب پر انکا ایقان پختہ تر ہو گیا۔
چنانچہ انہوں نے ایک بار قرآن کریم کو تھام کر اور دوسری بار اپنے شیخ طریقت سید طاہر علاؤالدین القادری البغدادی کے دست اقدس پر باضابطہ بیعتِ انقلاب کرکے ، اپنے رب اور آقائے کریم سے اپنی زندگی کو عظیم عالمی انقلاب کے لیے وقف کردینے کا پختہ عہد کر لیا۔
یہ بیعتِ انقلاب مورخہ 26 جولائی 1972ء بمطابق 14 جمادی الثانی 1392ھ ساڑھے بارہ بجے بعد دوپہر بمقام دربارِ غوثیہ شارع الگیلانی کوئٹہ میں منعقد ہوئی ۔ ان کے شیخِ طریقت نے انقلاب سے متعلق تفصیلی ہدایات دیں اور ان کے لیے عزم و استقلال، جرآت و ہمت اور کامیابی و کامرانی کی دعا فرمائی۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی جدوجہد کا آغاز 1976ء میں جھنگ کی سطح پر نوجوانوں کی تنظیم محاذ حریت قائم کرکے کیا ، جسے بعد ازاں 1980ء میں لاہور سے تحریک منہاج القرآن کے نئے نام کے ساتھ بدل دیا گیا۔ اس دوران میں ڈاکٹر صاحب نے تصنیف و تالیف اور دروس قرآن کا سلسلہ جاری رکھا ، جس کے ذریعے انکے افکار پورے ملک اور پھر رفتہ رفتہ دوسرے ممالک میں بھی عام ہوتے گئے۔اسی دوران میں وہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں اسلامک لاءپر لیکچر دیتے رہے ۔ پھر وہ فیڈرل منسٹری آف ایجوکیشن کے ممبر بنے۔ بعد ازاں فیڈرل شریعت کورٹ میں جیورسٹ کنسلٹنٹ مقرر ہوئے۔
جب انکی شاندار صلاحیتوں کی وجہ سے انکی شہرت مزید بڑھی تو ٹی وی پر انکے پروگرام فہم القرآن نے بھی انکی مقبولیت میں بے انتہا اضافہ کیا۔
انکے سیاسی مخالفین کہتے ہیں کہ انکی اس ترقی کا سارا کریڈٹ نواز شریف کی اتفاق مسجد میں انکے خطیب مقرر ہونے کا ہے۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ جب انکا پروگرام فہم القرآن ٹی وی پر شروع ہوا تو اس وقت نواز شریف ابھی وزیر اعلٰی بھی نہیں بنے تھے۔ اور ادارہ منہاج القرآن بھی اتفاق مسجد سے تعلق قائم ہونے سے بہت پہلے قائم ہو چکا تھا۔
انتظامی کیرئر
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، الھدایہ کیمپ برطانیہ اگست 2007ء
1974ء تا 1975ء – لیکچرار اسلامک سٹڈیز، گورنمنٹ کالج عیسی خیل، میانوالی
1976ء تا 1978ء – ایڈووکیٹ، ڈسٹرکٹ کورٹ، جھنگ
1978ء – رکن سنڈیکٹ، پنجاب یونیورسٹی
1978ء – مشیر فقہ وفاقی شرعی عدالت، پاکستان
1978ء – مشیر سپریم کورٹ آف پاکستان
1978ء – ماہر قومی کمیٹی برائے نصابات اسلامی
1978ء تا 1983ء – لیکچرار اسلامک لا، پنجاب یونیورسٹی لا کالج، لاہور
1983ء تا 1988ء – وزٹنگ پروفیسر و سربراہ شعبہ اسلامی قانون (برائے ایل ایل ایم کلاسز)، پنجاب یونیورسٹی لا کالج، لاہور
1986ء تا حال – پرو چانسلر / چیئرمین بورڈ آف گورنرز، منہاج یونیورسٹی، لاہور
تعلیمی خدمات
1995ء میں آپ نے عوامی تعلیمی منصوبہ کا آغاز کیا، جسے غیرسرکاری سطح پر دنیا کا سب سے بڑا تعلیمی منصوبہ کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت پاکستان کے طول و عرض میں 572 تعلیمی ادارے قائم ہیں۔
2005ء لاہور میں قائم کردہ منہاج یونیورسٹی ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے چارٹر کر دی گئی، جسے 2009ء میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے کیٹگری X سے W میں ترقی دی گئی۔
سیاسی خدمات
مؤرخہ 25 مئی 1989ء کو آپ نے پاکستان عوامی تحریک کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی، جس کا بنیادی ایجنڈا پاکستان میں انسانی حقوق و عدل و انصاف کی فراہمی، خواتین کے حقوق کا تحفظ، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی، ملکی سیاست سے کرپشن اور دولت کے اثرات کا خاتمہ تھا۔
1990ء میں پاکستان عوامی تحریک نے پہلی بار عام انتخابات میں حصہ لیا۔
1991ء میں ملک میں جاری فرقہ واریت اور شیعہ سنی فسادات کے خاتمے کے لیے پاکستان عوامی تحریک اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے مابین اعلامیہ وحدت جاری کیا گیا۔
1989ء تا 1993ء انہوں نے اسمبلی سے باہر اپوزیشن کا کردار ادا کیا اور ملکی تعلیمی، سیاسی اور معاشی صورتحال پر حکومت وقت کو تجاویز ارسال کیں۔
1992ء میں آپ نے قومی اور بین الاقوامی ٹرانزیکشنز کا احاطہ کرنے والا بلاسود بینکاری نظام پیش کیا، جسے صنعتی و بینکاری حلقوں میں سراہا گیا۔
1998ء میں وہ سیاسی اتحاد پاکستان عوامی اتحاد کے صدر بنے، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی سمیت کل 19 جماعتیں شامل تھیں۔
2003ء – محترمہ بے نظیر بھٹو نے ان کے ادارہ کی تاحیات رفاقت اختیار کی۔
2003ء میں آپ نے فرد واحد کی آمریت کے خلاف قومی اسمبلی کی نشست سے استعفا دے دیا جو پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی رکن اسمبلی کی طرف سے پہلا استعفا تھا۔
2006ء میں جب ڈنمارک سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توہین آمیز خاکے بنائے گئے تو آپ نے اقوام متحدہ کو ایک احتجاجی مراسلہ بھیجا، جس کے ساتھ 15 کلومیٹر طویل کپڑے کا بینر بھی تھا جس پر 10 لاکھ سے زائد لوگوں کے دستخط ثبت تھے۔
توہین آمیز خاکوں کے حوالے سے آپ نے امریکا، برطانیہ، ڈنمارک، ناروے اور دیگر یورپی ممالک کی حکومتوں کو ’’دنیا کو تہذیبی تصادم سے بچایا جائے‘‘ کے نام سے ایک مراسلہ بھی جاری کیا۔
2009ء میں اسرائیل کے ہاتھوں ہونے والی غزہ کی تباہی کے بعد فلسطینی مسلمان بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے غزہ کانفرنس کا انعقاد ہوا، بعد ازاں متاثرین غزہ کے لیے امداد سامان روانہ کیا گیا۔
دینی خدمات
——
یہ بھی پڑھیں : ممتاز ڈرامہ نویس خواجہ معین الدین کا یوم وفات
——
آپ کے زیراہتمام لاہور میں ہر سال رمضان المبارک میں اجتماعی اعتکاف ہوتا ہے، جسے حرمین شریفین کے بعد دنیا کا سب سے بڑا اجتماعی اعتکاف کہا جاتا ہے۔
آپ کے زیراہتمام لاہور میں مینار پاکستان کے تاریخی مقام پر ہر سال میلاد کانفرنس منعقد ہوتی ہے، کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی میلاد کانفرنس ہے۔
آپ کے قائم کردہ گوشہ درود میں لوگ سارا سال دن رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ روئے زمین پر یہ ایسی واحد جگہ ہے جسے تاریخ میں پہلی بار ڈاکٹر طاہرالقادری نے قائم کیا۔
آپ کی قائم کردہ تحریک منہاج القرآن کی دنیا بھر میں شاخیں ہیں، جو تارکین وطن کی نئی نسل کو اسلام پر کاربند رکھنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔
علمی و ادبی خدمات
عرفان القرآن (اردو، انگریزی ترجمہ قرآن مجید)
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہزارہا دینی موضوعات پر اردو، انگریزی اور عربی میں خطابات کر چکے ہیں۔ کیو ٹی وی، اے ٹی وی، پی ٹی وی، پرائم ٹی وی اور اے آر وائے گاہے بگاہے ان کے خطابات نشر کرتے ہیں۔
بہت سے اسلامی موضوعات پر ان کی اردو، انگریزی اور عربی زبانوں میں سیکڑوں کتب شائع ہو چکی ہیں۔
عرفان القرآن کے نام سے آپ نے قرآن مجید کا سلیس اردو اور انگریزی زبان میں ترجمہ کیا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ترجمہ ہو کر تفسیری شان کا حامل ہے اور عام قاری کو تفاسیر سے بے نیاز کر دیتا ہے۔
تفسیر منہاج القرآن کے نام سےآپ قرآن مجید کی تفسیر پر کام کر رہے ہیں، سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کی تفسیر طبع ہو کر منظر عام پر آ چکی ہے۔
المنہاج السوی من الحدیث النبوی
المنہاج السوی کے نام سے ان کا حدیث مبارکہ کا ایک ذخیرہ طبع ہو چکا ہے، جس میں ریاض الصالحین اور المشکوٰۃ المصابیح کی طرز پر منتخب موضوعات پر احادیث مع تخریج پیش کی گئی ہیں۔
سیرت الرسول کے نام سے آپ کی تصنیف اردو زبان میں سیرت نبوی کی سب سے ضخیم کتاب ہے، جو 12 جلدوں پر مبنی ہے۔ اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات زندگی اور ان کی سیرت سے آج کے دور میں رہنمائی کے پہلوؤں پر کام کیا گیا ہے۔
میلاد النبی کے نام سے آپ نے میلاد منانے کی شرعی حیثیت کے حوالے سے ایک ضخیم کتاب تصنیف کی، جس میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں میلاد کی حیثیت اور سلف صالحین کا میلاد منانے کا طریقہ باتحقیق پیش کیا گیا ہے۔
اسلام اور جدید سائنس نامی تصنیف میں آپ نے ایک تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے، جس کے مطالعہ سے اسلامی تعلیمات کی سائنسی افادیت و ناگزیریت واضح ہوتی ہے۔
اسلام کے اقتصادی نظام کو آج کے دور میں قابل عمل ثابت کرنے کے لیے آپ نے اقتصادیات اسلام کے نام سے ایک ضخیم تصنیف بھی تحریر کی۔
حقوق انسانی نامی تصنیف میں اقلیتوں، خواتین ، بچوں اور عمررسیدہ اور معذور افراد کے حقوق سمیت بنیادی انسانی حقوق کو اسلام کی عطا ثابت کیا۔
عالمی سیاسی صورتحال میں عالم اسلام کو درپیش خطرات کے حوالے سے آپ کی تصنیف نیو ورلڈ آرڈر اور عالم اسلام خاص اہمیت کی حامل ہے۔
امام مہدی کے حوالے سے افراط و تفریط پر مبنی غلط فہمیوں کے ازالہ کے لیے القول المعتبر فی الامام المنتظر آپ کی اہم تصنیف ہے۔
اسلامی فقہ حنفی کے امام ابو حنیفہ کے علم حدیث میں مقام و مرتبہ کے حوالے سے امام ابو حنیفہ امام الائمہ فی الحدیث نامی ضخیم کتاب تمام اعتراضات اور غلط فہمیوں کا ازالہ کرتی ہے۔
کینیڈین شہریت
جب 2012ء میں ڈاکٹر طاہر القادری نے کرپٹ انتخابی نظام میں اصلاحات لانے کے لیے لانگ مارچ کی کال دی تو انکے سیاسی مخالفین نے میڈیا میں یہ خبر چلائی کہ انہوں نے 2008 میں عبدالشکور قادری کے نام سے کینیڈا میں سیاسی پناہ مانگی تھی اور کہا تھا کہ انہیں لشکرجھنگوی، سپاہ صحابہ اور طالبان سےجان کا خطرہ ہے۔
میڈیا کے مطابق 17 اکتوبر2009ء کو کینیڈین حکومت نے ان کا کیس منظور کیا تھا اور 2012ء میں انہیں کینیڈا کی شہریت اور پاسپورٹ دے دیا گیا، اس کے علاوہ طاہرالقادری مختلف امراض کی مد میں ویلفئیر فنڈز بھی لیتے رہے۔
قانون کے مطابق کینیڈا میں سیاسی پناہ لینے والا شخص اس ملک میں نہیں جا سکتا جہاں اس کی جان کو خطرہ ہے۔ اس سے سیاسی پناہ کا حلف توڑنے پر وضاحت کے لیے رائل کینیڈین مانیٹرنگ پولیس نے 5 فروری 2013ء کو کینیڈا میں طلب کیا۔
وقت نیوز کے مطابق طاہر القادری نے 5 برس قبل گستاخانہ خاکے بنانے والے ملعون کارٹونسٹ سے ملاقات کے بعد عبدالشکور قادری کے نام سے کینیڈا کی شہریت کے لیے درخواست دی تھی۔
تحریک منہاج القرآن کے ذرائع نے ان خبروں کو جھوٹا پراپیگنڈہ قراردیا اور اصل حقائق میڈیا کے سامنے رکھے۔ بعد میں جب غیر جانبدار اہل صحافت نے تحقیق کی تو یہ سب جھوٹ ثابت ہوا۔
تنقید
آپ کے کچھ مخالفین آپ کو امت کے لیے فتنہ گردانتے ہیں۔ نواز کھرل نے آپ کے خلاف متنازع ترین شخصیت نامی کتاب لکھی جو کوئی باقاعدہ تصنیف نہیں ہے بلکہ انکے مخالفین کی تحریروں کا مجموعہ ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : ڈرامہ نویس خواجہ معین الدین کا یوم پیدائش
——
کچھ علماء کرام موسیقی کو جائز قرار دینے پر ان سے ناراضی کا اظہار کرتے ہیں۔
اتحاد امت کی کوششوں اور شیعہ علماء سے اچھے تعلقات کی بناء پر شیعہ مخالف گروہوں نے ان پر تنقید کی۔
دیوبندی اور شیعہ طبقات کو بالعموم کافر قرار دینے سے انکار ، عورت کی نصف دیت کی مخالفت اور دیوبندی ، بریلوی عنوانات اختیار کرنے کو ناجائز قرار دینے پر بریلوی مکتبہ فکر کے بعض علماء نے انہیں اہل سنت سے خارج قرار دیا۔
بین المذاہب رواداری کے فروغ بارے کوششوں پر انتہا پسند مذہبی فکر رکھنے والے طبقے کی طرف سے بھی انہیں تنقید کا سامنا ہے۔
ان پر یہ بھی الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ یہ تحریک منہاج القرآن کے نام پر جمع ہونے والے فنڈز کو پاکستان عوامی تحریک کے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں، مگر تحریک منہاج القرآن کے ذرائع نے ان الزامات کو لغو قرار دیا۔
ان پر جھوٹے خواب سنا کر شہرت کے حصول کا بھی الزام ہے ، مگر مخالفین ان کے جھوٹا ہونے کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کرسکے۔