آج اردو کے نامور شاعر علّامہ سیماب اکبر آبادی کے فرزند اور جانشین اعجاز صدیقی کا یوم وفات ہے۔
——
اعجاز صدیقی ایک معروف اردو ادیب اور شاعر تھے۔ مشہور اردو شاعر، سیماب اکبرآبادی کے بیٹے تھے۔ اترپردیش کے آگرہ شہر میں پیدا ہوئے۔ 1923ء میں سیماب نے قصر الادب کی بنیاد رکھی تھی۔ سیماب اکبرآبادی نے 1930ء میں "شاعر” نامی رسالے کی ادارت شروع کی۔ وہی اس کے پہلے ایڈیٹر تھے۔ چند سال بعد یعنی 1935ء میں انہوں نے میں قصر الادب کی اہم سرگرمیوں کے علاوہ کسی اور پر توجہ مرکوز نہ کرنے کے لیے "شاعر” کے ادارت کی ذمے داری اعجاز صدیقی کے حوالے کر دی تھی۔
مہندر ناتھ جو کرشن چندر کے چھوٹے بھائی تھے اور خود افسانہ نگار تھے، "شاعر” کے کئی شماروں کی ادارت کی دیکھ ریکھ کرتے تھے۔
اس وقت اعجاز صدیقی کی نظموں کے دو مجموعے موجود ہیں ؛
——
یہ بھی پڑھیں : داغ دہلوی کے شاگرد علامہ سیماب اکبر آبادی کا یوم وفات
——
خوابوں کے مسیحا
کرب خود کلامی
ان دونوں کی اشاعت 1966ء میں ہوئی تھی۔
——
اعجاز صدیقی : ایک مختصر خاکہ از تاجدار احتشام صدیقی
——
شخصیت نگاری ایک مشکل ترین فن ہے اور کسی شخصیت پر قلم اٹھانا ایک نازک ترین مرحلہ ۔ کبھی صاحبِ شخصیت سے جذباتی رشتے لفظوں اور جملوں کی بندشوں پر بندھ باندھتے ہیں اور کبھی وقتی مصلحتیں اس شخصیت پر کچھ لکھتے وقت قلم کو روکتی ہیں ۔
میرے لیے یہ مرحلہ اور بھی نازک اور کرب ناک ہوجاتا ہے کہ مجھے اپنے والدِ محترم جناب اعجاز صدیقی کی شخصیت کے بارے میں کچھ کہنا ہے ۔
یہ میری بدقسمتی ہے کہ مجھے اس فریضے کو ادا کرنا ہے ۔ میں کوشش کر رہا ہوں کہ اس مختصر سے وقت میں آپ سے کچھ باتیں کروں ۔
والدِ محترم جناب اعجاز صدیقی صاحب 1913 میں آگرہ میں پیدا ہوئے ۔ ادب اور شعر و شاعری وراثت میں ملی ۔ ان کے دادا جناب مولوی محمد حسین اکبر آبادی ثم الاجمیری صاحبِ تصانیف تھے اور والد جناب سیماب اکبر آبادی اردو شعر و ادب کی ممتاز شخصیت ۔ انہوں نے ایک ہزار سے زائد طالبانِ شعر و ادب کی رہنمائی کی ۔
ان کے بیشتر شاگرد جو ہندوستان اور پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں شاعری اور ادب میں ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں ۔ سیماب اکبر آبادی نے ڈیڑھ سو سے زائد کتابیں تصنیف و تالیف کیں ۔ ان کے اہم ترین کارناموں میں قرآن مجید کا منظوم ترجمہ ، وحی ِ منظوم ، سیرۃ النبی اور مثنوی مولانا روم کا منظوم ترجمہ قابلِ ذکر ہیں ۔
سیماب اکبر آبادی نے نظم و نثر بلکہ ادب کی ہر صنف میں نمایاں کام سر انجام دیئے ۔
دادا جان محترم سیماب اکبر آبادی نے جو اخبار و رسائل نکالے ان میں اہم ترین ماہنامہ ” شاعر ” تھا جس کا اجراء فروری 1930 میں ہوا ۔ تقسیمِ ملک کے بعد فروری 1951 سے ماہنامہ ” شاعر ” بمبئی سے شائع ہونا شروع ہوا اور ہندوستان کا یہ واحد پرچہ اپنی طویل ادبی خدمات کے ساتھ آج بھی جاری ہے ۔
آج تیسری نسل اس کی آبیاری میں لگی ہے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : کیا یہ غمِ جاناں کا تو اعجاز نہیں ہے
——
فروری 1934 میں والد محترم جناب اعجاز صدیقی صاحب نے ” شاعر ” کی صدارت سنبھالی اور اپنی آخری سانس تک وہ اسے بنانے ، سنوارنے اور ادبی خدمات انجام دینے میں لگے رہے ۔
ماہانہ اشاعتوں کے علاوہ انہوں نے کئی ضخیم خاص نمبر بھی نکالے اور ہندوستان کے ادبی رسائل میں ایک نئی روایت قائم کی ۔
اس سلسلہ میں کرشن چندر ، غالب نمبر ، گاندھی نمبر ، ناولٹ نمبر ، افسانہ و ڈرامہ نمبر ، قومی یکجہتی نمبر اور ہم عصر اردو ادب نمبر کے نام خاص طور پہ لیے جا سکتے ہیں ۔
"شاعر ” ان کی زندگی کا ایک خص جزو تھا ، اور اردو ان کی روح میں رچی بسی ہوئی تھی ۔
اس مختصر سے مضمون میں میرے لیے یہ ممکن نہیں کہ میں ان کی طویل ادبی خدمات کا جائزہ لے سکوں ۔ انہوں نے اردو تحریک اور اردو زبان کی بقا اور ترقی کے لیے اہم ترین خدمات انجام دی ہیں ۔ اور اردو والوں کی رہنمائی کی ہے ۔
اردو کے سلسلہ میں وہ کسی سے بھی نہ تو مفاہمت و مصالحت کا تصور روا رکھتے تھے اور نہ ہی کسی طمع کی مصلحت کو بروئے کار لاتے تھے ۔
اردو سے انہیں جنون کی حد تک محبت تھی ۔ اپنی اس بات کی تائید میں میں ان کے لکھے ہوئے ترانۂ اردو کے چند اشعار پیش کر رہا ہوں :
——
مرنا بھی ساتھ اس کے ، جینا بھی ساتھ اس کے
ہم اس کے ہیں محافظ یہ پاسباں ہماری
قند و بنات سے ہے بڑھ کر مٹھاس اس کی
ہر دور میں رہی ہے یہ دل ستاں ہماری
ہیں جان سے بھی زیادہ ہم کو عزیز دونوں
ہندوستاں ہمارا ، اردو زباں ہماری
اعجازؔ مل کے گائیں اردو کا سب ترانہ
گونجے فضا میں ہر سو اُردو زباں ہماری
——
آل انڈیا ریڈیو گورکھپور سے نشر شدہ طویل مضمون سے چند اقتباسات
درونِ سخن ، صفحہ نمبر 13-14
——
اعجاز صدیقی اردو کے منفرد اور مشہور غزل گو شاعر ہیں ۔ ان کی غزل کی انفرادیت تسلیم کی جا چکی ہے ۔ جہاں تک نظم نگاری کا تعلق ہے اس میں بھی ان کا شمار چند بڑے نظم نگاروں میں ہوتا ہے ۔
ان کی کئی نظمیں جیسے قدم ملا کے چلو ، ہماری جنگ آزادی وغیرہ تاریخی شہرت اور مقبولیت حاصل کر چکی ہیں ۔
ان نظموں پر انہیں گراں قدر انعامات ملے ہیں ۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر ضیاؔ فتح آبادی کا یومِ وفات
——
ان کی ایک حالیہ نظم ” کربِ خود کلامی ” جو انہوں نے ہندو پاک کی جنگ سے متاثر ہو کر لکھی ہے ملک کے گوشے گوشے سے خراجِ تحسین وصول کر رہی ہے ۔
——
کرشن چندر بمبئی 18 دسمبر 1965 ء
ماخوذ: کربِ خود کلامی
——
منتخب کلام
——
ایک تم نے کیا دیا ہے فریبِ تعلقات
اعجازؔ کھا چکا ہے بہت دوستی کے زخم
——
پھر بھی نہ مطمئن ہوئی تہذیب ِ آستاں
ہم نے جبیں پہ ڈال لیے بندگی کے زخم
——
جب بھی کسی کے عیب و ہنر پر گئی نگاہ
ایسا لگا کہ اپنے ہی عیب و ہنر کھلے
——
تجھ سے ہوتا نہ اگر عشق و جنوں کا رشتہ
زندگی ۔ تیرے لیے خاک بہ سر کیا معنی
——
مری تیرگیٔ غم کے نہ کہیں جواب نکلے
کئی ماہتاب چمکے ، کئی آفتاب نکلے
نہ مجالِ دید جن کو ، نہ سلیقۂ تکلم
تری انجمن میں اکثر وہی باریاب نکلے
——
اُداس رات ہے خوابوں کا ایک ڈیرہ ہے
دل و نگاہ کو مایوسیوں نے گھیرا ہے
تڑپ تڑپ کے ہمیں نیند آ ہی جائے گی
غموں کی دھوپ کا سایہ بہت گھنیرا ہے
——
آج بھی بری کیا ہے کل بھی یہ بری کیا تھی
اس کا نام دنیا ہے یہ بدلتی رہتی ہے
——
پھر ذرا سی دیر میں چونکائے گا خواب سحر
آخر شب جاگنے کے بعد نیند آئی تو کیا
——
دنیا سبب شورش غم پوچھ رہی ہے
اک مہر خموشی ہے کہ ہونٹوں پہ لگی ہے
کچھ اور زیادہ اثر تشنہ لبی ہے
جب سے تری آنکھوں سے چھلکتی ہوئی پی ہے
——
ذروں کا مہر و ماہ سے یارانہ چاہئے
بے نوریوں کو نور سے چمکانا چاہئے
خوابوں کی ناؤ اور سمندر کا مد و جزر
ٹکرا کے پاش پاش اسے ہو جانا چاہئے
نشتر زنی تو شیوۂ ارباب فن نہیں
ان دل جلوں کو بات یہ سمجھانا چاہئے
ہو رقص زندگی کے جہنم کے ارد گرد
پروانہ بن کے کس لیے جل جانا چاہئے
کھودیں پہاڑ اور بر آمد ہو صرف گھاس
مصرعوں کو اس قدر بھی نہ الجھانا چاہئے
فن کار اور فن کے تقاضوں سے نا بلد
احساس کمتری ہے تو لڑ جانا چاہئے
نام حسین لے کے حقائق سے روکشی
ایسوں کو قبل موت ہی مر جانا چاہئے
——
یہ بھی پڑھیں : نامور شاعر عرش صدیقی کا یوم پیدائش
——
نور کی کرن اس سے خود نکلتی رہتی ہے
وقت کٹتا رہتا ہے رات ڈھلتی رہتی ہے
اور ذکر کیا کیجے اپنے دل کی حالت کا
کچھ بگڑتی رہتی ہے کچھ سنبھلتی رہتی ہے
ذہن ابھار دیتا ہے نقش حال و ماضی کے
ان دنوں طبیعت کچھ یوں بہلتی رہتی ہے
تہہ نشین موجیں تو پر سکون رہتی ہیں
اور سطح دریا کی موج اچھلتی رہتی ہے
چاہے اپنے غم کی ہو یا غم زمانہ کی
بات تو بہر صورت کچھ نکلتی رہتی ہے
زندگی ہے نام اس کا تازگی ہے کام اس کا
ایک موج خوں دل سے جو ابلتی رہتی ہے
کیف بھی ہے مستی بھی زہر بھی ہے امرت بھی
وہ جو جام ساقی سے روز ڈھلتی رہتی ہے
آج بھی بری کیا ہے کل بھی یہ بری کیا تھی
اس کا نام دنیا ہے یہ بدلتی رہتی ہے
ہوتی ہے وہ شعروں میں منعکس کبھی اعجازؔ
مدتوں گھٹن سی جو دل میں پلتی رہتی ہے
——
وحشت آثار و سکوں سوز نظاروں کے سوا
اور سب کچھ ہے گلستاں میں بہاروں کے سوا
اب نہ بے باک نگاہی ہے نہ گستاخ لبی
چند سہمے ہوئے مبہم سے اشاروں کے سوا
ساقیا کوئی نہیں مجرم مے خانہ یہاں
تیرے کم ظرف و نظر بادہ گساروں کے سوا
حسرتیں ان میں ابھی دفن ہیں انسانوں کی
نام کیا دیجیے سینوں کو مزاروں کے سوا
دور تک کوئی نہیں ہے شجر سایہ دار
چند سوکھے ہوئے پیڑوں کی قطاروں کے سوا
آپ کہتے ہیں کہ گلشن میں ہے ارزانئ گل
اپنے دامن میں تو کچھ بھی نہیں خاروں کے سوا
منزل شوق میں اک اک کو دیا اذن سفر
کوئی بھی تو نہ ملا جادہ شماروں کے سوا
زور طوفاں تو بہ ہر حال ہے زور طوفاں
کس سے ٹکرائے گی موج اپنی کناروں کے سوا
کون اس دور کے انساں کا مقدر بنتا
چند آوارہ و منحوس ستاروں کے سوا
کتنے قدموں کی خراشوں سے لہو رستا ہے
کس کو معلوم ہے یہ راہ گزاروں کے سوا
بات کرتے ہیں وہ اب ایسی زباں میں اعجازؔ
کوئی سمجھے نہ جسے نامہ نگاروں کے سوا
——
نظم : ترانۂ اردو
——
ہوگی گواہ خاک ہندوستاں ہماری
اس کی کیاریوں سے پھوٹی زباں ہماری
ہندو ہوں یا مسلماں عیسائی ہوں کہ سکھ ہوں
اردو زباں کے ہم ہیں اردو زباں ہماری
مرنا بھی ساتھ اس کے جینا بھی ساتھ اس کے
ہم اس کے ہیں محافظ یہ پاسباں ہماری
خسروؔ کبیرؔ تلسیؔ غالبؔ کی ہیں امانت
کیا بے نشان ہوگی پیاری زباں ہماری
قند و نبات سے ہے بڑھ کر مٹھاس اس کی
ہر دور میں رہی ہے یہ دلستاں ہماری
اس میں ٹنکے ہوئے ہیں کتنے حسیں ستارے
قوموں کی کہکشاں ہے اردو زباں ہماری
پھر چاہتا ہے اس کو دور جہاں مٹانا
ہوگی رقم لہو سے پھر داستاں ہماری
ہیں جاں سے بھی زیادہ ہم کو عزیز دونوں
ہندوستاں ہمارا اردو زباں ہماری
وہ بھی تو ایک دن تھا ہم میر کارواں تھے
تقلید کر رہا تھا ہر کارواں ہماری
ہم تو ہر اک زباں کو دیتے ہیں پیار اپنا
پھر کس لئے مٹائے کوئی زباں ہماری
ہم ضبط کی حدوں سے آگے نکل چکے ہیں
کب تک یہ آزمائش اے آسماں ہماری
اعجازؔ مل کے گائیں اردو کا سب ترانہ
گونجے فضا میں ہر سو اردو زباں ہماری