آج ممتاز قبل از جدید شاعر، کلاسیکی طرز کی شاعری کے لیے معروف شاعر سید فیاض علی زیدی (عروج زیدی بدایونی) صاحب کا یوم وفات ہے۔

——
نام سید فیاض علی زیدی اور تخلص عروج تھا۔ 25 ستمبر 1912ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ فیاض علی زیدی کے آباواجداد کا وطن بدایوں تھا، اس لیے یہ بدایونی کہلائے۔ ان کی ابتدائی تعلیم قدیم اسلوب پر قبضہ ہاپوڑ، ضلع میرٹھ میں ہوئی۔ اپنے آبائی وطن بدایوں میں انٹر کیا۔ بدایوں کی سکونت ترک کر کے رام پور کو مستقر بنایا۔
1930ء میں ادبی سفر کا آغاز کیا۔ احسن مارہروی سے تلمذ حاصل تھا۔ فیاض علی زیدی کا کلام رسالہ ’’نگار‘‘ میں چھپتا رہتا تھا۔
سید فیاض علی زیدی 4 فروری 1987ء کو رام پور میں انتقال کر گئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر اور ادیب محسنؔ زیدی کا یومِ وفات
——
فیاض علی زیدی کے شعری مجموعوں ’’شمع فروزاں‘‘، ’’متاع فکر‘‘ اور ’’سفینۂ غزل ‘‘ پر اترپردیش اردو اکیڈمی نے انھیں ایوارڈ دیے۔
نثر میں ان کی مشہور کتاب ’’زندہ کتبے‘‘ ہے۔
——
عروج زیدی بدایونی کے کلام کی خصوصیات از ماہر القادری
——
فیاض علی زیدی کے کلام کی سب سے بڑی خصوصیت سادگی و پرکاری ہے ، وہ بلند سے بلند مطلب اور گہرے سے گہرے مفہوم کے لیے انتہائی سادہ ، سلیس اور مترنم الفاظ لاتے ہیں ۔ اسی چیز نے ان کی شاعری میں سوز و درد پیدا کر دیا ہے اور ان کے کلام میں زندہ رہنے کی قوت نظر آتی ہے۔
عروج زیدی بدایونی کے اشعار پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر کے دل میں نہ جانے کب سے محبت کی آگ سُلگ رہی ہے اور وہ اب ان شعلوں کو ظاہر اور آشکار کرنا چاہتا ہے ۔ عروج زیدی بدایونی کے شعروں میں سچ مچ آگ بھری ہوئی ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ کہیں ان کی شاعری ہندوستان میں بلخ کے ” آتشکدۂ نو بہار” کی بنیاد نہ ڈال دے ۔
فیاض علی زیدی یقیناََ محسوس کر کے شعر کہتے ہیں ۔ اور شعر سوچتے وقت اُن کے دل کی چوٹیں اُبھر آتی ہیں ۔
فیاض علی زیدی کی شاعری دماغ کی نہیں دل کی شاعری ہے ۔ وہ خود اپنے جذبات کو افکار کے سانچے میں ڈھالتی ہے ۔ ان کے مشاہدات و خیالات نہ تو مستعار ہیں اور نہ رسمی ۔ اور اسی چیز نے ان کی شاعری کو زندگی کے بہت قریب کر دیا ہے ۔
سلاست اور سادگی کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیں :
——
نزع میں ہاں فرض ہے آنا ترا
یہ نہیں کہتا کہ ” آنا چاہیے ”
——
دوسرے مصرعہ میں شاعر نے سوز و درد کا آتشکدہ بند کر دیا ہے کہ پڑھیے اور انگاروں پر لوٹئے
——
دل کی گہرائی میں غم کا بیج بونا ہے مجھے
یعنی اس کوزے میں دریا کو سمونا ہے مجھے
——
مجھے یقین ہے کہ یہ شعر مشہور ہو کر ضرب المثل بن جائے گا ۔
——
درِ جنت پہ میں پہنچا تو یہ غیبی پیام آیا
جہاں پہلے پہل کھائی تھی ٹھوکر وہ مقام آیا
——
آدم و گندم کے مشہور واقعہ کو بہت سے شعراء نے نظم کیا ہے مگر عروج زیدی بدایونی کا اندازِ بیان بالکل اچھوتا ہے ۔ دوسرے مصرعہ میں لفظوں کی ترتیب نے شعر کو سحرِ حلال بنا دیا ہے۔
عاشق کا مرنا ، جینا محبوب کی ہاں اور نہیں سے وابستہ ہوتا ہے ۔ اسی خیال کو عروج زیدی بدایونی اپنے انداز میں ظاہر کرتے ہیں:
——
اِک لفظ میں ” نہیں ” کے طوفاں کی وسعتیں ہیں
جب چاہو تم ڈبو دو امید کا سفینا
——
جب چاہو تم ڈبو دو قیامت کا ٹکڑا ہے جو سمجھنے سے زیادہ محسوس کرنے کی چیز ہے ۔ اسی شعر میں معنویت کے ساتھ کتنے بہت سے لطیف پہلو پائے جاتے ہیں ۔
——
تمہارا نام لے کر محویت اس درجہ ہوتی ہے
مجھے یہ سوچنا پڑتا ہے ، لب پر کس کا نام آیا
——
محبوب کا نام لے کر یہ سوچنا کہ کس کا نام لب پر آیا تھا ، محویت کی انتہا اور استغراق کا کمال ہے ۔
——
آپ کی پہلی نظر نے دل کی دنیا لوٹ لی
ابتدا کی ابتدا ، انجام کا انجام تھا
——
انتہائی سادہ الفاظ سے معنویت کا دل پذیر خاکہ تیار کیا ہے ۔ شعر نہیں فریاد ہے ۔
سچ کہا تھا کسی نے کہ شاعر سفاک اور بیدادگر ہوتے ہیں ۔
——
لب پہ شکرِ دوست ، دل میں اک طوفانِ خلش
اس طرح گاؤں گا کب تک زندگی کے ساز پر
——
شکرِ دوست کہہ کر شاعر نے کتنی لطیف طنز کا اظہار کیا ہے ۔ اس پر مستزاد:
——
آتشیں بادہ ڈھلے غیر کے پیمانے میں
آگ لگ جائے نہ ساقی کہیں میخانے میں
——
رشک کے موضوع پر شاعروں نے کیا کچھ نہیں کہا ، اور اس میدان میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ۔ مگر جناب عروجؔ یہاں بھی دوسرے شاعروں کی بھڑکائی ہوئی آگ سے دامن بچا کے گزرے ہیں :
——
رفتہ رفتہ اس قدر مشقِ تصور بڑھ گئی
آپ جس محفل میں ہیں ، میں بھی اُس محفل میں ہوں
——
عروج زیدی بدایونی کی نفسیات پر کتنی گہری نظر ہے ، صوفیوں کے لیے اس شعر میں وجد و حال کے محرکات موجود ہیں ۔
——
ہجر میں اس خوف سے آہ و فغاں کرتا نہیں
تم نہ گھبرا کر نکل آؤ کہیں میرے لیے
——
شعر نہیں کہا ، دل کا کانٹا نکالا ہے ۔ شعر کی اثر انگیزی الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی ۔ ایک ایک لفظ چوٹ کھائے ہوئے ہے ۔ دل کی زبان بن کر ” آپ بیتی ” سنا رہا ہے۔
——
نامۂ اُلفت کا یہ کتنا جوابِ صاف ہے
حُسن نے بھیجا ہے اک سادہ ورق میرے لیے
——
نظم کا شعر ہے مگر بہت زیادہ تغزل آمیز ،
——
محبت حُسن کی آغوش میں تسکین پاتی ہے
ملیں گی تتلیاں سوتی ہوئی پھولوں کے دامن میں
——
یہ شعر اُن ” ترقی پسند ” شاعروں کے لیے مشعلِ راہ بن سکتا ہے جو نامانوس ترکیبوں کے ذریعہ نیچرل شاعری کے عجیب و غریب نمونے پیش کرتے رہتے ہیں ۔ اور جو جدت اور بد مذاقی میں فرق نہیں کر سکتے۔
——
لے گئی آغوشِ غربت میں مری وحشت مجھے
اور میں دیتا رہا صبحِ وطن کا واسطہ
——
عروجؔ صاحب کی جرأتِ بیباک کو کیا کہیے کہ وہ اس ” آتشیں ماحول ” میں اپنے اشعار چھپوا رہے ہیں ۔ میں اپنے بہت پہلے کہے ہوئے اس شعر کو
——
عقل کی مصلحت اندیش سیاست کی قسم
عشق پروانے کی جرات کے سوا کچھ بھی نہیں
——
عمل کے سانچے میں ڈھلتا ہوا دیکھ رہا ہوں ۔
——
ماہر القادری، حیدر آباد دکن ، 19 فروری 1942
از عروج کے سو شعر صفحہ نمبر 4 -9
——
منتخب کلام
——
مٹانا چاہو تو مجھ پر ستم کی حد کرو
چراغ ہلکی ہوا سے بجھا نہیں کرتے
——
ترے رنگین جلووں پر ہزاروں جنتیں قرباں
تجھے دیکھیں کمالِ حسنِ فطرت دیکھنے والے
——
تھا مرا شوقِ طلب ناکامیابی کا سبب
جب ہٹا پیچھے تو خود لینے بڑھی منزل مجھے
——
ہر طرف سے یوں مجھے دل کی صدا آتی ہے
جیسے دیوانہ پکارے کسی دیوانے کو
——
وہ کہتے ہیں تسلیم کے بندے نہیں دیکھے
اے عہدِ گزشتہ مری تاریخ اُٹھا لا
——
زخمِ عصیاں نوجوانی میں تو بھر سکتا نہیں
صبحِ پیری کام دے گی مرہمِ کافور کا
——
رُخ سے جب گیسو ہٹیں تو ان کی صورت دیکھیے
شامِ محشر دیکھ کر صبحِ قیامت دیکھیے
یوں تو ہر آنسو ہے الطاف و کرم کا مستحق
جس کو وہ دامن سے پونچھیں اُس کی قسمت دیکھیے
——
گیا قریب جو پروانہ رہ گیا جل کر
جمال خاص حدوں تک جمال ہوتا ہے
——
اس دلبری کی شان کے قربان جائیے
اب دل دہی کو آئے ہیں جب دل نہیں رہا
——
قدم قدم پہ میں سنبھلا ہوں ٹھوکریں کھا کر
یہ ٹھوکروں نے بتایا غلط روی کیا ہے
——
گفتگو ہوتی ہے اکثر شبِ تنہائی میں
ایک خاموش تکلم تری تصویر میں ہے
——
فکر بیش و کم نہیں ان کی رضا کے سامنے
یہ مجھے تسلیم ہے ارض و سما کے سامنے
——
ہر قدم پر مجھے لغزش کا گماں ہوتا ہے
چشمِ ساقی کی نوازش کا گماں ہوتا ہے
——
یہ بھی پڑھیں : نامور شاعر ناصر زیدی کا یوم ِ وفات
——
تم مرے حال پریشاں پہ نہ تنقید کرو
تم نے دامن کبھی کانٹوں میں بھی الجھایا ہے
——
چاند تاروں کا ترے روبرو سجدہ کرنا
خواب دیکھا ہے تو کیا خواب کا چرچا کرنا
——
ہاں میرے واسطے ہے تخصیص کا یہ پہلو
دنیا سمجھ رہی ہے انداز بے رخی ہے
——
حسنِ نظر کا جادو سر چڑھ کے بولتا ہے
اصنام مرمریں بھی لگتے ہیں سیم تن سے
——
خواب کا عکس کہاں خواب کی تعبیر میں ہے
مجھ کو معلوم ہے جو کچھ مری تقدیر میں ہے
——
عروجؔ تیرگیٔ شب کا احترام کرو
اسی سے تم نے یہ جانا کہ تیرگی کیا ہے
——
عشق کے ہاتھوں میں پرچم کے سوا کچھ بھی نہیں
اس کا عالم تیرے عالم کے سوا کچھ بھی نہیں
——
نقشِ خیال آپ کی تصویر بن گیا
یہ معجزہ ہوا ہے نمایاں کبھی کبھی
——
رفتہ رفتہ دل بے تاب ٹھہر جائے گا
رفتہ رفتہ تری نظروں کا اثر جائے گا
——
یہ بھی پڑھیں : مشہور و معروف شاعر بیخودؔ بدایونی کا یوم پیدائش
——
اپنا اعجازِ تصور دیکھنے کی چیز ہے
ہم جو چاہیں تو مکاں میں لا مکاں پیدا کریں
——
میری نظروں میں یہی حسن تغزل ہے عروجؔ
شعر گوئی کا مزا پیروی میرؔ میں ہے
——
تکلیف التفات گریزاں کبھی کبھی
یوں بھی ہوئی ہے پرسش پنہاں کبھی کبھی
معراج دید جلوۂ جاناں کبھی کبھی
ہم بھی رہے ہیں نازش دوراں کبھی کبھی
یہ اور بات ربط مسلسل نہ کہہ سکیں
چوما ہے ہم نے دامن جاناں کبھی کبھی
نقش خیال آپ کی تصویر بن گیا
یہ معجزہ ہوا ہے نمایاں کبھی کبھی
بندہ نوازئ کرم گاہ گاہ سے
ہم بھی تھے کائنات بداماں کبھی کبھی
لغزش کی بات ورثۂ آدم کی بات ہے
کھاتا ہے ٹھوکریں دل انساں کبھی کبھی
کروٹ بدل گئی ہے تری وضع التفات
دیکھا ہے یہ بھی خواب پریشاں کبھی کبھی
یہ سرکشی کے نام سے منسوب ہی سہی
ہوتا ہے دل بھی سر بہ گریباں کبھی کبھی
اکثر نشاط سیر گلستان بے خزاں
اندازۂ فریب بہاراں کبھی کبھی
میرے لبوں پہ موج تبسم کے باوجود
غم ہو گیا ہے رخ سے نمایاں کبھی کبھی
کہنا پڑا ہے جلوۂ صد رنگ روکئے
نظریں ہوئی ہیں اتنی پریشاں کبھی کبھی
خود اپنے آس پاس اندھیروں کو دیکھ کر
گھبرا اٹھی ہے صبح بہاراں کبھی کبھی
دامن بچا کے ہم تو گزر جائیں اے عروجؔ
خود چھیڑتی ہے گردش دوراں کبھی کبھی
——
دل نے ٹھوکر کھا کے سمجھا حادثہ کیا چیز ہے
غم کسے کہتے ہیں درد لا دوا کیا چیز ہے
محو حیرت ہوں یہ دنیا سے جدا کیا چیز ہے
آپ کا پیغام بے حرف و صدا کیا چیز ہے
اس کے معنی خود پسندی کے سوا کچھ بھی نہیں
دل میں پیہم خواہش داد وفا کیا چیز ہے
اب اندھیرا ہی اندھیرا ہے افق تا بہ افق
اس حقیقت میں خلاف ماجرا کیا چیز ہے
کفر ہے یہ سوچنا بھی کاروبار عشق میں
مدعا کیا شے ہے ترک مدعا کیا چیز ہے
سر ہے زیب دار لیکن لب تبسم آشنا
حق نوائی پر میں خوش ہوں یہ سزا کیا چیز ہے
کار آرائی سعیٔ شوق ہے پیش نظر
ورنہ سوچو جنبش پردہ کشا کیا چیز ہے
ہم رضائے دوست میں راضی ہیں یہ سچ ہے تو پھر
دیکھنا ہوگا کہ دستور دعا کیا چیز ہے
رفتہ رفتہ تم پہ سب کچھ آئنہ ہو جائے گا
کیا بتاؤں سعیٔ ترک مدعا کیا چیز ہے
جلوہ گاہ ناز سے اٹھنا کوئی آساں نہیں
پہلے یہ دیکھو یہاں زنجیر پا کیا چیز ہے
جن کی فطرت ناشناس ذوق محکم ہے عروجؔ
میں انہیں یہ کیسے سمجھاؤں وفا کیا چیز ہے
چاند تاروں کا ترے روبرو سجدہ کرنا
——
خواب دیکھا ہے تو کیا خواب کا چرچا کرنا
حسن برہم سے مرا عرض تمنا کرنا
جیسے طوفان میں ساحل سے کنارا کرنا
راس آئے گا نہ یہ کوشش بے جا کرنا
بد گمانی کو بڑھا کر مجھے تنہا کرنا
میری جانب سے ہے خاموش دریچے کا سوال
کب سے سیکھا تری آواز نے پروا کرنا
ہر قدم پر مری کانٹوں نے پذیرائی کی
جرم پوچھو تو بہاروں کی تمنا کرنا
دعوت شوخیٔ تقدیر اسے کہتے ہیں
کار امروز نہ کرنا غم فردا کرنا
ان کی محتاط نگاہی نے بھرم کھول دیا
جن کو منظور نہ تھا راز کا افشا کرنا
وقت کے ہاتھوں میں تریاک بھی ہے زہر بھی ہے
اس کو یک رنگ سمجھ کر نہ بھروسا کرنا
ترجمان غم دل ان کی نظر ہوتی ہے
جن کو آتا نہیں اظہار تمنا کرنا
خود نمائی نہیں انسان کی خودداری ہے
پرچم عظمت کردار کو اونچا کرنا
ظلمت جنبش لب کی نہیں امید مگر
نگہ ناز نہ بھولے گی اشارا کرنا
گو میں یوسف نہیں دامن تو مرے پاس بھی ہے
تم ذرا پیروی دست زلیخا کرنا
اے کہ تو نازش صناعیٔ دست فطرت
کاش آتا نہ تجھے خون تمنا کرنا
جادۂ عشق میں اک ایسا مقام آتا ہے
شرط اول ہے جہاں ترک تمنا کرنا
آپ کے عہد وفا پر مرا ایماں جیسے
کسی گرتی ہوئی دیوار پہ تکیہ کرنا
کوشش ضبط میں ہر سانس قیامت ہے عروجؔ
کھیل سمجھے ہو غم دل کو گوارا کرنا