آج معروف مصنف، شاعر اور نقاد فراق گورکھپوری کا یوم پیدائش ہے

——
فراق گورکھپوری مصنف، ادیب، نقاد اور شاعر تھے۔ اُن کا شمار بیسویں صدی کے اردو زبان کے صفِ اول کے شعرا میں ہوتا تھا۔ ان کا اصل نام رگھو پتی سہائے تھا۔
جدید شاعری میں فراق کا مقام بہت بلند ہے۔ آج کی شاعری پر فراق کے اثر کو باآسانی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ بہترین شخصیت کے مالک تھے۔ حاضر جوابی میں ان
کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ بین الاقوامی ادب سے بھی شغف رہا۔ تنقید میں رومانی تنقید کی ابتدا فراق سے ہوئی۔
ان کے معاصرین میں شاعر مشرق علامہ اقبال، فیض احمد فیض، کیفی اعظمی، یگانہ یاس چنگیزی، جوش ملیح آبادی، جگر مرادآبادی اور ساحر لدھیانوی جیسے شاعر ہیں۔ اتنی عظیم ہستیوں کی موجودگی کے باوجود انہوں نے ابتدائے عمر میں ہی اپنی شاعری کا لوہا منوالیا۔
فراق گورکھپوری پی سی یس اور آئی سی یس (انڈین سول سروس) کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ لیکن گاندھی جی کی تحریک عدم تعاون کی مخالفت میں استعفی دے دیا۔ جس کی پاداش میں انھیں جیل جانا پڑا۔ اس کے بعد وہ جامعہ الٰہ آباد میں انگریزی زبان کے لیکچرر مقرر ہوئے۔ یہیں سے وہ دنیائے شعر و ادب کے آسمان پر سورج بن کر چمکے اور ناچاہتے ہوئے بھی معاصرین کو ماننا پڑا کہ بلا شبہ فراق اور دیگر شعرا کی شاعری میں فرق تو ضرور ہے۔ ان میں ایک انفرادیت تھی جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو بطور شاعر منوا پائے۔ ان کی شہرہ آفاق کتاب گل نغمہ بھی اسی دوران منظر عام پر آئی۔ جس کو ہندوستان کا اعلیٰ معیار ادب گیان پیٹھ انعام بھی ملا۔ اور وہ آل انڈیا ریڈیو کے پروڈیوسر بھی رہے۔
بطور ممتاز شاعر انہوں نے اردو شاعری کی اہم اصناف مثلاً غزل، نظم، رباعی اور قطعہ میں کے وہ ایک منفرد شاعر ہیں جنھوں اردو نظم کی ایک درجن سے زائد اور اردو نثر کی نصف درجن سے زائد جلدیں ترتیب دیں اور ہندی ادبی اصناف پر متعدد جلدیں تحریر کیں، ساتھ ہی ساتھ انگریزی ادبی وثقافتی موضوعات پر چار کتابیں
بھی لکھیں۔
فراق گورکھپوری کا انتقال طویل علالت کے بعد 3 مارچ 1982ء کو 85 سال کی عمر میں نئی دہلی میں ہوا۔ میت الہ آباد لے جائی گئی جہاں دریائے گنگا اور دریائے جمنا کے
سنگم پر نذر آتش کیا گیا
——
تصانیف
——
گل نغمہ
گل رعنا
مشعل
روح کائنات
روپ
شبستان
سرِغم
بزم زندگی رنگ شاعری
——
یہ بھی پڑھیں : مرزا سلامت علی دبیر کا یوم پیدائش
——
اعزازات
——
1960: ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ
1968: پدم بھوشن
1968: سویت لینڈ نہرو ایوارڈ
1969: گیان پیٹھ انعام، اردو شاعری میں پہلا گیان پیٹھ انعام
1981: غالب اکیڈمی ایوارڈ
——
فراق گورکھپوری کی عشقیہ شاعری کے اہم عناصر
——
فراق ایک ہوۓ جاتے ہیں زماں و مکاں
تلاش دوست میں میں بھی کہاں نکل آیا
——
فراق گورکھپوری کے کلام کی خصوصیات
فراق کی عشقیہ شاعری روایت سے نمو پا کرا پنی انفراد یت کا اظہار کرتی ہے ۔ان کے ذہن میں عشق کا تصور بھی نہایت وسیع اور لا محدود تھا۔ اردو کے کلاسیکی شعراء اور انگر یز ی ادب بالخصوص رو مانی دور کے شعراء سے بے حد متاثر تھے۔ انھوں نے سنسکرت ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ ہندی شاعری کی بد ولت ہندو ستا نی تہذیب وتمدن سے فطری وابستگی اور دلچسپی تھی ۔ اسطرح انگریز ی روو اور ہندی شعری روایت نے ان کی اد بی بصیرت کو نہ صرف وسعت دی بلکہ ایک معیار بھی بخشا۔ وہ خود لکھتے ہیں کہ۔
میں محض اپنے دل و دماغ کے بوتے پر عشقیہ شاعری کر نا کا فی نہیں سمجھتا تھا بلکہ کا لیداس اور بھو بھو ت ہند ی بنگا لی اور مغر بی ادب فارسی ادب اور اردو ادب کے بھی قیمتی کلچری عناصر کے سہارے عشقیہ شا عر ی کر نا چا ہتا تھا ۔ میرا عقید ہ رہا ہے کہ عشقیہ شاعری کرنے کے لیے محض دل و دماغ کی ضرورت نہیں بلکہ ایسے دل و دماغ کی ضرورت ہے جسے کلچر نے رچا یا اور سجا یا ہو ۔‘‘
ان تمام روایات سے فیض یاب ہو نے کے بعد ان کے ذہن میں عشق کا با معنی تصور فروغ پاتا ہے جسے انہوں نے اپنی شاعری کے قالب میں ڈھالا ۔ان کے عشق کو ارضی دیکھنے کے ۔ کسی خاص فر د واحد با شخصیت سے مختص نہیں کیا جا سکتا ۔ان کی شاعری میں محبوب حسن کا بیان مظاہر فطرت سے جڑ جا تا ہے ۔ بقول حسن عسکری۔
جب وہ محبو ب کے حسن کے متعلق سو چتے ہیں تو ساتھ ساتھ کائنات کا حسن بھی اس کے ہم دوش ہو تا ہے۔ یہ معاملہ محض تشبیہ اور استعارے کانہیں بلکہ اس سے ما وراء بہت کچھ ہے ۔‘‘( ۲ ) نظم گو شعرا ء تو ایسا بآ سانی کر سکتے ہیں لیکن غزل میں مظاہر فطرت کی پاکیزگی لطافت اور زیرو بم کو پیش کر کے غزل کو معنویت عطا کی ہے
——
یہ مہکی چاندنی یہ نرم لو ستاروں کی
ترے شباب کا آئینہ رات کا جوبن
——
نکلتے بیٹھتے دنوں کی آہٹیں نگاہ میں
رسیلے ہونٹ فصل گل کی داستان لیے ہوۓ
——
تو دن کی طرح حسیں رات کی طرح پرکیف
جہاں بھی جاۓ بہ انداز مہرومہ جاۓ
——
جو تیرے گیسوۓ پرخم سے کھیل بھی نہ سکیں
ان انگلیوں سے ستاروں کو چھیٹر سکتا ہوں
——
شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں
——
وه رات گوش بر آواز تھے جب انجم و مہ
تری نگاہ کہانی سی جیسے کہہ جاۓ
——
تصور میں تجھے ذوق ہم آ غوشی نے بھینچا تھا
بہا ریں کٹ گئی ہیں آ ج تک پہلو مہکتا ہے
——
میں آ سما ن محبت په رخصت شب ہوں
ترا خیال کو ئی ڈوبتا ستارہ ہے
——
فراق گورکھپوری نے اپنے کلام کے دیباچوں اور مکا تیب میں اپنی عشقیہ شاعری کے محرکات پر بار بار روشنی ڈالی ہے ۔ ان کی غزلوں، نظموں اور رباعیات میں مظا ہر فطرت سے شدید انس ومحبت کا اظہا ر ملتا ہے ۔ اس جذ باتی لگاؤ کا نتیجہ ہے کہ رات پچھلا پہر شفق ستارے دھنگ کلیاں مہ و انجم کا تذکرہ محض تذ کر نہیں بلکہ بصیرت بھرا تجر بہ و مشاہدہ بن جا تا ہے ۔ ورڈ زورتھ کی طرح فطرت کی رعنائیوں کو جذب کر نے اور پھر انھیں فطری اظہار کی شکل دینے کی صلاحیت رکھتے تھے درحقیقت وہ جمال اور جمالیاتی کیفیات کا ایسا ادراک رکھتے تھے جو نہایت اعلی و ارفع اور وسیع تھی، انھوں نے اپنے کئی شعری مجموعوں کے دیباچوں میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ حسین چیزوں کو محض حسین سمجھ کر نہیں دیکھتے بلکہ ان سے متعلق تمام جزئیات کو اپنے تخیل میں اتار لیتے ہیں ۔ ان کے نز دیک عشقیہ شاعری کے لیے کافی نہیں کہ کوئی انسان احساساتی سطح پر دوسروں سے زیا دہ شدید دیر پا لطیف اور رنگین جنسی اور رومانی جذ بات رکھتا ہو ۔ نہ ہی محض خارجی اور داخلی مشاہدہ اسے عشقیہ شاعر بنا سکتا ہے ۔ صیح معنوں میں عشقیہ شاعر کو جن صفات کا حامل ہو نا چا ہیے، ان کی تفصیل وہ یوں بیان کر تے ہیں کہ
پر عظمت عشقیہ شاعری کے لیے یہ ضر وری ہے کہ شاعر کی ادراکی جمالیاتی یا وجدانی اور اخلاقی گلیا ں وسیع ہوں ۔ اس کی شخصیت ایک وسیع زندگی اور وسیع کلچر کی حامل ہو ۔ اس کا دل و دماغ بڑا ہو۔ اس کے شعور کی تھر تھراہٹوں میں آفاقیت ہو ۔ ( ۱ )
فراق گورکھپوری کی شاعری میں حسن کی شمولیت اور شعوری و لاشعوری سطح پر تلاش حسن کے محرکات کو ذرا سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ ہر فرد اپنے مخصوص حالات کا پروردہ ضرور ہو تا ہے چاہے اس کی تخلیقی صلاحیتیں اسے زماں ومکاں کی قید سے آزاد کرا دیں لیکن اس میں شک نہیں کہ ہر فرد کے کئی شعوری و لا شعوری اعمال و افعال کا دارومد بعد ازاں مخصوص حالات پر ہوتا ہے جن میں وہ تربیت و پرورش پاتا ہے ۔ اس نفسیاتی نکتہ کی بنیاد پر فراق کی ذاتی زندگی کا تجز یہ کیا جاۓ تو چند تلخ حقائق سامنے آ تے ہیں ۔ انھوں نے خود بھی بار بار اپنی ناآسودہ زند گی کا تذ کرہ کیا ہے ۔ وہ فطرتا ایک حسن پرست انسان تھے ۔ بچپن ہی سے انھیں حسین لوگ پسند تھے اوراحسا س حسن ان کے رگ و پے میں دوڑ رہا تھا۔ بچپن ہی سے حسن پرستی کے اس عنصر کو بیان کر تے ہو ئے وہ لکھتے ہیں۔ کہ جب میں ایک سال کا ہوا تو میرا احساس وشعور عجیب رنگ سے بیدار ہوا ۔ میرے گھر میں آنے جا نے وا لوں کا سلسلہ لگا ہی رہتا تھا اور آنے والے حضرات میں اکثر مجھے گود میں لینا پاہتے تھے لیکن فطری طور پر میں کسی بدصورت کی گود میں نہیں جا تا تھا ۔ ( ۲ ) وہ حسن پرستی جو بچپن ہی سے ان کی شخصیت پر عادی تھی وقت اور عمر کے ساتھ پختہ تر ہوتی گئی ۔ بلکہ زندگی کے ایک حادثے نے عمل کو اور بھی منیر کر دیا۔ فراق اپنی شادی کو خانہ بربادی سے تعبیر کرتے تھے اور اسے اپنے لیے اور اپنے خاندان کے لیے منحوس سمجھتے تھے ۔ ان کے خیال میں اس شادی کے بعد ان کے خاندان میں بربادیاں اور موتیں ہوئیں ۔ انھیں اپنی بیوی کی بدصورتی سے نفرت تھی اور یہ نفرت زہر بن کر ان کی زندگی میں سرایت کر گئی ۔ اس شادی نے فراق کے اعصاب کو جنجھوڑ کر رکھ دیا اور دہ بے خوابی کے مرض میں مبتلا ہو گئے ۔ اس شادی کو وہ دھوکہ قرار دیتے تھے ۔ اس ضمن میں مشتاق نقوی کا بیان ہے کہ اس زمانے میں لڑکی کو شادی سے پہلے دیکھنے کا رواج نہ تھا۔ گھر کی نو کرانیاں کسی بہانے مناسب موقع پر جا کر لڑکی دیکھ آتی تھیں ۔ اور ان کی رپورٹ پر شادی کا انحصار ہوتا تھا ۔فراق کے گھر سے جو نوکرانی گئی تھی اس نے آ کر لڑکی کے حسن و جمال کی بڑی تعریف کی ۔ بعد میں پتہ چلا کہ نوکرانی کو جو لڑکی دکھائی گئی تھی وہ ان کی خالہ زاد بہن تھی اس لیے فراق اپنی شا دی کو دھوکے سے تعبیر کرتے تھے ۔ ( ۱ ) فراق بچپن ہی سے بڑی جذباتی اور حساس تھے اپنے اردگرد کی ہر شے سے انھیں تعلق اور انس تھا۔ پالتو پرندوں جانوروں اور محلے والوں سے خاص لگاؤ تھا وہ اپنے ہم عمر بچوں سے زیادہ ذہین تیز طرار اور ہوش مند تھے ۔ انکی شخصیت میں متضاد رحجانات جمع تھے وہ بیک وقت سخت گیر تھے وہیں رحم دل بھی تھے ۔ فراخ دل بھی اور محتاط بھی۔ اسطرح ان کی شخصیت بڑی انوکھی دلچسپ اور حیرت انگیز تھی ۔ وہ اپنی شاعری کو زندگی کی سب سے بڑی خوشی قرار دیتے تھے ۔ لڑکپن میں انھیں اپنے والد صاحب کی نظموں اور غزلوں کا ایک مسودہ مل گیا، جو ایک مدت تک ان کے زیر مطالعہ رہا ۔ ان کی شعر و شاعری کا چسکا بڑے عرصے تک ذوق تنہائی میں پروان چڑھتا رہا۔ ان ایام میں شاعری کو جاۓ پناہ و سکون قرار دیتے تھے ۔ خود میری گھریلو اور ازدواجی زند گی تمام تر تلخ ناخوشگوار اور کڑوی رہی ہے مجھے گھر کا سکھ ہی نہیں ملا اور میری عشقیہ زندگی میں چند خوشگوار لمحوں کی وہی حیثیت رہی ہے جو دکھی اور کالی رات میں کبھی بھی بجلی کے چمک جانے کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ اس کے زیر اثر میرے وجدان نے مجھ سے ایسی عشقیہ شاعری کرائی جس میں غم اور دکھ کو ہر گز جھٹلایا نہ گیا ہو ۔‘‘ عظیم فن پارہ محض ذاتی حالات یا ہنگامی حالات کا نتیجہ نہیں ہوتا اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ فنکار ذاتی سطح سے اوپر اٹھ کر کائنات فرد اور حالات کو سمجھے محسوس کرے اور پھر بیان کے قالب میں ڈھالے ۔ ذاتی دکھ سکھ فرد کو بے پناہ متاثر کر تے ہیں اور یہ انفرادی سطح پر اہمیت کے حامل بھی ہوتے ہیں لیکن بڑا ادب اس وقت تخلیق ہوتا ہے جب فرد خود سے باہر نکل کر کائناتی صداقتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور اجتماعی سطح پر انھیں بیان کر نے پر قادر ہوتا ہے ۔ اب صرف عشقیہ شاعری کو ہی لیجیے ! کیا محض ایک عاشق زار کا قصہ عشق ہی اس کی بنیاد ہو سکتا ہے کیا عشقیہ شاعری روزنامچہ یا ڈائری ہے جس میں عاشق اپنی روداد لکھ ڈالتا ہے ۔ اردو ادب میں محبوب کے جوروستم ہجر و وصال اور لب و رخسار کے قصے بہت ملتے ہیں لیکن گوشت پوست کا حقیقی محبوب بڑی دیر میں نصیب ہوا۔ میر غالب’ مومن ذوق داغ سب نے کئی روپ پیش کیے لیکن محبوب یا تو پردہ نشین رہا یا کوٹھا نشین ۔ چلتا پھرتا باتیں کرتا ،پڑوس لڑکی والا روپ ہمیں حسرت نے دیا۔ حسرت موہانی نے ایک باوقار حقیقی محبوب اردو شاعری کو دیا جسے انسانی سطح پر محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ فراق ایسے ہی تصور کے قائل تھے اس کے باوجود کہ ان کے ہاں محبوب کا ایسا واضح تصور نہیں ملتا لیکن اس میں شک نہیں کہ وہ برابری کی سطح پر محبوب کو پیش کرتے ہیں اور اس کے حسن اداؤں اور جوانی کی ستائش بھرپور طریقے سے کر تے ہیں۔
——
گزرے ہوۓ زمانے یوں یاد آ ر ہے ہیں
منہ پھیر کر وہ جیسے کچھ مسکرا ر ہے ہیں
اے حسن ساده اتنا سادہ بھی کب ہے اے دل
ہاۓ کھوۓ جا یونہی تو وہ پاۓ جا رہے ہیں
——
مجھ کو فراق یاد ہے پیکر رنگ و بوۓ دوست
پاؤں سے تا جبین ناز ، مہر فشاں و مہ چکاں
——
لہرا لہرا سا اٹھتا ہے رہ رہ کر وہ پیکر ناز
دنیا دنیا ہے ہر ادا عا لم عا لم ہے دو بدن
——
فراق گورکھپوری کی شاعری میں محبت کے گوناں گوں تجربات عشق کی سیماب صفتی مظاہر کائنات کے ساتھ ساتھ جنسی عنصر بھی ملتا ہے ۔ لیکن ان کے ہاں جنسی تجربے کا ارتفاع اور طہارت کا احساس ہے۔ وہ جنسی جذبات کو تہذیب حیات انسانی کے بلند ترین مقاصد میں سے سمجھتے تھے ۔ یہ معاملہ غورطلب بھی ہے شاعری میں عشقیہ جذبات کا اظہار محض محبوب کی خوبصورتی کے بیان وصل کی آرزو اور ہجر کے دکھڑے سے ہی عبارت نہیں بلکہ عشق کے اظہار کو ہمہ جہت ہونا چاہیے کہ بہت سے دیگر جذبات کی نمائندگی کر سکے ۔ مثلا انسانی عظمت انسان دوستی وغیرہ دنیا کے کئی ادبی کلاسیک کا بنیادی موضوع رومانی محبت ہے نظیر یا حافظ کی غزلیات ہوں یا کالیداس کی شکنتلا ۔ ہر جگہ موضوع تو رومانی ہے لیکن لطیف رومانی و جنسی جذبات کے ساتھ آزادی انقلاب مساوات تہذیب اور حیات نو کی بشارت بھی شامل ہے ۔فراق تصور فن میں عشق اور جنسیت کے قائل تھے ان کا یہ کہنا قابل غور ہے: نری جنسیت یا نرا عشق صحیح معنوں میں نہ جنسیت ہو تی ہے نہ عشق ہوتا ہے یہی بات شاعری کے لیے بھی کہوں گا۔ نری شاعری اور نرا شاعر صحیح معنی میں نہ شاعری ہوتی ہے نہ شاعر ہوتا ہے .عاشق کے عشق میں اگر وہ شاعر بھی ہے تو اس کی عشقیہ شاعری میں ایک گھٹن پیدا ہو جانا ناگزیر ہے ۔آفاقی دلچسپیاں عشقیہ شاعری میں آفاقیت پیدا کرتی ہے . تہذیب کے کارنامے جنسیت ہی کے کرشمے ہیں علی ہذا القیاس تہذیب کے کارناموں سے دلچسپیاں جنسیت کے ارتقاء میں مدد دیتی ہیں۔‘ ( 1 )
——
میں آج صرف محبت کے غم کروں گا یاد
یہ اور بات کہ تیری بھی یاد آ جاۓ
فريب عہد محبت کی سادگی کی قسم
وہ جھوٹ بول کہ سچ کو بھی پیار آ جاۓ
——
اک ایک صفت فراق اس کی
دیکھا ہے تو ذات ہو گئی ہے
——
تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو
تم کو دیکھیں کہ تم سے پیار کریں
——
کہاں ہر ایک سے بار نشاط اٹھ سکتا
بلائیں یہ بھی محبت کے سرگئی ہوں گی
——
اب بحر عشق تیر بھی جائیں مگر نہیں
ایسا کوئی کنارہ کہ ساحل کہیں جسے
——
ترا وصال بڑی چیز ہے مگر اے دوست
وصال کو مری دنیاۓ آرزو نہ بنا
——
وہ فسوں پھونکا کہ وحشی بھی مہذب ہو گئے
کر گیا کیا سحر مانا عشق با زیگر نہ تھا
——
اب اگر مجموعی طور پر فراق گورکھپوری کی عشقیہ شاعری کے اہم عناصر کی تقسیم کی جاۓ تو صورتحال کچھ یوں ہو گی۔ فراق گورکھپوری شعری تجربے کے مجر نہیں سمجھتے ، وہ اس میں ایک سچا اور گہرا جمالیاتی احساس چاہتے تھے اس لیے ان کی عشقیہ شاعری میں وجدانی شعور واحساس ملتا ہے ۔ ۲ ۔ وہ مظاہر فطرت کو مظاہر انسانی کے ساتھ ملا کر پیش کرنے پر قادر تھے ۔ فطرت سے مبری وابستگی ، جمالیاتی احساس و ادراک نے ان کے شعری تجربے کومتنوع بنا دیا۔
۔ ان کا خیال تھا کہ بڑا ادب اپنی کھال میں مست رہنے سے تخلیق نہیں ہوسکتا اس میں آفاقیت اور مقامیت کا سنگم ہوتا ہے ۔ علیحدگی ( separation ) قوموں ،تہذ یوں اور فنون کے لیے موت کا باعث بن جاتی ہے۔ ۔ انھوں نے اپنی عشقیہ شاعری کو سطحیت ،تئی ،منتقلی اور چھوٹے پن سے بچانے کی کوشش کی اور اس میں زندگی کی اعلی قدر میں شامل کر دیں ۔ نھیں اس بات کا احساس تھا کہ جب احساسات و جذبات کی معصومیت اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو معمولی الفاظ بھی معجزہ بن جاتے ہیں پھرکسی شعوری کوشش کی ضرورت نہیں رہتی ۔ ۵ ۔ وہ عشق کو انفرادی زندگی کا اہم تجربہ تو مانتے تھے لیکن اس انفرادیت بھی اجتماعیت کے طلبگار تھے یعنی عشق کے وسیع تر معنوں کے قائل تھے۔ وہ اپنی عشقیہ شاعری میں حیات ، کا ئنات اور تہذیب کو شامل کر دیتے ہیں۔ ۔ ماضی کی شعری روایت سے استفادے کو ان کے شعری تجربے میں خاص اہمیت حاصل ہے ۔ وہ عشقیہ شاعری میں نیچرل زبان کے استعمال پر خاص توجہ دیتے تاکہ اپنے مرکز سے دور نہ ہو جائیں ۔ وہ زبان کے قائل نہیں بلکہ احساسات کے تھے ۔ وہ اس بات پر خاص توجہ دیتے تھے کہ احساسات زبان کے سانچے میں ڈھلتے جذبات کی زبان ان کی عشقیہ شاعری میں اہمیت رکھتی ہے۔
——
حواشی و کتابیات
——
فراق گورکھپوری شاعری اور شخص ، مرتب شیم خنفی، بک ٹریڈرز لاہور ۱۹۸۳ ء
۲ ۔ فراق گورکھپوری ، سید جعفر ، ساہتیہ اکادمی دیلی ، ۱۹۹۶ ء
۳ ۔ جہان فراق ،مرتبہ تاج سعید ، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور ، ۱۹۹۱ ء
۴ ۔ غزل تنقید ، اسلوب احمد انصاری ، یو نیورسل بک ہاوس علی گڑھ ۲۰۰۳ ء
۵ ۔ فراق گورکھپوری صاحب ،مشتاق نقوی ،نرالا نگر لکھنو، ۱۹۸۴ ء
۲ ۔ ارتقاء،فراق نمبر ،جنوری ۲۰۰۴ ے۔ فراق گورکھپوری کی شاعری میں حسیاتی و جمالیاتی فضا، ڈاکٹر نجیب جمال مضمون، مشموله ارتقاء فراق نمبر ۲۰۰۴ ء ۔ فراق گورکھپوری ،اسلوب احمد انصاری مضمون مشمولہ گل نغمه مطبوعہ ادارہ انیس اردو الہ آباد، بھارت، ۱۹۵۹ ء
۔ کلام فراق کی کچھ جھلکیاں ، پروفیسر محمدعسکری مضمون مشمولہ گل نغمه مطبوعہ ادارہ انیس اردو الہ آباد، بھارت، ۱۹۵۹ ء
——
منتخب کلام
——
بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
——
کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں
عشق توفیق ہے گناہ نہیں
——
ہم سے کیا ہو سکا محبت میں
خیر تم نے تو بے وفائی کی
——
ذرا وصال کے بعد آئنہ تو دیکھ اے دوست
ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی
——
کھو دیا تم کو تو ہم پوچھتے پھرتے ہیں یہی
جس کی تقدیر بگڑ جائے وہ کرتا کیا ہے
——
سنتے ہیں عشق نام کے گزرے ہیں اک بزرگ
ہم لوگ بھی فقیر اسی سلسلے کے ہیں
——
آئی ہے کچھ نہ پوچھ قیامت کہاں کہاں
اف لے گئی ہے مجھ کو محبت کہاں کہاں
بیتابی و سکوں کی ہوئیں منزلیں تمام
بہلائیں تجھ سے چھٹ کے طبیعت کہاں کہاں
فرقت ہو یا وصال وہی اضطراب ہے
تیرا اثر ہے اے غم فرقت کہاں کہاں
ہر جنبش نگاہ میں صد کیف بے خودی
بھرتی پھرے گی حسن کی نیت کہاں کہاں
راہ طلب میں چھوڑ دیا دل کا ساتھ بھی
پھرتے لیے ہوئے یہ مصیبت کہاں کہاں
دل کے افق تک اب تو ہیں پرچھائیاں تری
لے جائے اب تو دیکھ یہ وحشت کہاں کہاں
اے نرگس سیاہ بتا دے ترے نثار
کس کس کو ہے یہ ہوش یہ غفلت کہاں کہاں
نیرنگ عشق کی ہے کوئی انتہا کہ یہ
یہ غم کہاں کہاں یہ مسرت کہاں کہاں
بیگانگی پر اس کی زمانے سے احتراز
در پردہ اس ادا کی شکایت کہاں کہاں
فرق آ گیا تھا دور حیات و ممات میں
آئی ہے آج یاد وہ صورت کہاں کہاں
جیسے فنا بقا میں بھی کوئی کمی سی ہو
مجھ کو پڑی ہے تیری ضرورت کہاں کہاں
دنیا سے اے دل اتنی طبیعت بھری نہ تھی
تیرے لئے اٹھائی ندامت کہاں کہاں
اب امتیاز عشق و ہوس بھی نہیں رہا
ہوتی ہے تیری چشم عنایت کہاں کہاں
ہر گام پر طریق محبت میں موت تھی
اس راہ میں کھلے در رحمت کہاں کہاں
ہوش و جنوں بھی اب تو بس اک بات ہیں فراقؔ
ہوتی ہے اس نظر کی شرارت کہاں کہاں
——
کچھ اشارے تھے جنہیں دنیا سمجھ بیٹھے تھے ہم
اس نگاہ آشنا کو کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم
رفتہ رفتہ غیر اپنی ہی نظر میں ہو گئے
واہ ری غفلت تجھے اپنا سمجھ بیٹھے تھے ہم
ہوش کی توفیق بھی کب اہل دل کو ہو سکی
عشق میں اپنے کو دیوانہ سمجھ بیٹھے تھے ہم
پردۂ آزردگی میں تھی وہ جان التفات
جس ادا کو رنجش بے جا سمجھ بیٹھے تھے ہم
کیا کہیں الفت میں راز بے حسی کیوں کر کھلا
ہر نظر کو تیری درد افزا سمجھ بیٹھے تھے ہم
بے نیازی کو تری پایا سراسر سوز و درد
تجھ کو اک دنیا سے بیگانہ سمجھ بیٹھے تھے ہم
انقلاب پے بہ پے ہر گردش و ہر دور میں
اس زمین و آسماں کو کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم
بھول بیٹھی وہ نگاہ ناز عہد دوستی
اس کو بھی اپنی طبیعت کا سمجھ بیٹھے تھے ہم
صاف الگ ہم کو جنون عاشقی نے کر دیا
خود کو تیرے درد کا پردا سمجھ بیٹھے تھے ہم
کان بجتے ہیں محبت کے سکوت ناز کو
داستاں کا ختم ہو جانا سمجھ بیٹھے تھے ہم
باتوں باتوں میں پیام مرگ بھی آ ہی گیا
ان نگاہوں کو حیات افزا سمجھ بیٹھے تھے ہم
اب نہیں تاب سپاس حسن اس دل کو جسے
بے قرار شکوۂ بیجا سمجھ بیٹھے تھے ہم
ایک دنیا درد کی تصویر نکلی عشق کو
کوہکن اور قیس کا قصہ سمجھ بیٹھے تھے ہم
رفتہ رفتہ عشق مانوس جہاں ہوتا چلا
خود کو تیرے ہجر میں تنہا سمجھ بیٹھے تھے ہم
حسن کو اک حسن ہی سمجھے نہیں اور اے فراقؔ
مہرباں نا مہرباں کیا کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم
——
کمی نہ کی ترے وحشی نے خاک اڑانے میں
جنوں کا نام اچھلتا رہا زمانے میں
فراقؔ دوڑ گئی روح سی زمانے میں
کہاں کا درد بھرا تھا مرے فسانے میں
جنوں سے بھول ہوئی دل پہ چوٹ کھانے میں
فراقؔ دیر ابھی تھی بہار آنے میں
وہ کوئی رنگ ہے جو اڑ نہ جائے اے گل تر
وہ کوئی بو ہے جو رسوا نہ ہو زمانے میں
وہ آستیں ہے کوئی جو لہو نہ دے نکلے
وہ کوئی حسن ہے جھجکے جو رنگ لانے میں
یہ گل کھلے ہیں کہ چوٹیں جگر کی ابھری ہیں
نہاں بہار تھی بلبل ترے ترانے میں
بیان شمع ہے حاصل یہی ہے جلنے کا
فنا کی کیفیتیں دیکھ جھلملانے میں
کسی کی حالت دل سن کے اٹھ گئیں آنکھیں
کہ جان پڑ گئی حسرت بھرے فسانے میں
اسی کی شرح ہے یہ اٹھتے درد کا عالم
جو داستاں تھی نہاں تیرے آنکھ اٹھانے میں
غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست
وہ تیری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں
ہمیں ہیں گل ہمیں بلبل ہمیں ہوائے چمن
فراقؔ خواب یہ دیکھا ہے قید خانے میں
——
نگاہ ناز نے پردے اٹھائے ہیں کیا کیا
حجاب اہل محبت کو آئے ہیں کیا کیا
جہاں میں تھی بس اک افواہ تیرے جلووں کی
چراغ دیر و حرم جھلملائے ہیں کیا کیا
دو چار برق تجلی سے رہنے والوں نے
فریب نرم نگاہی کے کھائے ہیں کیا کیا
دلوں پہ کرتے ہوئے آج آتی جاتی چوٹ
تری نگاہ نے پہلو بچائے ہیں کیا کیا
نثار نرگس مے گوں کہ آج پیمانے
لبوں تک آئے ہوئے تھرتھرائے ہیں کیا کیا
وہ اک ذرا سی جھلک برق کم نگاہی کی
جگر کے زخم نہاں مسکرائے ہیں کیا کیا
چراغ طور جلے آئنہ در آئینہ
حجاب برق ادا نے اٹھائے ہیں کیا کیا
بقدر ذوق نظر دید حسن کیا ہو مگر
نگاہ شوق میں جلوے سمائے ہیں کیا کیا
کہیں چراغ کہیں گل کہیں دل برباد
خرام ناز نے فتنے اٹھائے ہیں کیا کیا
تغافل اور بڑھا اس غزال رعنا کا
فسون غم نے بھی جادو جگائے ہیں کیا کیا
ہزار فتنۂ بیدار خواب رنگیں میں
چمن میں غنچۂ گل رنگ لائے ہیں کیا کیا
ترے خلوص نہاں کا تو آہ کیا کہنا
سلوک اچٹے بھی دل میں سمائے ہیں کیا کیا
نظر بچا کے ترے عشوہ ہائے پنہاں نے
دلوں میں درد محبت اٹھائے ہیں کیا کیا
پیام حسن پیام جنوں پیام فنا
تری نگہ نے فسانے سنائے ہیں کیا کیا
تمام حسن کے جلوے تمام محرومی
بھرم نگاہ نے اپنے گنوائے ہیں کیا کیا
فراقؔ راہ وفا میں سبک روی تیری
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا